"MIK" (space) message & send to 7575

پٹرول کی ٹھنڈک

ہم نے کبھی تجربہ کرکے نہیں دیکھا مگر سیانوں سے سُنا ہے کہ پٹرول بہت تیزی سے آگ پکڑتا ہے۔ مگر جناب، یہ کیسا پٹرول ہے کہ مارکیٹ سے غائب ہے اور آگ لگا رہا ہے! لوگ پٹرول کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں اور بھڑک رہے ہیں۔ 
ایک زمانہ تھا کہ یوٹیلیٹی اسٹور سے دو تین کلو چینی لانا جی داری کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ اب پنجاب میں یہ حال ہے کہ جو کہیں سے دو چار لیٹر پٹرول لے آئے وہی مردِ میدان۔ پٹرول کے حُصول کی دوڑ میں جو جیتا وہی سکندر۔ کئی دن سے یہ حال ہے کہ گھر والے طعنے مارتے نہیں تھکتے۔ کوئی اگر بہادری کا دعویٰ کرے تو گھر والے کہتے ہیں جاؤ اور پٹرول پمپ سے ایک دو لیٹر پٹرول تو لاکر دکھاؤ۔ کوئی اگر بضد ہو کہ اُس کے تعلقات وسیع ہیں تو چیلنج کیا جاتا ہے کہ ایسا ہے تو کسی سے کہو ذرا موٹر سائیکل کی ٹینکی تو فُل کرادے! ایک صاحب پٹرول لینے کے لیے لائن میں کھڑے تھے۔ ایک ٹی وی چینل نے تاثرات جاننا چاہے تو وہ بولے۔ ''کل بیٹی کا پرچہ ہے۔ پٹرول تو میں ہر حال میں لے کر جاؤں گا۔‘‘ لیجیے، بیٹی کی نظر میں سُرخ رُو ہونے کا باپ کے پاس اب یہی ایک طریقہ رہ گیا ہے! گویا بیٹی کا پرچہ باپ کا پرچہ کٹوانے پر تُلا ہوا ہے۔ 
قوم پٹرول کے بحران سے دوچار ہوئی تو لاہور کے اشتیاق چوہدری ایڈووکیٹ خوشگوار تبدیلی سے ہمکنار ہوگئے۔ وہ بھی پٹرول کے متلاشی تھے مگر پھر یہ مقدمہ ہار گئے یعنی پٹرول کے حُصول کی خواہش کا طوق گردن سے اُتار کر سائیکل پر سوار ہوگئے! موصوف دلیل دینے کے انداز سے فرماتے ہیں کہ سائیکل چلانے سے صحت اچھی رہتی ہے اور بچت بھی ہوتی ہے۔ یہ خیال پہلے کیوں نہیں آیا؟ خواہ مخواہ اِتنا انتظار کیا۔ اشتیاق چوہدری کو صحت اور بچت کا احساس دِلانے کے لیے پٹرول کے بحران کو میدان میں آنا پڑا! 
ذرا سے پٹرول کی طلب نے کیسے کیسے تماشے دکھا دیئے۔ گوجرانوالہ میں منصور میاں کو جب بارات کے لیے کوئی گاڑی نہ ملی تو اُنہوں نے سات گدھا گاڑیوں کا بندوبست کیا اور دلہنیا کو لینے اُس کے گھر پہنچ گئے۔ ہندو معاشرے میں شادی کے وقت دولھا اور دُلھن پَوِتر اگنی کے گرد سات پھیرے لیتے ہیں۔ منصور میاں سات گدھا گاڑیوں میں باراتیوں کو لاد کر سُسرال پہنچے۔ منصور میاں کا کہنا ہے کہ پٹرول کی قِلّت کے باعث گاڑی والے بہت کرایہ مانگ رہے تھے۔ اُنہوں نے گاڑی والوں کے ہاتھوں گدھا یا ماموں بننے سے بہتر یہ جانا کہ گدھوں کو گاڑیوں سمیت زحمتِ کار دی جائے! 
رائے ونڈ کے بھائی ساجد پریشان تھے کہ دُلھن کو لینے جائیں گے کیسے۔ پٹرول مل نہیں رہا تھا اور گاڑی کا انتظام ہو نہیں پارہا تھا۔ اِتنے میں سہرا بندی کا وقت ہوگیا۔ اب حالت یہ تھی کہ سَر پر تو سہرا بندھ رہا تھا اور سہرے کے نیچے سَر کے اندر موجود دِماغ میں یہ فکر پنپ رہی تھی کہ بارات سمیت روانگی کیسے ڈالی جائے گی! ابھی بھائی ساجد پریشانی سے ''سرشار‘‘ ہو ہی رہے تھے کہ سہرا بندی کے وقت رقم کا لفافہ دینے کے بجائے ایک صاحب نے دس لیٹر پٹرول کا تحفہ دے دیا! اندھا کیا چاہے؟ دو آنکھیں! بھائی ساجد کو تو مَن کی مُراد مِل گئی۔ جس پٹرول سے آگ جایا کرتی ہے اُسے دیکھ کر اُن کے دِل میں ٹھنڈ پے گئی! عام طور پر خوش ہوکر جُھومنے کا فریضہ باراتی انجام دیا کرتے ہیں مگر یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور تھا۔ بھائی ساجد دس لیٹر پٹرول کا تحفہ پاکر خوشی سے جُھوم اُٹھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ تحفہ اُنہیں زندگی بھر یاد رہے گا۔ اِس سے پہلے کہ دس لیٹر پٹرول کا سُن کر لوگ ٹوٹ پڑتے، بھائی ساجد نے عقل مندی کا ثبوت دیا، گاڑی کی ٹینکی میں پٹرول ڈالا اور بارات کے ساتھ روانگی ڈال دی! 
سیالکوٹ کے عامر شیخ کو پٹرول کے بحران پر علامتی احتجاج کی سُوجھی۔ اُنہوں نے چند دوستوں کی مدد سے فرضی بارات کا اہتمام کیا۔ عامر نے دُولھا کا روپ دھار کر تانگوں پر دوستوں کو باراتی کی حیثیت سے بٹھایا اور گھر سے چل دیئے۔ اُن کے دوست محی الدین نے فرضی باپ کا کردار ادا کیا۔ فرضی دُولھا اور فرضی باراتیوں کا کہنا تھا کہ حکومت عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ اور یہ کہ اِس انوکھے احتجاج کا مقصد حکمرانوں کا ضمیر جھنجھوڑنا ہے۔ 
اسلام آباد میں پٹرول کے حصول کے لیے 30 گاڑیوں کے پیچھے کھڑی ہوئی گاڑی کا ڈرائیور اکرام جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور پھٹ پڑا۔ ''حکومت اگر ڈھنگ سے کام نہیں کرسکتی تو اصطبل کھول لے اور گھوڑے پالے۔‘‘ 
ہمارے ہاں جب کسی کو نوازنا ہوتا ہے تو کسی جواز کے بغیر کوئی نئی وزارت قائم کردی جاتی ہے اور متعلقہ شخصیت کو اُس کا چارج دے دیا جاتا ہے۔ مثلاً قانون نام کی کوئی چیز پائی نہیں جاتی مگر کسی ایک اپنے کو نوازنے کے لیے وزارتِ قانون کا قلمدان موجود ہے! اب عوام نے حکومت پر تھوڑا سا وختہ ڈالا ہوا ہے۔ ہوسکتا ہے حکمران کسی کو کھپانے کے لیے وزارتِ تفریح قائم کرنا چاہتے ہیں مگر عوام نے ہر معاملے میں غیر ضروری طور پر تفریح کا پہلو تلاش کرکے ایسی کسی بھی وزارت کی راہ مَسدود کردی ہے۔ پٹرول کے بحران نے تبدیلی کا راستہ دکھایا ہے۔ یہ بحران کس کا پیدا کردہ ہوسکتا ہے، اِس حوالے سے مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ حکومت عوام کو ناکوں چنے چبوا رہی ہے۔ کسی کا خیال ہے کہ کچھ لوگ حکومت سے تفریح لے رہے ہیں یعنی بحران پیدا کیا گیا ہے تاکہ عوام حکومت کو گالیاں دیں۔ قصہ مختصر یہ کہ ذہنوں کے ریس کورس میں اٹکل کے گھوڑے دوڑائے جارہے ہیں۔ لگ جائے تو تیر، ورنہ تُکّا! 
ہم حیران ہیں کہ قوم کہاں کھڑی ہے۔ بحرانوں کو ہنس ہنس کر گلے لگا رہی ہے۔ بحرانی کیفیت سے پریشان نہ ہونے کی ذہنیت ایسی پروان چڑھی ہے کہ ہر مشکل سے آسانی کشید کی جارہی ہے۔ پٹرول کا بحران اِتنا شدید ہے کہ اگر لوگ باضابطہ بھڑک بھی اُٹھیں تو کچھ حیرت کی بات نہیں۔ مگر جناب، پٹرول کو چُھونے سے جو ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے ویسی ہی ٹھنڈک اِس کی قِلّت میں بھی پائی گئی ہے! لوگ اِس بحران کو بھی پُل سمجھ کر نیچے سے خوشی خوشی گزر گئے ہیں۔ 
تبدیلی لانے اور نئے پاکستان کی تشکیل کا نعرہ تو عمران خان نے لگایا ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ اِس نعرے کو عملاً حکومت نے ہائی جیک کرلیا ہے۔ اِس سے بڑی تبدیلی کیا ہوسکتی ہے کہ کوئی اپنی بارات گدھا گاڑیوں پر لے جائے؟ اور پھر شادی کے تحفے کی نوعیت پر غور فرمائیے۔ سہرا بندی کے وقت پٹرول کا تحفہ دے کر سَر فخر سے بلند کیا جارہا ہے! اب تو یقین ہو جانا چاہیے کہ تبدیلی آچکی ہے، نیا پاکستان معرضِ وجود میں آچکا ہے اور لوگ نئی سوچ کو گلے لگاچکے ہیں۔ ہر صورتِ حال سے کماحقہ محظوظ ہونے کا ہُنر سیکھ لیا گیا ہے۔ پٹرول جیسی آتشگیر چیز نہ ملے تو لوگ بھڑکتے نہیں، بلکہ چہکنے لگتے ہیں! 
ڈرائیور کہتے ہیں کہ حکومت اصطبل کھول کر گھوڑے پالنا شروع کردے۔ اُنہیں شاید معلوم نہیں کہ حکمرانوں کے لیے ملک اصطبل کے مانند ہے۔ فرق صرف اِتنا سا ہے کہ گھوڑے گدھے کا امتیاز ختم کرکے اِس اصطبل میں سب کو ایک لاٹھی سے ہانکا جارہا ہے! بحران ڈبونے کے لیے ہوتے ہیں۔ مگر یہاں یہ رسم بھی بدل گئی ہے۔ قوم کو بحرانوں کے طفیل ''نئے پاکستان‘‘ کا طُلوعِ آفتاب مبارک ہو! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں