جب کبھی عجیب و غریب رسوم اور سمجھ میں نہ آنے والی حرکتوں کا ذکر چھڑتا ہے، ذہن کے پردے پر سب سے پہلے افریقہ یا پھر بھارت اُبھرتا ہے۔ یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ معاشرت اور عقیدت کے نام پر عجیب و غریب حرکتوں کا مشاہدہ کرنے کے لیے دور اُفتادہ خطوں کی طرف نہیں دیکھنا پڑتا۔ بھارت کی شکل میں اللہ نے ہمیں عجیب و غریب رسوم و روایات سے مالا مال ہمسایہ عطا کیا ہے اور محض عطا نہیں کیا ہے، بلکہ اُسے بھگتنے کا ''سنہرا موقع‘‘ بھی ہمیں بخشا ہے!
بھارت ہمیشہ پُراسرار اطوار، عقائد اور روایات کا مرکز، بلکہ منبع رہا ہے۔ صدیوں کے عمل میں یہ پُراسراریت اِس قدر محکم ہوگئی ہے کہ اب اُس نے ریاستی پالیسیوں میں بھی جگہ بنالی ہے، بلکہ اُن میں دُھونی رمائے بیٹھی ہے!
بھارت میلوں ٹھیلوں کا بھی دیس ہے۔ ملک بھر میں دیہی ثقافت میلوں اور تماشوں سے آراستہ ہے۔ لوگوں کو میلوں میں گھومنے اور نوٹنکی دیکھنے میں بہت مزا آتا ہے۔ شاید اِسی حقیقت کو ذہن نشین رکھتے ہوئے بھارت کے پالیسی میکرز نے بیشتر ریاستی افکار و اعمال میں ناٹک کا رنگ بھرنے پر توجہ دی ہے۔ اب حال یہ ہے کہ نئی دہلی سفارتی سطح پر جو کچھ بھی کرتا ہے اُس میں اہلِ جہاں کو اچھی خاصی ڈرامائیت محسوس ہوتی ہے، بھرپور نوٹنکی کا مزا آتا ہے!
بھارت میں ثقافت اور عقیدت اِس قدر گھل مل گئے ہیں کہ اُنہیں الگ کرنا اب تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔ سیکڑوں بلکہ ہزاروں سال سے بھارت میں نَفس کی اصلاح کے لیے اذیت اُٹھانے کا تصور توانا رہا ہے۔ لوگ اپنے نفس کو مارنے یا دبائے رکھنے کے لیے خود کو طرح طرح کی اذیت سے دوچار رکھتے ہیں۔ رفتہ رفتہ یہی ذہنیت اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کے لیے بھی اپنائی جاتی رہی۔ ہوسکتا ہے کہ اب مسلمانوں کو وقتاً فوقتاً اذیت سے یہی سوچ کر دوچار کیا جاتا ہو کہ شاید اِس سے اُن کی ''اصلاح‘‘ ہوجائے! اگر مسلمان ''مجاہدۂ نفس‘‘ کے قائل ہوتے تو شاید ہندو اکثریت کو یہ سب نہ کرنا پڑتا، اِتنا کَشٹ نہ اُٹھانا پڑتا!
بھارت کے بہت سے علاقوں میں خود کو اذیت دے کر گناہوں سے چھٹکارا پانے کے مختلف طریقے رائج ہیں۔ سادھو سنیاسی دُنیا کی لَذّتیں تج کر انتہائی سادہ و بے رغبتی کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ بہت سے سادھو جسم پر راکھ مَل کر خود کو تو اذیت دیتے ہی ہیں، بے لباس رہ کر دوسروں کو بھی پریشان و بے حواس کیا کرتے ہیں! کبھی کبھی بھارت سرکار کی پالیسیوں میں بھی یہی سادھوؤں والی بے لباسی در آتی ہے! نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شریک ہوکر وزیر اعظم محمد نواز شریف نے جس خلوص کا مظاہرہ کیا تھا اُس کا جواب بھارتی قیادت نے سادھوؤں کی سی برہنگی کے ذریعے دینا مناسب سمجھا! مودی مہودے تو پاکستانی ہم منصب سے دوبارہ ملنے کے موڈ میں بھی نہ تھے۔ خیر گزری کہ سارک سربراہ اجلاس آگیا اور نیپال کی ہمالیہ بردار سرزمین پر بھارتی وزیر اعظم نے پاکستانی ہم منصب سے 32 سیکنڈ کا مصافحہ کرکے اپنا سفارتی قد کچھ بلند کرنے کی کوشش کی!
ہم نے چینلز پر افریقہ اور بھارت کے انتہائی پس ماندہ اور دور اُفتادہ علاقوں کے قبائل سے متعلق دستاویزی فلمیں دیکھی ہیں۔ بہت سے لوگ میلوں ٹھیلوں میں خود کو مختلف طریقوں سے اذیت دیتے نظر آتے ہیں۔ اذیت پسندی اُن کے مزاج میں گُندھ گئی ہے۔ کہیں کوئی خود کو قبر میں بند کرکے کئی گھنٹے گزارتا ہے۔ یہ تنفّس کی مشق ہے۔ کہیں کوئی یخ بستہ ماحول میں ایک ٹانگ پر کھڑا ہوکر کوئی وظیفہ کرتا نظر آتا ہے۔ بہت سے لوگ فولاد یا لکڑی کی لمبی سُوئی زبان اور ہونٹوں کے پار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہم ایسے تکلیف دہ ''مشاغل‘‘ کی غایت سمجھنے سے قاصر تھے اور سچ تو یہ ہے کہ اللہ نے ہمیں ایسے اعمال کے بارے میں سوچنے اور غور کرنے کی کبھی توفیق بھی نہیں بخشی! گزشتہ دنوں ایک خبر نظر سے گزری کہ لوگ فولاد یا لکڑی کی لمبی سُوئیوں کے ذریعے زبان، ہونٹ یا رُخسار چھید کر دراصل شادی کی شدید خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔
ہم یہ خبر پڑھ کر دنگ رہ گئے اور خدا کا شکر ادا کیا کہ ہم بھارت میں پیدا نہیں ہوئے ورنہ ایک ذرا سی شادی کی خواہش ظاہر کرنے کے لیے اِس اذیت ناک مرحلے سے گزرنا پڑتا! شادی کی خواہش کے اظہار کا کوئی اور، مہذّب طریقہ اِن لوگوں کو نہیں سُوجھ سکتا تھا؟ پھر خیال آیا کہ محبت اور شادی جیسے معاملات میں اِنسان کو اپنے دل و دماغ اور حواس پر کب اختیار رہتا ہے۔ ایسے میںکوئی بھی حماقت سرزد ہوسکتی ہے اور محبت کا ارتکاب تو عام طور پر ایسی حالت ہی میں ہوتا ہے! جس کے دِل و دماغ ٹھکانے پر ہوں وہ بھلا محبت یا شادی کی طرف جائے گا ہی کیوں! کوئی بھلا ہوش و حواس کی حالت میں اپنا دُشمن ہوسکتا ہے؟
غور کرنے پر اندازہ ہوا کہ شادی جس نوعیت کے تجربے کا نام ہے اُس کی خواہش کا اظہار خود کو اذیت دے کر ہی بہتر طور پر کیا جاسکتا ہے! ازدواجی زندگی بسر کرنے والوں سے پوچھیے تو وہ بتائیں گے کہ رات دن کیسی کیسی سُوئیاں چبھتی ہیں یا چبھوئی جاتی ہیں۔ زبان کو سُوئیوں سے چھیدنا تو ابتدائی مرحلہ ہے۔ ازدواجی زندگی میں کبھی کبھی تو زبان ہی غائب ہوجاتی ہے اور پھر چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ مَرد بے چارے اِس قدر چُپ رہتے ہیں یعنی منہ اِتنا بند رکھتے ہیں کہ جب کھانا کھاتے ہیں تب پتا چلتا ہے کہ اُن کے منہ میں زبان بھی ہے!
مزید برآں، جب کوئی مرد خود کو سُوئیوں سے چھیدتا ہے تو متوقع یا ممکنہ بیوی کوبھی یہ اندازہ لگانے میں مدد ملتی ہے کہ اُس کا ممکنہ جیون ساتھی ازدواجی زندگی کا عذاب جھیلنے کے معاملے میں کس حد تک جاسکتا ہے! خیر، اگر مرد اذیت سہنے کے ایسے مظاہرے نہ کریں تو بھی ہر عورت اچھی طرح جانتی ہے کہ شادی کے بعد اُس کے جیون ساتھی کو اِسی ٹائپ کے مرحلے سے گزرنا ہے!
شادی کی بیشتر عجیب و غریب اور لایعنی رسوم کا تعلق بھارت یا پھر افریقی معاشروں سے ہے۔ افریقہ نے اِس معاملے میں خود کو خواہ مخواہ بدنام کیا، بھارت ہی کافی تھا! ویسے شادی کی رسوم کو زیادہ عجیب و غریب بنانے کی کچھ خاص ضرورت ہے نہیں کیونکہ شادی کے بعد اِنسان عجیب و غریب ہو ہی جاتا ہے اور اُس کی زندگی تقریباً عجُوبے میں تبدیل ہوجاتی ہے! ہندو معاشرے کی قدیم رسوم اور روایات ایسے جنتر منتر کی طرح ہیں جن میں اگر کوئی پھنس جائے تو باہر نہیں آسکتا۔ مرد بے چارے زندگی بھر ازدواجی زندگی کے جنتر منتر میں بھٹک بھٹک کر گھن چَکّر بن جاتے ہیں! یہ ایسی تپسیا ہے جس کے لیے ہمالیہ کی بُلندیوں کو چُھونا لازم نہیں۔ پڑوس کے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ بھگوان کو پرسنّ کرنے کے لیے یخ بستہ ماحول میں ہفتے پندرہ دن تک ایک ٹانگ پر کھڑے ہوکر وظیفہ کرنے کی آسان صورت یہ ہے کہ اِنسان گھر بسالے یعنی یہ سارے کَشٹ اپنے گھر ہی میں بسالے!
قبر میں بند ہوکر تنفس کی مشق کرنے میں بھی ازدواجی زندگی بہت معاونت کرتی ہے۔ بہت سے لوگ جب شام کو گھر آتے ہیں تو دروازے سے گزرتے ہی یعنی گھر میں قدم رکھتے ہی اُنہیں احساس ہوتا ہے کہ قبر میں آگئے ہیں اور اب بارہ گھنٹے اِس قبر میں سانس روکنا ہے!
ہم پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ یخ بستہ ماحول میں ایک ٹانگ پر کھڑے ہوکر وظیفہ کرنے یا قبر میں دفن ہوکر سانس روکنے کے وظیفے سے زیادہ اجر شادی شدہ مردوں کے لیے مختص ہوگا! ہم آپ بیتی بیان نہیں کر رہے، یہ آپ ہی کے دل کی آواز ہے جو ہمارے قلم سے پُھوٹ رہی ہے!