لو، کرلو بات۔ ماہرین ایک بار پھر بہت دُور کی (شاید مِرّیخ کی) کوڑی لائے ہیں۔ میاں بیوی کے تعلقات کو خوش گوار بنانے کے حوالے سے ماہرین عموماً ایسی باتیں کرتے ہیں کہ پڑھتے ہی ہنسی چُھوٹ جاتی ہے۔ اور اگر اُن کی تجاویز پر عمل کیا جائے تو یہی ہنسی کچھ آگے بڑھ کر آنسوؤں سے جا مِلتی ہے! ہم نے تو یہی دیکھا ہے کہ ماہرین ازدواجی تعلقات بہتر بنانے کے لیے جو مشورے دیتے ہیں اُن پر عمل سے رہی سہی کسر بھی پُوری ہوجاتی ہے۔ مثلاً میاں اگر شام کو گھر واپسی پر بیوی کو پُھول پیش کرے تو اُس کی خوشبو سُونگھنے کے بجائے بیوی یہ سوچنے لگتی ہے کہ کہیں اور تو دِل نہیں لگا رکھا۔ آزمودہ کار سیانوں کی رائے ہے کہ کوئی شخص شادی کے بعد (''ہمتِ مرداں، مددِ خُدا‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے) کہیں اور (بھی) دِل لگا بیٹھتا ہے تو بیوی کو بھی خوش رکھنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ شک کی سُوئی نہ گُھومے! یُوں کبھی کبھی ازدواجی تعلقات بہتر بنانے کے لیے میاں کی طرف سے ٹھونکی جانے والی پہلی کیل ہی آخری ثابت ہوتی ہے!
مرزا تنقید بیگ کا کہنا ہے کہ میاں بیوی کے تعلقات کے حوالے سے اُن دونوں کے سُسرال والوں کو اُتنی فکر لاحق نہیں رہتی جتنی ماہرین کو لاحق رہتی ہے۔ اِن کا تو کام ہی ذہن کی آستین میں اندیشوں کے سانپ پالنا ہے۔ کوئی لاکھ سمجھائے ع
تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تُو!
مگر یہ نہیں مانتے۔ ہمارے لیے لازم نہیں کہ مرزا کی ہر بات سے متفق ہوں مگر ازدواجی تعلقات یعنی گھریلو زندگی کے بارے میں وہ جو کہتے ہیں اُس کا بیشتر حصہ صداقت پر مبنی ہوتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ وہ بھی گھریلو زندگی اور اِس حوالے سے ماہرین کی تحقیق کے ڈسے ہوئے ہیں! اِسی طور، بھابی صاحبہ جو کچھ کہتی ہیں وہ بھی برحق ثابت ہوتا رہا ہے کیونکہ وہ مرزا کی ڈسی ہوئی ہیں!
مرزا کہتے ہیں: ''اگر مرد و زن ماہرین کی تحقیق آلود گپ نہ پڑھیں تو ایک دوسرے سے زیادہ فوائد کشید کریں۔ ایسی صورت میں تمام بدگمانیوں کی جڑ کٹ جائے اور زندگی مکمل بے فِکری سے گزرے۔‘‘
ماہرین نے ازدواجی تعلقات کے حوالے سے تازہ ترین تحقیق میں بتایا ہے کہ میاں بیوی اگر خالی پیٹ یعنی کچھ کھائے پیے بغیر کسی موضوع پر گفتگو کریں تو کچھ ہی دیر میں گرما گرم بحث چِھڑنے کا خدشہ ہوتا ہے۔
خالی پیٹ گفتگو سے گریز کا مشورہ ایک ہزار سے زائد جوڑوں پر تحقیق کے بعد دیا گیا ہے۔ مرزا کہتے ہیں: ''اِس اہتمام کی کیا ضرورت تھی؟ یہ نتیجہ اخذ کرنے کے لیے دو تین شادی شدہ جوڑوں پر تحقیق ہی کافی ہوتی ہے۔ خالی پیٹ کچھ کہتے کہتے بھڑک اُٹھنا تو اِنسان کی فطرت ہے۔ زیر مُطالعہ انسان دو چار ہوں یا دو چار ہزار، فطرت تو ایک ہی رہے گی۔‘‘
آپ سوچیں گے خالی پیٹ کی جانے والی گفتگو بحث میں کیوں تبدیل ہوسکتی ہے یا ہوتی ہے۔ ماہرین ارشاد فرماتے ہیں کہ خوراک نہ ملنے سے دِماغ کو توانائی کی فراہمی رُک جاتی ہے اور اِنسان اپنے حواس پر تصرّف کھوکر فریقِ ثانی کے حواس پر مُتصرّف ہونے لگتا ہے! یُوں معمولی سے موضوع پر ہونے والی گفتگو ٹی وی چینلز کے پرائم ٹائم ٹاکروں والی گرما گرم بحث میں تبدیل ہوکر ماحول کو خاصا پراگندہ یعنی گندا کردیتی ہے!
ہم مرزا کو ماہرین والی خبریں بہت احتیاط سے سُناتے ہیں کیونکہ اُن کی ہنسی چُھوٹتی ہے تو پھر قابو میں نہیں آتی۔ جب ہم نے ماہرین کی یہ بُھوکے پیٹ بحث والی تحقیق مرزا کے گوش گزار کی تو وہ حسبِ روایت ہنستے ہنستے لَوٹ پوٹ ہوگئے۔ کسی نہ کسی طور ہنسی پر قابو پانے میں کامیاب ہوئے تو بولے: ''جب بھی ماہرین خوراک کی فراہمی یا عدم فراہمی کے بارے میں کچھ فرماتے ہیں، ہمارے ذہن کو خوراک مل جاتی ہے یعنی جی بھر کے ہنسنے کا موقع ملتا ہے۔ ہم خوراک کی کمی کے اثرات سے متعلق ماہرین کی ہر رائے کو پیٹ بھرے کی مستی کے زُمرے میں رکھتے ہیں!‘‘
ہم نے عرض کیا کہ ماہرین نے بات تو سولہ آنے درست کہی ہے۔ کون اِس حقیقت سے انکار کرسکتا ہے کہ خالی پیٹ گفتگو انتہائی خطرناک ثابت ہوتی ہے؟
مرزا نے مزید ہنسی پر قابو پاتے ہوئے کہا : ''اِسی بات کا رونا ہے۔ ماہرین مہینوں جَھک مار کر یعنی خُوب مطالعہ کرکے اور رائے عامہ کے جائزوں کا جائزہ لے کر جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں وہ بالعموم عمومی سی حقیقت پر مبنی ہوتا ہے۔ طویل مُدت تک اپنا اور دوسروں کا مغز کھپاکر ماہرین جو رائے پیش کرتے ہیں وہ ایک عام آدمی کو بہت پہلے سے معلوم ہوتی ہے۔ اب یہی دیکھ لو کہ جب خوراک نہیں ملتی تو دِماغ کو توانائی کی فراہمی رُک جاتی ہے تو اِنسان بے حواس ہونے لگتا ہے۔ ہم یہ بات بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ تمہیں مُنہ چلائے بغیر یعنی کچھ کھائے بغیر محض آدھ پون گھنٹہ گزر جائے تو آپے سے باہر ہونے لگتے ہو۔ اور جو بے تُکے خیالات تمہیں کالم کی نذر کرنے ہوتے ہیں وہ تمہارے مُنہ سے برآمد ہوکر مدِ مقابل پر برسنے لگتے ہیں! تم سے دوستی کے بعد ہی ہم جان پائے کہ خوراک نہ ملنے سے دِماغ پر کیا گزرتی ہے۔ تو کیا اِس بُنیاد پر ہم بھی خود کو ماہرین میں شُمار کرنے لگیں، تجزیہ کار ہونے کا دعویٰ کر بیٹھیں؟‘‘
ہم نے مرزا کی ''حقیقت بیانی‘‘ کو نظر انداز کرتے ہوئے عرض کیا کہ خوراک ملنے یا نہ ملنے کے اثرات پر تحقیق کرنا ماہرین کی روزی روٹی کا معاملہ ہے۔ اچھا ہے، تھوڑی تحقیق سے اُن کے گھروں میں چولھا جلتا رہتا ہے اور اِدھر ہم اُن کے افکارِ عالیہ سے دِل بستگی کا کچھ سامان کر پاتے ہیں۔
مرزا کو برسنے کا موقع چاہیے تھا سو مِل گیا۔ کہنے لگے : ''ہاں ہاں، ماہرین کے کہے سے تم جیسوں کا بھی تو بھلا ہو جاتا ہے۔ اُن کی باتوں کا ٹرک گزرتا ہے تو تم لوگ بھی بتّی کے پیچھے لگ جاتے ہو اور چند باتوں کا دامن تھام کر قلم گھسیٹنے کا اہتمام کرلیتے ہو۔ مگر ہم اِس معاملے میں دخل کیوں دیں؟ آخر کو تمہارے بھی پیٹ لگا ہوا ہے۔‘‘
ہم نے کہا :تو پھر آپ کیا چاہتے ہیں، ماہرین تحقیق سے شوق فرمانا ترک کردیں؟ مرزا بولے : ''کوئی مردوں والا کام کرکے دکھائیں تو ہم ماہرین کی صلاحیت کا لوہا مانیں۔ مثلاً وہ اِس امر پر تحقیق کریں کہ کھانا نہ ملنے پر بھی اِنسان اپنے حواس پر کس طور قابو رکھ سکتا ہے۔ مگر وہ ایسی کوئی تحقیق کیسے کریں؟ بروقت کھانا نہ ملنے پر وہ بھی تو اپنے حواس کو قابو میں نہیں رکھ پاتے۔ کوئی شخص دن بھر کام کاج کے بعد شام کو گھر آئے اور کھانا تیار نہ ہو تو ہنگامہ کھڑا ہوتا ہے۔ پہلے مرحلے میں سرد جنگ چلتی ہے، پھر دو چار تلخ جملوں کا تبادلہ ہوتا ہے۔ اِس کے بعد تھوڑی سی گرما گرمی پیدا ہوتی ہے اور پھر آن کی آن میں جنگل کا جنگل ہرا ہو جاتا ہے! ذرا سی دیر میں 'آپ سے تم، تم سے تُو ہونے لگی‘ والا ماحول پیدا ہوتا ہے، اچھا خاصا گھر خانہ جنگی کا منظر پیش کرنے لگتا ہے۔ اور پورا محلہ یہ تماشا بغیر ٹکٹ دیکھتا ہے! ماہرین ذرا شوہروں کو بتائیں کہ ایسی حالت میں خود پر کس طور قابو پایا جاسکتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ شوہر اُنہیں ایسا سبق سِکھائیں گے کہ لگ پتا جائے گا۔‘‘
مرزا کی بات میں دم ہے۔ میاں شام کو گھر واپس آئے اور یہ پتا چلے کہ کھانا نہیں پکا کیونکہ بیگم صاحبہ شاپنگ سے واپس نہیں آئیں تو ''غدودانِ معدہ کی حالتِ خانہ جنگی‘‘ گھر کو میدانِ جنگ بنانے میں دیر نہیں لگاتی۔ اگر ماہرین کے پاس ایسی صورتِ حال کو کنٹرول کرنے کا کوئی نُسخہ ہے تو بتائیں۔ اور نہیں ہے تو پیٹ بھرے کی مستی والی باتیں اپنے تک رکھیں، ایران تُوران کی ہانک کر ہمارا اور ہمارے قارئین کا گھریلو ماحول تباہ نہ کریں!