ہماری سادگی کی انتہا اور مُغالطے کا درجۂ کمال دیکھیے کہ ہم خط لکھنے کی رسم یا رُجحان کو یکسر متروک و معدوم سمجھ بیٹھے تھے۔ اچھا ہوا کہ حکومتوں کی سطح پر پائے جانے والے مُناقشے نے یہ مُغالطہ یا ابہام دُور کردیا۔
دورِ جدید کے ابلاغی تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے بعد ہم تو یہ بھی بھول بیٹھے تھے کہ اُردو شاعری خط لکھنے اور اُس کے نتائج کے دلچسپ بیانات سے بھری پڑی ہے۔ مثلاً ؎
خط کے پُرزے ہیں دستِ قاصد میں
ایک کیا، سو جواب لایا ہے!
کسی زمانے میں خط لکھنا ایسا عام ہوگیا تھا کہ کسی جواز یا سبب کے بغیر بھی خط لکھنا ناگزیر سمجھا جاتا تھا۔ اور بہت سوں نے تو خط لکھنے ہی کو شاعری کا درجہ دینا شروع کردیا تھا۔ غالبؔ نے کہا تھا ؎
خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے!
سوال یہ ہے کہ آپ کسی کے نام کے عاشق ہوں تو خواہ مخواہ کاغذ، قلم اور دوات ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے!
خط کے ذریعے دِل و دِماغ پر قیامت ڈھانے کا کام بھی لیا جاتا تھا۔ مثلاً داغؔ دہلوی فرماتے ہیں ؎
اُن کے خط میں مجھے غیروں کے سلام آتے ہیں
کس قیامت کے یہ نامے مِرے نام آتے ہیں!
یہ واضح نہیں کہ آیا داغؔ نے قیامت محبوب کو کہا تھا!
داغؔ نے یہی مضمون کہیں اور اِس طرح بھی باندھا ؎
تمہارے خط میں نیا اِک سلام کِس کا تھا؟
نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کِس کا تھا؟
ڈیڑھ دو سو سال پہلے کا زمانہ تھا ہی ایسا کہ ذرا سی دیر میں سارے شہر میں خط کا چرچا ہو جایا کرتا تھا۔ چند گرام کے مکتوب کو مکتوب الیہ تک پہنچانے کا نظام ہی ایسا تھا کہ ہرکارہ گلی میں قدم رکھتا تو ہر گھر کے دروازے یہ دیکھنے کے لیے کُھل جاتے کہ کون خوش نصیب ہے جو مکتوب الیہ کے منصبِ جلیلہ پر فائز ہوا ہے! اور اگر کوئی ایسا ویسا خط ہاتھ لگ جاتا تو اُس کی نمائش اِس اہتمام سے کی جاتی تھی کہ اماوس کی رات میں بھی ''عِزّت‘‘ کو چار چاند لگ جاتے تھے! غالبؔ نے ایسی ہی کیفیت کے لیے کہا تھا ؎
غیر پھرتا ہے لیے یوں تِرے خط کو کہ اگر
کوئی پُوچھے کہ یہ کیا ہے تو چُھپائے نہ بنے!
ہم تو یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ جدید دور کے تقاضوں کو نبھانے کے چکر میں لوگ خط وَط لکھنا بھول بیٹھے ہیں۔ اور اِس میں غلط بھی کیا ہے؟ موبائل فون اِس قدر عام ہوگئے ہیں کہ لوگ اب وہ ساری باتیں فون پر کرلیتے ہیں جو کبھی وقت نکال کر خط کے نام پر قلم کے ذریعے قرطاس پر منتقل کی جاتی تھیں۔ اور کبھی کبھی تو معاملہ ایسی شِدّت سے دوچار ہوتا تھا گویا ع
کاغذ پہ رکھ دیا ہے کلیجہ نکال کے!
مگر ''حُسن بیان‘‘ کی وہ شِدّت اب تو محض خیال و خواب کا حصہ ہوکر رہ گئی ہے۔ رہی سہی کسر ایس ایم ایس کلچر نے پوری کردی ہے۔ چند جُملوں میں ما فی الضمیر کا ضمیر غائب تک بیان ہوجاتا ہے! ایسے میں کوئی کیا خط لکھے؟ اور کیوں؟
خیر گزری کہ اقتدار کے ایوانوں میں جلوہ افروز جماعتوں کی آپس کی لڑائی نے خط لکھنے کی روایت کو نئی زندگی عطا کی ہے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ نے سندھ کی حق تلفی پر وزیر اعظم محمد نواز شریف کو خط لکھ کر اپنے ہونے کا ایک اور ثبوت پیش کیا ہے! بقول عدیمؔ ہاشمی ؎
آج بھی دیکھ لیا اُس نے کہ میں زندہ ہوں
چھوڑ آیا ہوں اُسے آج بھی حیرانی میں
شاہ سائیں کے بارے میں لوگوں نے بہت سی بے سَر و پا باتیں پھیلا رکھی ہیں۔ یہ تاثر پیدا کیا گیا ہے کہ شاہ سائیں کچھ نہیں کرتے۔ تھر کے دورے کے ذریعے (جس میں اُنہوں نے افلاس اور بُھوک کے ہاتھوں لُٹے پِٹے لوگوں کے درمیان خوابِ خرگوش کے مزے بھی لُوٹے) اور میاں صاحب کو خط لکھ کر شاہ سائیں نے اپنے مخالفین اور ناقدین کو ایک اور ''دندان شکن‘‘ جواب دیا ہے۔
شاہ سائیں کا شِکوہ ہے کہ وفاقی بیورو کریسی میں سندھ کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ سندھ کو پورا کوٹا نہیں دیا جاتا۔ اور یہ کہ سندھ سے زیادتی کے ازالے کے لیے انقلابی اقدامات کئے جائیں۔ شاہ سائیں لکھتے ہیں کہ وفاقی بیورو کریسی میں سندھ کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے جس کے باعث سندھ میں شدید احساس محرومی جنم لے رہا ہے۔
شاہ سائیں کی سادگی ملاحظہ فرمائیے کہ وزیر اعظم سے چاہتے ہیں کہ وہ سندھ کا احساس محرومی ختم کرنے کے لیے انقلابی نوعیت کے اقدامات کریں۔ کیا شاہ سائیں کو معلوم نہیں یا اندازہ نہیں کہ میاں صاحب آج کل انقلاب اور اِس سے ملتے جُلتے ہر لفظ سے سخت متنفّر ہیں! ''انقلابیوں‘‘ ہی نے تو ریڈ زون کا تقدس پامال کرکے حکمرانوں کا بیرونی دوروں پر جانا مشکل کر رکھا ہے! ایسے میں وزیر اعظم سے بھلا کسی بھی سطح پر انقلابی اقدام کی توقع کیونکر کی جاسکتی ہے! اور یوں بھی سندھ نے میاں صاحب کو کون سا سُکھ دیا ہے وہ اِس کے مفاد کا سوچیں۔ سندھ میں اُن کی پارٹی سخت محرومی کی حالت میں ہے۔ شاہ سائیں نے تو خط لکھ کر اپنا یا صوبے کا رونا رو دیا۔ میاں صاحب اپنا دُکھڑا کِس کے آگے روئیں؟
شاہ سائیں کا خط ابھی منظر عام پر آیا ہی تھا کہ اُس کا تاثر یا تاثیر زائل کرنے کے لیے متحدہ کے بابر غوری میدان میں آگئے اور ایک خط داغ دیا۔ یہ خط اُن زیادتیوں کے بارے میں ہے جو سندھ میں شہری آبادیوں سے روا رکھی جارہی ہیں۔ بابر غوری نے اِس خط میں لکھا ہے کہ سندھ کے محکموں میں ملازمت کی تقسیم کے حوالے سے تمام قواعد و ضوابط کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ بابر غوری نے پولیس، ایکسائز، ریونیو، آب پاشی، زراعت، قانون اور دیگر محکموں کا ذکر کیا ہے جن میں شہری آبادیوں سے تعلق رکھنے والوں کو ملازمت دینے سے گریز کیا جارہا ہے۔ بابر غوری کا استدلال ہے کہ شہری آبادیوں کو نظر انداز کرنے اور بے لیاقت افراد کو بھرتی کرنے ہی کے باعث آج نا اہلی اور بد انتظامی صوبائی حکومت کا ''طرۂ امتیاز‘‘ بنی ہوئی ہے!
شاہ سائیں کے خط لکھنے پر ہمیں حیرت ہوئی۔ حیرت یُوں ہوئی کہ بہت دنوں کے بعد وہ حرکت میں آئے ہیں اور اُن کی طرف سے کوئی اقدام (قلمی ہی سہی) سامنے آیا ہے۔ اور مزید حیرت اِس بات پر ہوئی شاہ سائیں اِس طور حرکت میں آئے ہیں کہ جواب میں کسی اور کو بھی متحرک ہونا پڑا ہے۔ بابر غوری کو فوری جواب دینا پڑا۔ اُنہوں نے اپنے خط میں شاہ سائیں کے اُس خط کا حوالہ دیا ہے جو اُنہوں نے میاں صاحب کو لکھا ہے۔
محبت کرنے والے خط کا جواب بہت تیزی سے دیا کرتے ہیں مگر شاید اِتنی تیزی تو اُن کے ہاں بھی نہیں پائی جاتی! بابر غوری کا خط بالکل غوری میزائل کی سی تیزی سے آیا ہے!
قوم پریشان ہے۔ بُنیادی مسائل حل نہیں ہو رہے۔ دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنا اب زندگی کا مقصد سا ہوکر رہ گیا ہے۔ حالات ایسے ہیں کہ بعض شہروں میں لوگ کام پر جاتے ہیں تو گھر والے دعا مانگتے ہیں کہ وہ شام کو خیریت سے لوٹ آئیں! اور جب وہ شام کو تھکے ماندے لوٹتے ہیں تو دِل کو ایسی خوشی ملتی ہے جیسے خزانہ ہاتھ لگ گیا ہو! ایسے میں کسی کو اِس بات سے کیا غرض کہ کِس نے کِس کو خط میں کیا لکھا۔ سب چاہتے ہیں کہ ایک دوسرے کے پتے پر خط بھیجنے کے بجائے عوامی مسائل کو address کیا جائے! قوم کو اُس خط کا انتظار ہے جس میں اُن کے مسائل حل کرنے کی نوید سُنائی گئی ہو۔ مگر شاید ایسا کوئی بھی خط لکھنے والی روشنائی اور قرطاس و قلم فی الحال ہماری کسی بھی سطح کی حکومت کے پاس نہیں۔
عوام کے مسائل حل کرنا جن کی ذمہ داری ہے وہ اب تک آپس میں دست و گریباں ہیں۔ کبھی میمو کا معاملہ اُٹھتا ہے، کبھی خط لکھنے کی بات ہوتی ہے۔ عوام کو یہ سب نہیں چاہیے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اہل اقتدار اب اُن کا مزید خط نہ بنائیں بلکہ خطِ مستقیم پر چل کر دکھائیں یعنی گڈ گورننس کا اہتمام کریں! اِسی صورت عوام کی توقعات پر خطِ تنسیخ پِھرنے کا سلسلہ رُک سکے گا!