جب کسی کے مقدر کا ستارہ بلندی پر چمک رہا ہو تو اُس کے ہاتھ سے لوگ مِٹّی بھی سونے کے داموں خرید لیتے ہیں۔ بات کچھ عجیب ہے مگر ہے تو بالکل سچ۔ دُنیا کی ریت یہی ہے۔ بڑے کے پاؤں میں سب کا پاؤں۔ جو بیشتر معاملات میں کامیاب ہوچکا ہو وہ اگر ٹیڑھا بھی چلے تو لوگ اپنی سیدھی چال چھوڑ کر آڑے تِرچھے چلنے لگتے ہیں۔
امریکہ کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ جس چیز پر امریکیوں نے ٹھپّا لگایا ہو اُسے اہلِ جہاں اِس قدر خشوع و خضوع سے خریدتے ہیں جیسے یہ خوف لاحق ہو کہ فوراً ہی جھپٹ نہ لیا تو پھر اُسے دیکھنے کو ترستے رہ جائیں گے۔ اور معاملہ کچھ اشیاء و خدمات تک محدود نہیں۔ امریکیوں کے مُسترد کئے ہوئے نظریات بھی دنیا والے بہ سر و چشم قبول کرتے ہیں اور اُنہیں یُوں حرزِ جاں بنالیتے ہیں کہ خود امریکی بھی دیکھتے ہوں گے تو چند لمحوں کے لیے شرمندہ تو ہو جاتے ہوں گے۔
امریکیوں نے بھی ساری دنیا سے تفریح لینے کی قسم کھا رکھی ہے۔ تفریح کے ایسے ایسے طریقے سوچے جارہے ہیں کہ پڑھیے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ عقل اِس بات پر دنگ نہیں رہ جاتی کہ کیا کیا بِک رہا ہے۔ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ امریکہ کے نام پر کیا کیا فروخت ہو رہا ہے اور خریدار ہیں کہ اُمڈے چلے آتے ہیں۔ اِن خریداروں میں آگے آگے ہم ہیں۔ اب یہ آپ کی مرضی کہ ''ہم‘‘ سے مُراد پاکستانی لیجیے یا مُسلم اُمّہ۔
جب خریدار کچھ بھی خریدنے کو بے تاب رہتے ہوں تو مارکیٹ میں سبھی کچھ لایا جاتا ہے۔ مارکیٹنگ کا ایک بنیادی اصول یہ بھی تو ہے کہ جب مارکیٹ اُٹھی ہوئی ہو یعنی صَرف کا رُجحان لوگوں کے ذہن پر سوار ہو تو چُولھے سے راکھ بھی نکال کر مارکیٹ میں لے آئیے، لوگ خرید لیں گے۔ مگر خیر، امریکہ چُولھے کی راکھ نہیں بیچ سکتا۔ اُس کے پاس چُولھا ہے نہ اُس کی راکھ۔ وہ اپنا کھانا دوسروں کے چولہے پر پکانے اور وہیں بیٹھ کر کھانے کا عادی ہے!
ایک امریکی ویب سائٹ کو پتا نہیں کیا سُوجھی کہ اُس نے گائے اور بھینس کا گوبر بیچنے کا اعلان کردیا۔ یہ گوبر پیکٹس کی شکل میں تھا۔ ایک پیکٹ کی قیمت 5 ڈالر تک رکھی گئی۔ ویب سائٹ ہی پر بکنگ کا انتظام تھا۔ آپ سوچیں گے ،گوبر بھلا کون خریدے گا؟ آپ بھی کتنے بھولے ہیں۔ چند ہی گھنٹوں میں گوبر کے کئی ہزار پیکٹ آن لائن فروخت ہوگئے! خریداروں میں بڑی تعداد امریکیوں کی تھی۔ بیرون ملک سے بھی آرڈر ملے۔ امریکیوں نے سوچا ہوگا کہ اُن کا ملک سُپر پاور ہے، امریکی سرزمین پر جو کچھ بھی تیار ہوتا ہے وہ سُپر کوالٹی کا ہوتا ہے۔ ممکن ہے امریکی ماہرین نے سُپر گوبر تیار کیا ہو! ملک جب صفِ اوّل میں ہو، بلکہ جہاں کھڑا ہو وہیں سے قطار شروع ہوتی ہو تو اِنسان آنکھ بند کرکے اپنے مُلک کی ہر چیز کو پسند اور قبول کرسکتا ہے۔ امریکہ اور امریکیوں کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔
ہمارا شمار بھی خیر سے امریکی خرمن کے خوشہ چینوں میں ہوتا ہے۔ ہمیں بھی ہر اُس چیز سے پیار ہے جس کے نام کے ساتھ امریکہ کا نام جُڑا ہو۔ تھرڈ کلاس امریکی مصنوعات بھی ہمارے لیے اول درجے کی ہوتی ہیں۔ امریکہ کے معاملے میں ہماری جذباتیت اِس قدر پرلے درجے کی ہے کہ کوئی لاکھ یقین دلائے، ہمیں یقین ہی نہیں آتا کہ امریکہ سے جُڑی ہوئی کوئی بھی چیز غلط یا غیر معیاری ہوسکتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ جن امریکی پالیسیوں نے ساری دُنیا میں صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح کردیا ہے اُن پالیسیوں پر ہم پہلی فُرصت میں آمنّا و صَدقنا کہنے سے چُوکتے ہیں نہ ہچکچاتے ہیں۔
امریکی ویب سائٹ نے اگر گوبر بیچ کر دکھایا ہے تو کوئی تیر نہیں مارا۔ اگر امریکی نہ بیچیں تب بھی ہم اُن کا ہر طرح کا گوبر سَر آنکھوں پر رکھنے کو تیار رہتے ہیں! امریکی ویب سائٹ کو گوبر بیچنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ جب ایک چیز یونہی بڑی آسانی سے ہاتھوں ہاتھ لی جارہی ہے تو اُس کے لیے الگ سے دُکان کھولنے کی کیا ضرورت ہے!
امریکی پالیسیوں میں تمام حیوانات کی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ یہ پرندوں کی طرح اُڑتی ہوئی آتی ہیں اور کمزوروں کے پورے ماحول کا جائزہ لے کر اپنی مرضی کا میدان سجاتی ہیں۔ یہی پالیسیاں پالتو جانوروں کی طرح ہمارے آنگن میں ڈیرے ڈالتی ہیں۔ مویشیوں کے بھیس میں ہمارے آنگن کے کھونٹوں سے بندھ کر امریکی پالیسیاں ہمارے اشاروں پر دُم بھی ہلاتی ہیں تاکہ ہم اُن سے اچھی طرح مانوس ہوجائیں۔ پھر یہی امریکی پالیسیاں گائے، بھینس اور بکریوں کی طرح ہمارے وسائل کی کھیتی میں گھومنے لگتی ہیں۔ اگر کبھی کبھار یعنی بھولے سے ہماری خود مختاری چھڑی تھام کر اِنہیں چَرنے سے باز رکھنے اور بھگانے کی کوشش کرے تو یہ بپھرے ہوئے بھینسوں کی طرح سینگ مار مار کر اُسے مار بھگاتی ہیں۔ پھر ایک وقت آتا ہے کہ ہم اِن سے اچھی طرح مانوس ہو جاتے ہیں۔ ایسی حالت میں یہ ہمارے وسائل کی کھیتی چَرنے لگتی ہیں تو ہمیں بُرا نہیں لگتا! اور خیر سے ہماری حکومتی مشینری اور رائے عامہ پر اثر انداز ہونے والے ادارے سبھی مل کر ہمیں یقین دلاتے ہیں کہ امریکیوں اور امریکی پالیسیوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ اگر ہماری کھیتی چَر بھی رہی ہیں تو ہماری بھلائی کے لیے! امریکہ سے مختلف پٹیاں پڑھ کر آنے والے پتا نہیں کیسا مَنتر پھونکتے ہیں کہ ہمیں یقین کرنا ہی پڑتا ہے کہ امریکی ہمارا بُرا بھی کریں تو اُس میں ہمارا بھلا ہوتا ہے! اور یوں مویشیوں کی شکل میں گھومنے پھرنے والی امریکی پالیسیاں ہمارے وسائل کے کھیتوں کو چَر جاتی ہیں۔ اور کوئی ہماری ''سعادت مندی‘‘ تو دیکھے کہ امریکی پالیسیاں جاتے جاتے جو گوبر اور مینگنی کرتی ہیں تو ہم اُسی کو اپنی وفا کا صِلہ سمجھ کر اپنالیتے ہیں!
افغانستان سے سابق سوویت یونین کا قبضہ ختم کرانے میں ہم نے امریکہ کا ساتھ دے کر کیا پایا؟ امریکہ تو افغانستان میں اپنی مرضی سے چَر چَراکر چل دیا اور گوبر ہماری سرزمین پر کرگیا!
سابق سوویت یونین سے فارغ ہوکر ہم نے ابھی سُکون کا سانس بھی نہیں لیا تھا کہ امریکہ بہادر نے پھر افغانستان میں بیٹھ کر اپنی مرضی کا علاقائی کھیل کھیلنا شروع کردیا۔ ایک بار پھر ہم نے امریکی پالیسیوں کو قبول کیا۔ نائن الیون کے ردعمل کی آڑ میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر افغانستان میں طالبان کی حکومت ختم کی گئی اور یُوں امریکہ نے پھر ہمارے آنگن میں ڈیرے ڈال دیئے۔ نتیجہ؟ ظاہر ہے وہی نکلا جو نکلنا چاہیے تھا۔ امریکی پالیسیوں نے ایک بار پھر ہمارے آنگن میں گوبر کیا ہے اور ہم اُسے خوشی خوشی جھیلنے کی کامیاب اداکاری کر رہے ہیں!
ہر معاملے میں امریکہ کی بتائی ہوئی راہ پر چلنے کی عادت نے ہمیں فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے یکسر محروم کردیا ہے۔ اب تو یہ بھی امریکہ ہی طے کرتا ہے کہ ہمیں کیا پسند ہونا چاہیے اور کیا پسند نہیں ہونا چاہیے۔ امریکی تھنک ٹینک ہمارے لیے سوچتے ہیں اور امریکی حکومت اُن کی سفارشات کو ہم پر نافذ کردیتی ہے۔ ہم بھی خوش ہیں کہ سوچنے سمجھنے اور فیصلہ کرنے کے چکر میں کون پڑے۔ جب ہر معاملے میں بنا بنایا پیکج مل رہا ہے تو دماغ کی پیالی میں طوفان اُٹھانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟
اِس کیا شک ہے کہ ہم اَصلاً شیر ہیں۔ مگر صاحب، گھروں میں پلنے والے بھی تو شیر ہی ہوتے ہیں۔ اُن میں شیروں والی کوئی خُو پائی جاتی ہے؟ چڑیا گھر میں بند شیر بھی تو شیر ہی ہوتے ہیں مگر بکری کے مماثل، آنے جانے والوں کی نظر میں محض تماشا! اگر ہم پالتو یا چڑیا گھر والے شیر بھی ہوتے تو کیا غم تھا؟ مُشکل یہ ہے کہ دَبتے دَبتے ہم سَرکس کے شیر ہوگئے ہیں! ہمارے سیاہ و سفید کے مالک ایک امریکی چابک پر ساری ''شیری‘‘ بُھول کر بکری کی طرح ''مَیں مَیں‘‘ کرنے لگتے ہیں! بڑوں کا ''بکری پن‘‘ اب پوری قوم کی نفسی ساخت میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ایسے میں گوبر کو ہمارا مُقدّر بننا ہی ہے۔