"MIK" (space) message & send to 7575

32 سیکنڈ کا مُصافحہ

نیپال میں سارک سربراہ اجلاس ختم بھی ہوگیا مگر خطے کی سَرد مہری ختم نہ ہوسکی۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی سے خاصی گرم جوشی کی توقع کی جارہی تھی مگر اے وائے ناکامی کہ اِس بار بھی بھارتی قیادت نے علاقائی توقعات کا گلا گھونٹ کر دم لیا۔ نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کرکے وزیر اعظم نواز شریف نے دُنیا کو بتادیا تھا کہ دو طرفہ تعلقات بہتر بنانے کی زیادہ خواہش پاکستان میں پائی جاتی ہے۔ تعلقات کے حوالے سے معمول کا لفظ ہم نے اس لیے استعمال نہیں کیا کہ جب ہم کہتے ہیں کہ پاک بھارت تعلقات معمول پر آچکے ہیں تو اِس کا عمومی مفہوم یہ ہوتا ہے کہ کشیدگی پھر پیدا ہوچکی ہے۔ جب کشیدگی معمول ہو تو یہی کہا اور سمجھا جائے گا۔ 
خیر، وزیر اعظم محمد نواز شریف نے کٹھمنڈو میں سارک کے توسط سے لگنے والے علاقائی سفارتی سرکس میں تَنے ہوئے رَسّے پر چلنے کا تاثر دینے سے گریز کیا۔ اُن کی بھرپور کوشش رہی کہ برف تھوڑی تو پگھلے، معاملات کچھ تو بہتری کی طرف رواں ہوں۔ یہ ناگزیر ہے کیونکہ خِطّے کے عوام سفارتی سطح پر پائی جانے والی سَرد مہری سے بہت پریشان ہیں۔ اِس سَرد مہری اور کشیدگی سے عوامی رابطے بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ 
بھارتی وزیر اعظم نے پاکستان کی طرف سے دکھائی جانے والی گرم جوشی کا کما حقہ جواب دینے سے گریز کیا۔ پاکستان سے تعلقات بہتر بنانا شاید اِس وقت بھارتی قیادت کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ یا اگر اِس فہرست میں ہے بھی تو بہت نیچے ہے۔ پاکستان میں حکومت کی بڑھتی ہوئی مشکلات اور بالخصوص وزیر اعظم کے لیے جنم لینے والے مسائل نے بھارتی قیادت کو خاصی توانائی بخشی ہے۔ پاکستان کی اندرونی سیاسی کشمکش سے بھارت کو تقویت نہ ملے، ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ 
سارک سربراہ اجلاس کے دوران نواز شریف جب تقریر کرنے کے لیے بھارتی ہم منصب کے عقب سے گزرے تو اُنہوں نے ایک نظر دیکھنا بھی گوارا نہ کیا۔ نریندر نے مودی نے اِس مرحلے پر اپنے سامنے پڑا ہوا جریدہ اُٹھایا اور ورق گردانی شروع کردی۔ یہ ہے بھارتی ترجیحات کی سطح اور معیار۔ رسمی گفتگو اور اخلاقاً سَر کو جنبش دے کر نیک خواہشات کا خلوص سے جواب دینا بھی سفارتی تماشا ہوگیا ہے۔ سارک سربراہ اجلاس سے پاکستان اور بھارت کے عوام نے بہت سی توقعات وابستہ کرلی تھیں۔ خطے کے دیگر قائدین بھی چاہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان قربت بڑھے تاکہ خطے مستحکم ہو۔ اُنہیں اندازہ ہے کہ جب تک یہ جوہری قوتیں کشیدگی کو خیرباد کہتے ہوئے دوستی اور مفاہمت کی راہ پر گامزن نہیں ہوں گی، علاقائی استحکام کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں کیا جاسکے گا۔ 
سارک سربراہ اجلاس کے اختتامی لمحات میں بھارتی قیادت کو اجلاس کے میزبانوں اور خطے کے عوام پر کچھ رحم آگیا۔ بھارتی وزیر اعظم نے مناسب جانا کہ پاکستانی ہم منصب کو مصافحے کا شرف بخش دیا جائے۔ نریندر مودی نے میاں صاحب کا ہاتھ تھاما اور 32 سیکنڈ تک تھامے رہے۔ یہ منظر سارک سربراہ اجلاس کے شرکاء ہی نہیں بلکہ پورے خِطّے کے عوام کے لیے انتہائی حیرت انگیز تھا۔ کسی کو توقع نہ تھی کہ نریندر مودی وہ سَرد مہری ترک کردیں گے جس کا مظاہرہ اُنہوں نے اِسی اجلاس میں پہلے کسی مرحلے پر کیا تھا۔ بڑی سرکار کو خِطّے کے غریبوں پر ترس آ ہی گیا اور اُنہوں نے تھوڑے سے دان پُن کے ذریعے ایونٹ کو مکمل ناکامی کے آغوش میں جانے سے بچالیا۔ فوٹو گرافرز کی دِلی مُراد بر آئی۔ اُن کی دِلی مُراد تو اُس وقت بھی بر آئی تھی جب نواز شریف عقب سے گزرے اور نریندر مودی نے مُنہ پھیر کر اُنہیں ایک نظر دیکھنا بھی گوارا نہ کیا۔ 
چلیے، بھاگتے چور کی لنگوٹی سہی۔ نیپال کی قیادت بھی تو خوش تو ہو ہی گئی ہوگی کہ سارک سربراہ اجلاس یکسر ناکام نہیں رہا۔ اگر اِس بھرپور سفارتی تماشے کے نتیجے میں خِطّے کے قائدین نے 32 سیکنڈ کا مصافحہ بھی کرلیا تو بڑی بات ہے۔ اِتنا بھی غنیمت ہے۔ تھوڑے کو بہت اور خط کو تار سمجھ کر خوش ہو رہنا ہی بہتر ہے۔ اگر اِتنا بھی نہ ہوا ہوتا تو کوئی کیا کرلیتا؟ 
چند ماہ کے دوران بہت کچھ بدلا ہے، بہت کچھ ٹھکانے لگا ہے۔ سوال صرف پاکستان کی اندرونی سیاست کا نہیں۔ بھارت میں بھی خاصی حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ طاقت کا مظاہرہ کرنے کا رُجحان ایک بار پھر تقویت پا رہا ہے، گویا پاکستان کو مرعوب یا زیر نگیں کرنا مقصود ہو۔ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے، کچھ واضح نہیں ہو پارہا۔ نئی دہلی کی اپروچ میں اچانک رونما ہونے والی تبدیلیوں کی غایت جان پانا بچوں کا کھیل نہیں۔ پتا نہیں کب مہا راج کے ذہن میں کیا آ جائے اور وہ کیا کرنے کی ٹھان لیں۔ اِس وقت بھی تو کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ پاکستان دوستی کا ہاتھ بڑھا رہا ہے مگر دوسری طرف سے یہ ہاتھ جھٹکا جارہا ہے۔ سرحدی کشیدگی کا گراف خاصی محنت اور توجہ کے ساتھ بلند کیا جارہا ہے۔ خاردار تاروں والی باڑ لگانے پر اکتفا نہیں کیا جارہا، دِلوں کے بیچ دیواریں بھی کھڑی جارہی ہیں تاکہ دوستی اور مفاہمت کا امکان کمزور سے کمزور تر ہوتا جائے۔ 
امن کی آشا کا راگ الاپنے والوں کے جذبے بھی ٹھنڈے پڑتے جارہے ہیں۔ دوستی اچھی چیز ہے مگر اِس کے لیے یا اِس کے نتیجے میں سب کچھ داؤ پر تو نہیں لگایا جاسکتا۔ اچھے تعلقات ناگزیر ہیں مگر اُن کی خاطر یا اُن کے نتیجے میں گردن جُھکا لینا تو ناگزیر نہیں۔ علاقائی چوہدری بننے کی کوشش میں کمزوروں کی گردن دبوچنا کہاں کی سفارت کاری ہے؟ جب کوئی برابری کی بات کرے تو کچھ زیادہ ہی بُرا ماننے کی کیا ضرورت ہے؟ 
جنوبی ایشیا میں بہت کچھ بہت تیزی سے بدل رہا ہے۔ اِس بدلتے ہوئے ماحول میں بھارت کو صرف اپنے مفادات کی پڑی ہے۔ وہ کسی اور خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں۔ امریکہ نے پشت پناہی کی ٹھانی ہے تو اب بھارت کی قیادت علاقے کو مُٹھی میں لینے پر تُلی ہوئی ہے۔ امریکہ کو سالِ رواں کے آخر تک افغانستان سے رخصت ہونا ہے۔ مگر پاکستان اور طالبان کو سبق سکھانے اور زیر نگیں رکھنے کے لیے وہ بھارت کو افغانستان میں غالب حیثیت عطا کرنا چاہتا ہے۔ مہا راج اِتنے خوش ہیں اور اِتنے اُتاؤلے ہوئے جارہے ہیں کہ کم و بیش پانچ عشروں تک بے مثال انداز سے دوستی نبھانے والے روس کو بھی بھول بیٹھے ہیں۔ اور اِس کے نتیجے میں روس کو پاکستان یاد آگیا ہے! ابھی تو جنوبی ایشیا میں بادشاہت پوری طرح نصیب بھی نہیں ہوئی اور بدمزاجی کا یہ عالم ہے۔ علاقائی سطح پر چوہدراہٹ قائم ہوگئی تو کیا ہوگا؟ ع 
جب رات ہے ایسی متوالی، پھر صبح کا عالم کیا ہوگا!
پاکستان کو مرعوب کرنا آسان نہیں مگر خِطّے کے کمزور ممالک کیا سوچ رہے ہیں؟ کیا آنے والا وقت اُن کی مشکلات میں اِضافہ نہیں کرے گا؟ 
پاکستان نے بھارت سے دوستی کی ایک نہیں، کئی کوششیں کی ہیں۔ اور ہر بار بہت حد تک ناکامی و نامُرادی ہی حصے میں آئی ہے۔ فریقِ ثانی معاملات کو صرف اُس وقت تک چلنے دیتا ہے جب تک برابری کا سوال نہیں اُٹھایا جاتا۔ جہاں برابری کی بنیاد پر کچھ مانگیے، سب کچھ داؤ پر لگ جاتا ہے۔ جیسے ہی انصاف کی بات کیجیے، مہا راج کی نیت کا فتور بے پردہ، بلکہ برہنہ ہوکر سامنے آ جاتا ہے! 
جنوبی ایشیا کو ایسا بھارت درکار ہے جو وقت کے تقاضوں اور حالات کی نزاکت کو کماحقہ سمجھتا ہو۔ سب کو دباکر، دبوچ کر رکھنے کی پالیسی اُسے زیادہ دیر تک مستحکم نہیں رکھ سکتی۔ خِطّے کو حقیقی استحکام درکار ہے جس میں تمام ہی ممالک کے مفادات کا احترام کیا جائے۔ پاکستان کے لیے علاقائی استحکام اُسی وقت سُود مند ثابت ہوسکتا ہے جب اُسے محض 32 سیکنڈ کے مصافحے پر نہ ٹرخایا جائے بلکہ اُس کے مفادات کا پورا خیال رکھا جائے۔ بھارتی قیادت کو پاکستان سے بہتر سُلوک کی توقع اُسی وقت رکھنی چاہیے جب وہ خود بہتر سُلوک پر یقین رکھتی ہو۔ دوستی اور مفاہمت باہمی احترام اور برابری کی بنیاد ہی پر پنپ سکتی ہے۔ جمہوری بھارت کو مہا راجاؤں والے اطوار ترک کرنے ہوں گے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں