کینیڈا کے وزیر خزانہ جو اولیویئر نے ''انکشاف‘‘ کیا ہے کہ عالمی معیشت کو امریکہ نے ''سنبھال‘‘ رکھا ہے۔ یہ بیان پڑھ کر ہماری تو ہنسی چُھوٹ گئی۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اِسے جو اولیویئر کی سادگی کہیں، مُبالغہ آرائی کی داد دیں یا پھر غلط بیانی پر مطعون کریں! امریکہ عالمی معیشت کے ساتھ جو کچھ کر رہا ہے اُسے ذہن میں رکھیے تو کینیڈین وزیر خزانہ کا یہ بیان انکشاف سے زیادہ اعتراف ہے! جو اولیویئر کا یہ بھی کہنا ہے کہ عالمی معیشت کو سنبھالنا تنہا امریکہ کے بس کی بات نہیں اِس لیے ہم خیال ممالک کو اُس کا ساتھ دینا چاہیے۔ کینیڈین وزیر خزانہ کو زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ سب کو اندازہ ہے کہ چمن کو غارت کرنا خزاں کے ایک آدھ جھونکے کے بس کی بات نہیں ہوا کرتی اِس لیے کئی جھونکے امریکہ کا ساتھ دے رہے ہیں۔ عالمی سیاست و معیشت کے چمن میں امریکہ اور اُس کے حلیف جو گل کِھلا رہے ہیں اُن کی ''خوشبو‘‘ سے پوری دنیا مہک رہی ہے!
مرزا تنقید کو امریکہ کے نام سے چِڑ ہے۔ جیسے ہی کوئی امریکہ کا ذکر چھیڑتا ہے، وہ لنگوٹ اور کمر کَس کر میدان میں آجاتے ہیں۔ پھر اُنہیں کچھ یاد نہیں رہتا کہ بحث کا اصل موضوع کیا ہے۔ اُنہیں صرف اِتنا یاد رہتا ہے کہ امریکہ کو مطعون کرنا ہے۔ وہ جتنی شِدّت سے مُنہ کے ذریعے امریکہ پر گُل پاشی فرماتے ہیں اُسے دیکھ کر کبھی کبھی تو ہمیں یہ شک گزرتا ہے کہ شاید وہ امریکی سفارت خانے کی طرف سے ''پلانٹیڈ‘‘ ہیں اور امریکہ کے خلاف بول کر ردعمل جاننے پر مامور ہیں!
کینیڈین وزیر خزانہ کے بیان پر پُرمغز تبصرہ فرماتے ہوئے مرزا نے فرمایا۔ ''پتا نہیں جو اولیویئر عالمی معیشت کو سنبھالنا کسے کہہ رہے ہیں۔ اگر سنبھالنا ایسا ہوتا ہے تو پھر گِرانا کس عمل کو کہتے ہیں!‘‘ ہم نے کہا مرزا! امریکہ اِکلوتی سُپر پاور ہے۔ اُس کے بارے میں کوئی بھی بات یونہی، دِل پشوری کے لیے تو نہیں کہی جاسکتی۔ اگر کینیڈا کا وزیر خزانہ کہہ رہا ہے کہ امریکہ عالمی معیشت کو سنبھالے ہوئے ہے تو پھر ایسا ہی ہوگا۔ ہم تو ویسے ہی ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ اب تو ہمارے لیے بہت کچھ محض بَصری دھوکا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ جو کچھ ہمیں گِرتا ہوا دکھائی دے رہا ہو وہ دراصل سنبھلنے کی منزل میں ہو۔ امریکہ کے حوالے سے ہر معاملے میں بدگمان ہونا کمزور معاشروں کے ''آدابِ سیاست‘‘ کے خلاف ہے! ہماری بات سُن کر مرزا چند لمحات تک خاموش رہے اور دِل میں دِل میں کوئی گنتی کرتے رہے، گویا ہم پر ''نِچھاور‘‘ کرنے کے لیے الفاظ گِن رہے ہوں! پھر گویا ہوئے۔ ''غلامی کے سائے میں رہنا تم جیسوں کے لیے سانس لینے جیسا فِطری عمل ہوگیا ہے۔ پہلے انگریزوں کے غلام رہے اور اب امریکیوں کی غلامی قبول کر رکھی ہے۔ امریکہ بہادر کی ساری طاقت داؤ پر لگ چکی ہے اور تم جیسے حاشیہ بردار اُس کی ہر خامی اور خرابی کو خوبی کا درجہ دے کر اُس کا دِماغ ساتویں آسمان سے نیچے نہیں آنے دیتے۔ اِسی کیفیت کو کرشن بہاری نُورؔ نے یُوں بیان کیا ہے ؎
اُس تشنہ لب کی نیند نہ ٹوٹے خُدا کرے
جس تشنہ لب کو خواب میں دریا دکھائی دے!
یورپ کے گوروں یعنی نئے امریکیوں نے امریکی سرزمین میں آباد ہونے کے بعد وہاں کے مستقل باشندوں کو قتل و غارت سے دوچار کیا۔ اِس کام سے فارغ ہوکر اِن نئے امریکیوں نے پُوری دُنیا کی اصلاح کو اپنا فرض سمجھ لیا اور اِس ''مشن امپوسیبل‘‘ پر نکل کھڑے ہوئے۔
مارکیٹ میں جب کوئی نئی چیز آتی ہے تو لوگ خریدتے ہیں، آزماتے ہیں، بروئے کار لاتے ہیں۔ 200 سال قبل امریکہ نے عالمی مارکیٹ میں خود کو لانچ کیا تھا، لوگ وارنٹی کا مطالبہ کئے بغیر ہی اُسے اب تک آزما رہے ہیں!
ایک زمانے سے امریکہ خُدائی فوجدار ہے اور دُنیا کی ہر خرابی کو دور کرنے کی ذمہ داری، از خود نوٹس کے تحت، اپنے کاندھوں پر اُٹھا رکھی ہے۔ جس نے بھی امریکہ کو مدد کے لیے پُکارا ہے وہ فوراً چلا آیا ہے ... نہ جانے کے لیے! امریکہ سے مدد چاہنے کا معاملہ ''آ بیل، مجھے مار‘‘ جیسا ثابت ہوتا رہا ہے۔
ہمارے ہاں پولیس والوں سے دور رہنے کا مشورہ دینے والے کہتا ہے ع
نہ اِن کی دوستی اَچّھی، نہ اِن کی دُشمنی اَچّھی
بین الاقوامی معاملات میں یہی معاملہ امریکہ ہے۔ اُس کی قربت چاہنے والے پھر کچھ اور یا کسی اور کو چاہنے کے قابل نہیں رہتے۔ ؎
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے؟
جب تک امریکہ بہادر گھر آنگن میں براجمان ہو، لاکھ توجہ دلانے پر بھی متعلقہ ملک اپنے ممکنہ انجام کے بارے میں نہیں سوچتا۔ ہر چھوٹا ملک امریکہ کے آغوش میں بیٹھ کر خود کو ہر بَلا سے محفوظ تصور کرتا ہے۔ ایسے میں کبھی حالات کچھ سوچنے پر مجبور بھی کریں تو سوچنے کا عمل یہ سوچ کر ملتوی کردیا جاتا ہے ؎
وہ چلا جائے گا تو سوچیں گے
ہم نے کیا کھویا، ہم نے کیا پایا!
اگر کوئی ملک یہ سمجھتا ہے کہ امریکہ کسی معاملے کو درست کرنے میں اُس کی معاونت کرنے کے بعد رُخصت ہوگیا ہے تو یہ اُس کا بھولپن ہے، اور کچھ نہیں۔ امریکہ وقفے وقفے سے انٹری دیتا رہتا ہے۔ ؎
شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
محفل میں اِس خیال سے پھر آگیا ہوں میں
فلک کی آنکھ نے زیادہ سے زیادہ طاقت حاصل کرنے اور پوری دُنیا پر حکومت کرنے کی خواہش مند ریاستیں اور سلطنتیں بھی دیکھی ہیں مگر امریکہ سب سے مختلف اور پچھلی تمام سلطنتوں کے تضادات کا مجموعہ ہے۔ دھرتی کا سینہ روندنے اور چھلنی کرنے والے کئی طُرّم خاں آئے اور خوب طُرّم خانی دِکھائی مگر کسی نے بھی اپنی طاقت کے بے محابا اظہار کو تہذیب قرار نہیں دیا۔ یہ ''شرف‘‘ بس امریکہ کو حاصل ہوا ہے کہ صرف خرابیاں پیدا کرتا ہے اور ہر خرابی کو دُنیا کی سب سے بڑی خُوبی قرار دینے پر بھی بضد رہتا ہے!
معاملہ فرد کا ہو یا قوم کا، جِسے آگے بڑھنا ہوتا ہے وہ آنکھ بند کرلیتا ہے تاکہ کوئی پیروں تلے کچلا جارہا ہو تو اُسے دیکھ کر دِل میں کہیں ترحّم کی لہر پیدا نہ ہوجائے۔ زیادہ سے زیادہ طاقت حاصل کرنے کی خواہش مند ریاستوں کا بھی طور ہوا کرتا ہے۔ امریکہ آگے بڑھ رہا ہے۔ اب ظاہر ہے، کچھ کو یا بہت سوں کو تو پس ماندہ رہنا ہی پڑے گا۔ پس ماندہ رہنا کون پسند کرتا ہے؟ پس ماندہ تو رکھنا پڑتا ہے!