"MIK" (space) message & send to 7575

لائف ٹائم ایونٹ

جن کی زندگی خوشیوں کو ترس جائے وہ ہر معاملے سے کچھ نہ کچھ لطف، کوئی نہ کوئی خوشی کشید کرنا چاہتے ہیں۔ جنوبی ایشیا اور بالخصوص برصغیر کی روایت سی رہی ہے کہ لوگ خوشی کا کوئی بھی موقع ہاتھ آتے ہی اپنے حواس پر اختیار سے محروم ہوجاتے ہیں اور خوشی اِس ڈھنگ سے مناتے ہیں کہ دنیا والے اُنہیں دیکھ کر دانتوں تلے انگلیاں داب لیتے ہیں۔
برصغیر کے لوگ شادی کی تقریب کو زندگی کا حاصل سمجھتے ہیں اور اِس حوالے سے جس قدر بھی لطف اندوز ہوسکتے ہیں، ہوتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ زندگی میں اور کچھ بھی نہ کر پانے والے جب شادی کرتے ہیں تو ''لائف ٹائم اچیومنٹ‘‘ کا تصور ذہن میں تازہ کرتے ہوئے شادی کی تمام تقریبات کو ''لائف ٹائم ایونٹ‘‘ بنانے پر تُل جاتے ہیں! یہ اور بات ہے کہ اُن کی ''زمانہ ما قبلِ شادی‘‘ کی جو تھوڑی بہت ''اچیومنٹ‘‘ ہوتی ہے وہ بھی شادی کے بعد ٹھکانے لگ جاتی ہے!
شادی زندگی کا اہم موڑ ہوا کرتی ہے مگر لوگوں نے اِسے کچھ کا کچھ بنا ڈالا ہے۔ بیشتر افراد اِس موڑ پر پہنچنے کے بعد کسی ایسی راہ پر چل پڑتے ہیں جس میں بالعموم واپسی کا کوئی موڑ نہیں ہوتا یعنی یُو ٹرن کی گنجائش برائے نام بھی نہیں ہوتی۔ دِل کی تسلی کو صرف اِس قدر یاد رہتا ہے ع
چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ
شادی کے نام پر آئے دن ایسے تماشے رُونما ہوتے ہیں کہ جو ایسے تماشے کر بیٹھے ہوں اُن کی عقل بھی دنگ رہ جاتی ہے! بہت سوں کے لیے تو شادی کی تقریب بہت حد تک ''تقریبِ رونمائی‘‘ ہوتی ہے۔ یعنی وہ اِس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مزاج اور موڈ وغیرہ کی شاندار رُونمائی کرتے ہیں۔ عین نکاح کے وقت طرح طرح کے نخرے دکھاکر بہت سے لوگ اپنے وجود کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے پائے گئے ہیں!
شادی کی تقریب بجائے خود اچھا خاصا ڈراما ہوتی ہے۔ اگر کچھ اور شامل نہ کیا جائے تب بھی اِس میں اچھی خاصی ڈرامائیت پائی جاتی ہے مگر لوگ تھوڑے پر گزارا کرنے کے قائل نہیں۔ شادی کے ڈرامے کو زیادہ جاندار اور ''بلاک بسٹر‘‘ بنانے کے لیے لوگ اداکاری کا گراف بلند کرنے سے نہیں چُوکتے۔ شادی کی تقریب میں اضافی ڈرامائیت پیدا کرنے کے لیے بہت سے دولہا عین نکاح کے وقت گاڑی یا موٹر سائیکل کی فرمائش کر بیٹھتے ہیں۔ پھر اُنہیں منانے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ حاضرین کی تفریحِ طبع کے لیے ہوتا ہے! اگر آپ ایسے لمحات کو ذرا یکسُو ہوکر ملاحظہ فرمائیں تو ایسا لُطف پائیں گے جو کئی دن یاد رہے گا! مگر کبھی کبھی یہ سب کچھ بیک فائر بھی کر جاتا ہے۔ مثلاً یہ بھی ہوا ہے کہ کسی لڑکے نے نکاح کے لیے گاڑی کی شرط رکھی۔ لڑکی والے بِدک گئے یا لڑکی کے باپ کا مَتّھا گھوم گیا اور اُس نے اُسی وقت کسی اور لڑکے کو پکڑ کر نکاح خواں کے سامنے بٹھایا اور نکاح پڑھوادیا! اور بارات کے ساتھ آیا ہوا دولہا سوچتا ہی رہ جاتا ہے ع
ذرا سی دیر میں کیا ہوگیا زمانے کو
شادی کی تقریب کو ڈرامائی بنانے کا رواج اب اِس قدر زور پکڑ گیا ہے کہ بہت سے لوگ بریانی یا قورمے کی لَذّت کو ایک طرف ہٹاکر اِس ڈرامائیت کے چکر میں شادی اٹینڈ کرتے ہیں! وہ جانتے ہیں کہ جو کچھ اسٹیج ڈراموں میں نہیں مل سکتا وہ شادی کی تقریب میں ضرور ملے گا! شادی کی تقریب کے شُرکاء کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کس بات پر داد دیں اور کس بات پر (اپنے) سَر پیٹیں!
شادی کی تقریبات کو فُل ٹائم کامیڈی بنانے میں بھارت اب تک خطے کا سردار ثابت ہوا ہے۔ وہاں ایک زمانے سے یہ ہوتا آیا ہے کہ عین شادی کے وقت لڑکا کہتا ہے کہ لڑکی زیادہ خوبصورت نہیں یا کم پڑھی لکھی ہے۔ کوئی اِس بات کا رونا روتا ہے کہ اُس کی ہونے والی بیوی ''ضرورت‘‘ سے زیادہ دُبلی یا موٹی ہے! یا پھر لڑکی پھیرے لینے سے پہلے اعتراض کر بیٹھتی ہے کہ لڑکا اَن پڑھ، لنگڑا، بھینگا یا ''چشمش‘‘ ہے! لوگ حیران رہ جاتے ہیں کہ یہ تمام اعتراضات تو سگائی طے کرتے وقت بھی کیے جاسکتے تھے! اچھا سارا رونق میلہ لگانے کے بعد یہ ساری اٹکھیلیاں کس کھاتے میں؟ وہ زمانے ہوا ہوئے جب لڑکیاں جہیز نہ لانے پر مار کھایا کرتی تھیں اور جہیز لانے پر بھی گالیاں سُنتی تھیں۔ اب خیر سے این جی اوز میدان میں ہیں۔ غیر سرکاری تنظیموں نے لڑکیوں کو ایسا ''شعور‘‘ بخشا ہے کہ لڑکے والے یہ سوچ کر کانپتے رہتے ہیں کہ کچھ اُلٹا سیدھا کہنے پر کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں! این جی اوز کے بہکاوے میں آکر بہت سی عین شادی کے وقت عجیب و حرکتیں کرنے لگی ہیں۔
بھارت ہی سے یہ خبر بھی آئی ہے کہ ایک گاؤں کی پنچایت نے طے کیا ہے کہ اگر بارات تاخیر سے پہنچے گی تو لڑکے والوں سے جُرمانہ وصول کیا جائے گا! اب آپ ہی بتائیے کہ ایسی خبروں پر کوئی ہنسے یا روئے۔ اب سَر پنچ کو کون سمجھائے کہ شادی تو بجائے خود ایک جُرمانہ ہے! بارات دیر سے لانے پر جُرمانہ تو ''مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ والا معاملہ ہوا!
شادی کے بعد بھی زندگی میں بہت کچھ اوٹ پٹانگ ہوسکتا ہے، بلکہ ہوتا ہی ہے۔ پھر Pre-emptive strike کے طور پر شادی کی تقریب کو اس قدر اوٹ پٹانگ بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ مگر صاحب، شوق کی کوئی قیمت کب ہوا کرتی ہے!
معاشی ترقی کے معاملے میں بھارت نے چین کی نَقّالی کی تو اب چین ''معاشرتی ترقی‘‘ کے معاملے میں بھارت کو ''رول ماڈل‘‘ بنانے پر تُلا دکھائی دیتا ہے۔ یعنی یہ کہ اب چین میں بھی لوگ شادی کے حوالے سے اوٹ پٹانگ حرکتیں کرنے لگے ہیں! حال ہی میں ایک چینی نوجوان نے جب شادی کے دن دلہن کو اپنے رُو بہ رُو پایا تو اُس کی بدصورتی پر اپنے نصیب کو روتا، کوستا بھاگا اور دریا میں چھلانگ لگادی! لوگوں نے فوراً ریسکیو والوں کو بُلایا۔ ریسکیو ورکرز نے خاصی جدوجہد کرکے اُسے مرنے سے بچایا کیونکہ خود رَو پودے اُسے گرفت میں لے چکے تھے! کوئی اُس بے وقوف دولہا سے پوچھے کہ مرنے کے لیے اِس قدر اہتمام کی ضرورت کیا تھی؟ شادی کے بعد بے موت تو مرنا ہی تھا، شادی جیسے ''لائف ٹائم ایونٹ‘‘ کا مزا خواہ مخواہ کِرکِرا کردیا!
چین ہی میں ایک دلہن کو عین شادی کے دن شرارت سُوجھی۔ اُس نے خصوصی میک اپ کرایا۔ آپ سوچیں گے اِس میں حیرت کی کیا بات ہے۔ شادی کے دن ہر دلہن خصوصی میک اپ ہی تو کراتی ہے۔ ٹھیک ہے مگر وہ میک اپ تو زیادہ سے زیادہ حسین اور کم عمر نظر آنے کے لیے کرایا جاتا ہے۔ اِس چینی دلہن نے جان بوجھ کر ایسا میک اپ کرایا کہ بوڑھی دکھائی دے! وہ اپنے ہونے والے جیون ساتھی کو آزمانا چاہتی تھی کہ وہ گئے گزرے looks کے ساتھ بھی اپنی دلہن کو قبول کرتا ہے یا نہیں! یہ ایڈونچر بُری طرح بیک فائر کرگیا۔ دولہا میاں نے جب دلہن کے چہرے پر بڑھاپا دیکھا تو شادی ہی سے انکار کردیا! دلہن اُس کے پیروں پر گِر پڑی اور اپنے ''ایڈونچر اِزم‘‘ پر معذرت کی مگر دولہا میاں نہ مانے اور معاملہ تلپٹ ہوگیا!
جو لوگ اپنی شادی کو زیادہ سے زیادہ پُرکشش اور دلچسپ بنانا چاہتے ہیں اُن سے التماس ہے کہ اِس معاملے میں کسی بھی overture سے گریز کریں۔ کوئی اضافی آئٹم شامل نہ کیا جائے تب بھی ہمارے ہاں شادی کی تقریبات ''میلۂ مویشیاں و اسپاں‘‘ کا ماحول پیدا کرکے دم لیتی ہیں! ایسے میں دولہا اور دلہن اپنی توانائی مزید ڈرامائیت پیدا کرنے پر ضائع نہ کریں تو اچھاہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں