کراچی جیسے ہنگامہ پرور شہر میں رہنے کا اور کوئی فائدہ ہو نہ ہو، اِتنا فائدہ ضرور ہے کہ ہر طرح کی پریشانی کو جھیلنے کی ہمت (یا عادت) اِنسان میں ضرور پیدا ہو جاتی ہے۔ اور جب عادت سی ہو جائے تو انتہائی تشویش ناک خبر بھی زیادہ تشویش پیدا نہیں کرتی۔
غالبؔ نے کہا تھا ؎
رنج سے خوگر ہوا اِنساں تو مِٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں اِتنی پڑیں مُجھ پر کہ آساں ہو گئیں
اہلِ کراچی کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ جھیلتے جھیلتے مُشکلات کی ایسی عادت ہوگئی ہے کہ اب آسانیوں کا سوچیے تو ذہن اُلجھنے لگتا ہے۔ بقول اصغرؔ گونڈوی ؎
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں زندگی دُشوار ہو جائے!
حال ہی میں کراچی کے حوالے سے ایک ایسی خبر آئی کہ کسی اور ملک کے سب سے بڑے شہر کے بارے میں ایسی خبر آئی ہوتی تو ہنگامہ برپا ہوگیا ہوتا۔ حکومت مُبتلائے فکر ہوچکی ہوتی کہ تدارک کی کیا صورت پیدا کی جائے مگر ہم تو ہم ہیں، ہم کیوں پریشان یا بے حواس ہوں!
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشنو گرافی نے سائنس اور ٹیکنالوجی سے متعلق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں رپورٹ پیش کی ہے کہ جنوبی سندھ تیزی سے سمندر بُرد ہو رہا ہے۔ بدین اور ٹھٹھہ کے اضلاع کا ایک وسیع رقبہ سمندر کی نذر ہوچکا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف اوشنو گرافی کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر آصف انعام نے رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ بدین اور ٹھٹہ 2045 ء تک سمندر برد ہوچکے ہوں گے اور 2060ء تک کراچی بھی سمندر کے آغوش میں سما چکا ہوگا۔
یہ خبر پڑھ کر ہم نے بھرپور پاکستانی ہونے کا ثبوت دیا یعنی ذرا نہیں چونکے! ایسی تو پتا نہیں کتنی ہی خبریں آتی ہیں اور گزر جاتی ہیں۔ بقول قمر جمیلؔ ؎
ناگہاں ہم پہ بھی آئی تھی جمیلؔ
وہ قیامت جو گزر جاتی ہے!
ڈاکٹر آصف انعام صاحب کبھی مِلیں تو ہم اُنہیں بتائیں کہ کراچی اور سمندر کا معاملہ کیا ہے۔ اہلِ جہاں یہ سمجھتے ہیں کہ کراچی بحیرۂ عرب کے کنارے آباد ہے۔ نقشہ بھی یہی بتاتا ہے۔ مگر بے چارہ بحیرۂ عرب اپنا دُکھڑا کِسے اور کیسے سُنائے؟ اگر سمندر کی زبان ہوتی تو وہ بتاتا کہ وہ تو خود خرمستی و بدمستی، بے حِسی و بے دِلی کے ایک گہرے سمندر کے کنارے آباد ہے!
ڈاکٹر آصف انعام کراچی کے ڈوبنے کی وعید سُنا رہے ہیں اور یہاں حال یہ ہے کہ سمندر کی بھرائی کرکے مقاماتِ تفریح کی تعداد بڑھائی جارہی ہے۔ بحیرۂ عرب پڑا پڑا یہی سوچ کر ہلکان ہوتا رہتا ہے کہ اگر لینڈ مافیا کو کنٹرول نہ کیا گیا تو اُس کا کیا ہوگا۔ میٹھا پانی تو یاروں نے بیچ کھایا ہے، اب کہیں نمکین پانی پر دِن دہاڑے ''شب خُون‘‘ نہ مار دیا جائے!
مرزا تنقید بیگ یہ خبر سُن کر خاصے سنجیدہ دِکھائی دیئے۔ اُنہیں گہری سوچ میں ڈوبا ہوا دیکھ کر ہمیں حیرت نہیں ہوئی۔ وہ اختلافِ رائے کا ایسا عمیق سمندر ہیں جس میں کئی بار ہمارا موقف ایسا ڈوبا ہے کہ پھر کبھی نہیں اُبھرا!
مرزا کہتے ہیں۔ ''ایک زمانے سے ہمارے دریاؤں کا پانی سمندر میں گر رہا ہے۔ ہم نے میٹھے پانی کو روک کر اُس سے زیادہ مستفید ہونے کے بارے میں سوچا ہی نہیں۔ ہوسکتا ہے بحیرۂ عرب نے سوچا ہو کہ پاکستان کے دریائی پانی کو بہنے کی زحمت گوارا کرنی پڑتی ہے تو کیوں نہ خود ہی چل کر پاکستان کی حدود میں داخل ہوجاؤں اور دریائی پانی کو گلے لگالوں! ہم نے طے کرلیا ہے کہ کام کے کسی بھی معاملے میں جوش و خروش کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔ ایسے میں غنیمت ہے کہ ہمارے سمندر ہی کو جوش آ جائے!‘‘
ویسے جنوبی سندھ کے سمندر بُرد ہونے کی وعید نے ہمیں ہنسنے کا ایک اور موقع فراہم کیا ہے۔ ہم تو کب کے زمانے بھر کی عِلّتوں میں ڈوب چکے ہیں۔ طرح طرح کا پانی ہمارے سَروں سے کب کا گزر چکا ہے۔ اب ڈوبنے کی وعید چہ معنی دارد؟ اور ہم ڈوب مرنے سے بچنے کی دُعا کِس بِرتے پر مانگیں؟ بقول سیمابؔ اکبر آبادی ؎
دُعا دِل سے جو نِکلے کارگر ہو
یہاں دِل ہی نہیں، دِل سے دُعا کیا!
یہ بھی عجیب بات ہے کہ ہمارے ہاں ہر چیز حد سے زیادہ ہے۔ کوئی کسی پر مہربان ہوتا ہے تو کچھ یُوں کہ وہ پھر زندگی بھر ہڈ حرامی پر تُل جاتا ہے۔ کسی کو کسی پر غُصّہ آتا ہے تو ایسا کہ اُس کے ساتھ ساتھ اُس کے شیر خوار کو بھی زندہ نہیں دیکھنا چاہتا! محبت ہے تو غضب کی اور نفرت ہے تو کمال کی۔ اعتدال کے درشن ہی نہیں ہو پاتے۔ یہی کیفیت اب موسم یا قدرتی حالات میں بھی در آئی ہے۔ ہر موسم اپنی حد سے گزر جاتا ہے۔ بارش کا
نہ ہونا ٹھہر جائے تو حالت یہ ہوتی ہے کہ ہر خِطّۂ تر بھی خُشکی کی تصویر بن بیٹھتا ہے۔ جس میں کشتیاں چلتی رہی ہوں دریا کے اُسی پاٹ میں لڑکے کھیلتے کودتے دِکھائی دیتے ہیں۔ غور سے دیکھیے تو کہیں کونے میں ایک نالی سی بہہ رہی ہوتی ہے۔ اور اُس میں بھی پانی ''بہ قدرِ اشکِ بُلبُل‘‘ ملتا ہے۔ اب اگر اِس کو دریا کہیے تو اپنے آپ سے شرم آنے لگتی ہے۔ ہم اگر ڈیم نہ بنائیں اور ناموافق موسم کے لیے پانی جمع نہ رکھیں تو قدرت دریا کو نالی میں تبدیل کیوں نہ کرے! ایسے میں ہمارے پاس لے دے کر آہ و فریاد اور نالوں کے ذریعے چند اشکوں کا اہتمام کرنے کا آپشن رہ جاتا ہے!
اور جب پانی برسنے پر آئے تو سبھی کچھ اور ہر ایک کو زیرِ آب لانے کی تدبیریں کرنے لگتا ہے۔ جب بادل مہربان ہوتے ہیں تو لوگ فریاد کرنے لگتے ہیں ع
اب اِس قدر بھی نہ ''برسو‘‘ کہ دم نکل جائے!
ماہرین بتاتے ہیں کہ کراچی کے مختلف علاقے سالانہ ایک اعشاریہ تین ملی میٹر کی رفتار سے سمندر بُرد ہو رہے ہیں۔ یعنی اہلِ کراچی کو اُن کے اعمال کی خاصی ہومیو پیتھک ٹائپ کی سزا دی جارہی ہے۔ ماہرین کراچی کے سمندر بُرد ہونے کی یعنی کراچی اور سمندر کے وصال کی جو رفتار بیان کر رہے ہیں اُس سے ہمیں فراقؔ گورکھ پوری یاد آگئے ؎
دیکھ رفتارِ انقلاب فراقؔ
کِتنی آہستہ ... اور کِتنی تیز!
مرزا کہتے ہیں۔ ''اب کوئی ہمیں بے عملی یا بدعملی پر یہ طعنہ نہیں دے گا کہ جاؤ، ڈوب مرو۔ اب تو ہم دوسروں سے کہہ سکتے ہیں کہ آؤ، ڈوب مرو! سمندر ہمیں خاموشی اور سُکون سے آغوش میں لے رہا ہے۔ اہلِ کراچی ایک زمانے سے پانی کو ترس رہے ہیں۔ خوشا کہ پانی کا یہ فقدان تین چار عشروں میں خود بخود ختم ہوجائے گا۔ ماہرین کا اندازہ، خدا ناخواستہ، دُرست نکلا تو اہلِ کراچی کیلئے یہ مصرع بھی دُرست ثابت ہوجائے گا ع
مِری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی کم تھا
کراچی کے ڈوبنے کی وعید پڑھ کر ہم زیادہ پریشان یُوں نہ ہوئے کہ ماہرین کا تو کام ہی کچھ بھی کہہ گزرنا ہے۔ اگر ہم اُن کے کہے پر زندگی بسر کرنے لگیں تو پتا نہیں کہاں کہاں ڈوب مریں۔ مگر جناب ع
مقطع میں آ پڑی ہے سُخن گسترانہ بات
عُلوم البحر کے ماہرین نے خاصی گہری بحر میں طرح کا مصرع داغا تو محکمۂ موسمیات بھی حرکت میں آ گیا۔ ہم مطمئن تھے کہ ماہرین کی بات کو سنجیدگی سے کیا لیں، مگر محکمۂ موسمیات نے دِلاسا دے کر تشویش میں ڈال دیا ہے۔ محکمے کا کہنا ہے کہ کراچی، ٹھٹھہ یا بدین کو کسی طرح کا خطرہ لاحق نہیں۔ یعنی لوگ پریشان نہ ہوں۔ محکمۂ موسمیات کی طرف سے دی جانے والی تسلّی نے ہمارا سُکون غارت کردیا ہے۔ آپ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں محکمہ موسمیات والے جو کچھ کہتے ہیں، ہوتا اُس کے برعکس ہے۔ مومن خاں مومنؔ نے اِس کیفیت کو یُوں بیان کیا ہے ؎
مانگا کریں گے اب سے دُعا ہجرِ یار کی
آخر تو دُشمنی ہے اثر کو دُعا کے ساتھ!
اب جبکہ محکمۂ موسمیات مستقبل میں خیر و عافیت کی یقین دہانی کراچکا ہے، ہم اللہ سے التجا کرتے ہیں کہ کراچی اور اہلِ کراچی کو اپنی امان میں رکھے۔