"MIK" (space) message & send to 7575

خدا کرے کہ یہ دیوانگی رہے باقی

تین ہفتے ہوچکے ہیں۔ یعنی پون مہینہ۔ اِس پون مہینے میں کرکٹ ہمارے سَروں پر ویسے ہی سوار ہے جیسے سیر کے سر پر کوئی سوا سیر سوار ہو۔ کرکٹ کے بخار نے پوری قوم کی چُھٹّی کر رکھی ہے۔ اور خود کرکٹ کا بُخار فی الحال چُھٹّی کے مُوڈ میں دکھائی نہیں دیتا۔
قومی کرکٹ ٹیم نے ورلڈ کپ میں اپنی تمام تابندہ و ناتابندہ روایات کو خوب نبھایا اور برقرار رکھا ہے۔ پہلے تمام چراغ اپنی ہی پُھونکوں سے بُجھادیئے۔ محسوس کیا جاسکتا تھا کہ کوئی بھی آسانی من کو بھاتی نہیں۔ پہلے آسانی کے ہاتھوں زیر و زبر ہوکر اُسے مشکل بنایا جائے اور پھر اُس مشکل کو زیر کیا جائے! جب قوم مایوسی کی راہ پر گامزن ہوئی تو قومی کرکٹ ٹیم ''ریکوری‘‘ کی راہ پر گامزن ہوئی۔
زمبابوے کو شکست دے کر قومی ٹیم نے بُجھے ہوئے چراغوں کو روشن کرنے کا سفر شروع کیا۔ اِس فتح نے قوم کی ڈھارس بندھائی۔ قومی ٹیم نے اشارا دیا کہ ابتدائی دو میچوں میں ہونے والی شکست ''وارم اپ‘‘ کے درجے پر تھی۔ یعنی ملنا تھا بریک کے بعد۔ زمبابوے پر فتح نصیب ہوئی تو قوم نے سُکون کا سانس لیا۔ ؎
تھک گئی تھی یہ قوم بھی یارو!
کچھ دُعا ... اور کچھ التجا کر کے
خیر، زمبابوے نے کھائی مات
کفر ٹوٹا خُدا خُدا کر کے!
ٹیم میں کچھ جان آئی۔ رِدھم بحال ہوا۔ جذبہ توانا ہوا۔ حوصلہ بڑھا۔ زمبابوے کے بعد متحدہ عرب امارات سے ٹاکرا تھا۔ خیر،
یہ کوئی زیادہ مشکل مرحلہ نہ تھا۔ ہاں، رن ریٹ بہتر نہ بنا پانے کا افسوس ضرور تھا۔ پھر آیا جنوبی افریقہ سے ''ملاقات‘‘ کا دن۔ ایسا لگتا تھا جیسے آنکھوں کے سامنے اچانک پہاڑ آگیا ہو۔ قوم دم بخود ہی نہیں، یہ دیکھنے کو بے تاب بھی تھی کہ اب مصباح الیون کیا کرتی ہے۔ مسئلہ صرف فتح کا نہ تھا۔ پاکستان کے لیے امکانات کے چراغ گُل نہیں ہوئے تھے۔ مگر یہ تو کوئی بات نہ ہوتی کہ کمزور ٹیموں کو ہراکر ہم کوارٹر فائنل میں پہنچیں۔ ایسا کرنا پاکستان جیسے کرکٹ پرست ملک کے شایانِ شان نہیں۔
تین ہفتوں سے قوم اپنی ٹیم کا بھرپور ساتھ دے رہی تھی ... دُعاؤں کی شکل میں۔ 7 مارچ کو قوم کی مائیں بہنیں اور بیٹیاں اگلے ہی دن یعنی آج منائے جانے والے اپنے عالمی دن اور اپنے یعنی حقوقِ نِسواں بُھول کر قومی ٹیم کے جواں مَردوں کی کامیابی کے لیے سَر بسجود تھیں۔ وقفے وقفے سے کچھ نہ کچھ پڑھ کر ٹی وی اسکرین پر پُھونکنے کا سلسلہ پورے میچ کے دوران جاری رہا۔
جنوبی افریقا کے مقابل اللہ نے جو فتح ہمارے دامن میں ڈالی وہ سارے غموں کی آگ بُجھانے کے لیے کافی تھی۔ قوم فرطِ مسرّت سے جُھوم اُٹھی، بلکہ ناچنے لگی۔ ہر فرد مسرور دکھائی دیا۔ اور تو اور، ہم نے مرزا تنقید بیگ کو بھی انتہائی مسرور دیکھا۔ کہاں تو وہ ابتدائی دو میچوں میں شکست پر بددل اور ٹیم سے نالاں تھے۔ اور کہاں اب شاداں ہی شاداں! یاد رہے کہ ہم نے یہ میچ مرزا کے گھر میں دیکھا۔ مرزا بلا کے کنجوس واقع ہوئے ہیں۔ بیمار پڑتے ہیں تو جیب سے دوا کے پیسے بھی بڑی مشکل سے نکالتے ہیں۔ مگر یہ کیا؟ میچ ختم ہوتے ہی مرزا نے اپنی ساری فطری خِسّت بالائے طاق رکھتے ہوئے جیب سے پانچ سو کا نوٹ نکالا اور بیٹے کو ایک کلو تازہ گلاب جامن لانے کا حکم دیا۔ ہم نے حیرت سے دیکھا تو مرزا شرمائے بغیر بولے : ''آج پھر ثابت ہوگیا کہ پاکستانی ٹیم میں جو لوگ کھیلتے ہیں وہ پاکستانی ہی ہیں! یعنی جب سب کچھ ہاتھ سے جاتا دکھائی دے رہا ہو تب اچانک کچھ ایسا کر دکھاؤ کہ سب کچھ واپس آجائے اور وہ بھی نفع کے ساتھ!‘‘
ابھی ہم کچھ کہنے کا سوچ ہی رہے تھے کہ مرزا نے اپنی بات کا اگلا مرحلہ شروع کیا : ''کچھ دن پہلے تم خواتین کے عالمی دن کی بات کر رہے تھے۔ ہمیں یقین ہے کہ تم اِس بار بھی خواتین کے عالمی دن پر کچھ ایسا لکھنے والے تھے جس کا مقصد خواتین کے مسائل کو ہنسی ہنسی میں اُڑانے کے سِوا کچھ نہ ہوتا۔ خواتین کا عالمی دِن بُھول جاؤ۔ خواتین کا عالمی دن تو کل ہے مگر ہماری ٹیم کے جواں مردوں نے آج کا دن اپنے نام کرکے 'یومِ مرداں‘ منا ڈالا ہے!‘‘
مرزا واقعی پاکستانی ہیں۔ جب ٹیم کو لتاڑتے ہیں تو ساری مُروّت لپیٹ کر کسی کونے میں رکھ دیتے ہیں۔ اور جب سراہنے پر آتے ہیں تو بُھول جاتے ہیں کہ سراہنے کی کوئی حد بھی ہونی چاہیے۔
مگر خیر، مرزا کی طرزِ عمل کچھ غلط بھی نہیں۔ قومی ٹیم نے جنوبی افریقہ کو ہراکر قوم کو جس مسرّت سے ہمکنار کیا ہے وہ بے مثال ہے۔ ہمارے ہاں ایک ماہ سے طرح طرح کے دن منائے جارہے ہیں۔ سینیٹ کے حالیہ انتخابات سے پہلے کئی ہفتوں تک ایسا لگا کہ ہر دن گھوڑوں کا ہے! اور حُسنِ اتفاق ملاحظہ فرمائیے کہ جس دن سینیٹ کے لیے پولنگ ہوئی، لاہور میں (حقیقی) میلۂ مویشیاں و اسپاں کا بھی افتتاح ہوا! جنوبی افریقہ کو ہرانا کمال ٹھہرا۔ ورلڈ کپ کے پہلے چار میچوں سے باہر رکھے جانے والے سرفراز احمد کے آنسو قدرت نے یُوں پونچھے کہ بہت سوں کی پیشانی پر ندامت کے قطرے نمودار ہوئے۔ خواتین کے عالمی دن سے ایک دن قبل قومی ٹیم نے انتہائی شاندار ''یومِ مرداں‘‘ منا ڈالا! موسم کا کچھ بھروسہ نہ تھا۔ بارش سے میچ ضائع ہونے کی صورت میں ایک ایک پوائنٹ ملتا۔ یعنی ہمارا ایک پوائنٹ ضائع ہونے کا خدشہ تھا۔ اور یہ دباؤ بھی تھا کہ میچ ہر حال میں جیتنا ہے تاکہ پوائنٹس ٹیبل پر بات بنی رہے۔
جنوبی افریقہ فُل سوئنگ میں ہے۔ ڈی ولیئرز کا بیٹ ایسے گھوم رہا ہے کہ کسی کو بخشنے کے مُوڈ میں نہیں۔ مگر کچھ دن پہلے تک بچہ سمجھے جانے والے پوری قوت اور ہمت سے لڑے اور یُوں میدان مارا کہ اپنے پرائے سبھی سراہتے نہیں تھک رہے۔ وہاب ریاض نے ایک بار پھر شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ سرفراز نے 49 رنز اِتنی ہی گیندوں پر اسکور کرکے ٹیم ہی میں موجود چند معترضینِ اعلیٰ کے مُنہ بند کردیئے۔ اور پھر وکٹوں کے پیچھے 6 کیچ لے کر گویا حُجّت تمام کردی!
کل دن بھر مرزا کا حال یہ تھا کہ وہاب ریاض اور سرفراز کی تعریف کرتے نہیں تھک رہے تھے۔ اُنہیں اِس بات کی بھی خوشی تھی کہ ہم خواتین پر خصوصی کالم لکھنے سے رہ گئے۔ کہنے لگے : ''قومی ٹیم کی فتح نے خواتین پر بڑا کرم کیا۔‘‘
ہم نے حیران ہوکر اِس جملے کا مفہوم جاننا چاہا تو بولے : ''ہم جانتے ہیں کہ تم اگر خواتین پر خصوصی کالم لکھنے بیٹھتے تو اُن میں منفی پہلو ہی تلاش کرتے اور اُنہیں تنقید و استہزاء کا نشانہ بناتے۔‘‘
پوری قوم کی طرح مرزا بھی یہی چاہتے ہیں کہ جنوبی افریقہ کو شکست دینے کی صورت میں خود کو مرد ثابت کرنے کا جو سفر قومی کرکٹ ٹیم نے شروع کیا ہے وہ مزید چار کامیابیوں تک جاری رہے۔ یعنی ورلڈ کپ ایک بار پھر ہمارا ہو۔ قومی کرکٹرز کے لیے دُعا ہے ع
خُدا کرے کہ یہ دیوانگی رہے باقی

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں