"MIK" (space) message & send to 7575

سوشل میڈیا کا شکنجہ

برطانیہ میں ایک تازہ ترین سٹڈی سے معلوم ہوا ہے کہ طلاق کی چند بڑی وجوہ میں سوشل نیٹ ورکنگ کی مشہور ویب سائٹ فیس بک بھی شامل ہے۔ اعداد و شمار کے ماہرین کا کہنا ہے کہ طلاق کے ہر سات کیسز میں ایک میں فیس بک سب سے بڑے اور بنیادی سبب کے طور پر سامنے آئی ہے۔
سوشل نیٹ ورکنگ بھی ہے تو نیٹ ورکنگ ہی۔ یعنی تار کا ایک سِرا کہیں تو دوسرا سِرا کہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی والے جانتے ہیں کہ نیٹ ورکنگ کس بلا کا نام ہے۔ سوشل نیٹ ورکنگ بھی بلا سے کم نہیں۔ مشینیں تو پھر انسان کی سمجھ میں آ جاتی ہیں اور کسی نہ کسی طور کام کرنے لگتی ہیں۔ انسان کا کیا علاج؟ انسان کو سمجھنا تو دنیا کا سب سے بڑا فن ہے۔ جس نے یہ فن سیکھ لیا سمجھ لیجیے وہی حقیقی مفہوم میں باکمال ہے۔ باقی سب تو ''کملے‘‘ ہیں!
تقریباً دو عشروں میں زندگی میں وہ رونما ہوا ہے‘ جو اس سے پہلے کسی بھی دور میں رونما نہیں ہوا تھا۔ انسان نے ملنے جلنے کو چھوڑ کر سائبر اسپیس میں سوشل نیٹ ورکنگ اپنا لی ہے۔ یہ بھی نرالا ہی ڈھنگ ہے۔ جس دنیا کا کوئی حقیقی وجود ہی نہیں اس میں جینا اور حقیقت کی دنیا کو دور سے سات سلام!
اہل جہاں نے اب بالمشافہ ملنے اور دل کا حال سنانے کو ترک کر کے آن لائن چیٹ روم میں جا کر کسی اجنبی سے دل کی بات کہنے کا وتیرہ اپنا لیا ہے۔ جب ایسا ہو گا تو خرابیاں بھی پیدا ہوں گی۔ برطانوی سٹڈی کے مطابق اب تقریباً ہر دوسرے گھرانے میں میاں اور بیوی ایک دوسرے پر شک کرتے رہتے ہیں جیسے شک کرنا ازواجی زندگی کے پیکج کا لازمی حصہ ہو۔ بیوی اس بات پر نظر رکھتی ہے کہ شوہر کس کس سے ملتا ہے اور کہیں ''پچھلی والی‘‘ (یعنی بیوی) کی دل جُوئی یا پھر سابق ''محبت‘‘ کو نئی زندگی عطا کرنے کی کوشش تو نہیں کر رہا۔ دوسری طرف شوہر کو یہ فکر لاحق رہتی ہے کہ بیوی نے کوئی نیا بوائے فرینڈ تو نہیں پال لیا یا پھر یہ کہ وہ کسی پرانے بوائے فرینڈ سے ''احیائے تعلقات‘‘ تو نہیں کر رہی۔
گھریلو زندگی اس لیے ہوتی ہے کہ انسان سکون پائے اور زندگی میں توازن پیدا کرنے کی راہ پر گامزن ہو۔ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس نے سب کچھ چھین لیا ہے، غارت کر دیا ہے۔ اپنوں کو چھوڑ کر غیروں کو اپنانے اور کسی جواز کے بغیر انہیں اپنا سمجھنے کا چلن ایسا عام ہوا ہے کہ رشتوں کی مِٹّی پلید ہو کر رہ گئی ہے۔ لاکھ سمجھائیے، لوگ فیس بک پر سٹیٹس کو اپ ڈیٹ کرنے اور ٹوئٹر پر کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑنے سے باز نہیں آتے۔ اس بیماری کو لوگوں نے گویا دانتوں سے پکڑ لیا ہے۔
مرزا تنقید بیگ کو ان لوگوں سے چڑ ہے جو پڑوسی کا نام نہیں جانتے اور سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر مقبولیت کی سیڑھیاں چڑھتے جا رہے ہیں۔ مرزا کہتے ہیں کہ جنہیں پڑوسیوں کے لیے چند لمحات نکالنا اچھا نہیں لگتا، دل جُوئی کی خاطر دو پیار بھرے جملے کہتے موت آتی ہے وہ آن لائن چیٹ روم میں گھنٹوں محبت اور اخلاص کے حوالے سے بڑے بڑے فلسفیوں کو quote کر رہے ہوتے ہیں! کسی دوسرے براعظم کے کسی باشندے یا ''باشندی‘‘ سے بتیانے کا شوق ہے کہ دم توڑنے کا نام نہیں لیتا۔ اور اگر خاندان میں کوئی بیمار پڑا تو چار قدم چل کر اس کی عیادت کی توفیق نصیب نہیں ہوتی! اگر کوئی پوچھ بیٹھے کہ وہاں کیوں نہیں آئے تو ٹکا سا جواب ملتا ہے کہ لائف آج کل بہت بِزی ہے، وقت ہی نہیں نکل پاتا!
مرزا کا استدلال ہے کہ آج بھی معاشرے میں توازن اسی وقت پیدا ہو سکتا ہے جب لوگ حقیقی سطح پر ملنے کو ترجیح دیں یعنی میل جول رکھیں اور محض کمپیوٹر کے ذریعے دنیا بھر کی ہانکنے کو معاشرتی تعلقات سمجھ کر اپنے آپ کو دھوکا نہ دیں! برطانیہ اور دیگر مغربی معاشروں میں طلاق کے بڑھتے ہوئے رجحان کی پشت پر سوشل نیٹ ورکنگ کی کارستانیوں کو لعن طعن کرتے ہوئے مرزا کہتے ہیں: ''جب حقیقت کی دنیا کو ٹھکرا کر خیالی دنیا کو اپنایا جائے گا اور اسی میں سانس لیتے رہنے کو ہر معاملے پر ترجیح دی جائے گی تو ایسا تو ہو گا ہی۔ گھر بھی ٹوٹیں گے اور زندگی کا تانا بانا بھی بکھرے گا۔ فیس بک پر جو لوگ ہر پندرہ بیس منٹ کے بعد اپنے سٹیٹس کو اپ ڈیٹ کرنے کے مرض میں مبتلا ہیں وہ اپنے ہی گھر کی حدود میں اجنبی کی طرح زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں۔ حقیقی بھائی بہن کو وقت دینا ان کے مزاج کا حصہ نہیں اور آن لائن چیٹ روم میں سات سمندر پار کے کسی فرد کو اپنی 'دکھ بھری کہانی‘ سنانے کی فکر لاحق رہتی ہے! کمال یہ ہے کہ ایسا کرتے وقت وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایسا کرنا اپنے آپ کو دھوکا دینے کے سوا کچھ نہیں۔ مگر جب کسی بھی معاملے میں لطف آ رہا ہو تو جھوٹ اور سچ کی بحث میں کون پڑتا ہے! ع
اِک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے!
نئی نسل کا عجیب حال ہے۔ کھانے کا ہوش ہے نہ پینے کا۔ دن رات سوشل سائٹس کا عذاب ہے کہ حواس پر مسلط ہے۔ بہت سے لڑکے اور لڑکیاں تو ایسے ہیں جن کا فیس بک اکاؤنٹ بند ہی نہیں ہوتا۔ یعنی رات دن اپ ڈیٹس آتی رہتی ہیں، کمنٹس موصول ہوتے رہتے ہیں اور وہ نیند میں ڈوبی ہوئی حالت میں ہونے پر بھی جواب دینے سے باز نہیں آتے! جو چیز خون میں شامل ہو جائے، مزاج فطرت کا حصہ بن جائے وہ ایسی آسانی سے کہاں چُھوٹتی ہے!‘‘
کبھی کبھی مرزا دل کو چُھونے والی بات کر جاتے ہیں۔ اگر اُن کا کوئی مخالف ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خواہ مخواہ اختلاف کرنا بھی چاہے تو نہیں کر سکتا! یہ سب کیا ہے؟ زندگی کبھی اتنی بے بس تو نہ تھی۔ جدید ترین ٹیکنالوجیز نے زندگی کو بہت سے سہولتیں دی ہیں مگر ہم نے ان سہولتوں کو اپنے لیے عذاب میں تبدیل کر لیا ہے۔ اگر اسی تبدیلی کا انتظار تھا تو انتظار کیسا؟ تبدیلی تو آ چکی ہے! انسانوں پر ایسا وقت تو کبھی نہ گزرا تھا کہ ایک گھر میں رہتے ہوئے کسی کے پاس کسی کے لیے وقت نہ ہو! گزرے ہوئے زمانوں میں لوگ ایسے ڈھیٹ نہ تھے کہ گھنٹوں سامنے بیٹھ وقت بالکل نہ ہونے کا بہانہ تراشتے رہیں! ہر دور کا انسان منافق بھی تھا مگر ایسا منافق تو ہرگز نہ تھا کہ جھوٹ پر جھوٹ بولے اور اس پر فخر بھی کرے! یہ تو آج کا انسان ہے جس نے ہر معاملے میں جھوٹ کو اپنے سر کا تاج بنا رکھا ہے۔ آن لائن کلچر کی مار ایسی پڑی ہے کہ بس میں ساتھ بیٹھے ہوئے شخص کی لڑھکتی ہوئی طبیعت دیکھ کر بھی اس کا حال پُوچھنے کی توفیق نہیں ہوتی! لوگوں کو صرف اس بات سے غرض ہے کہ فیس بک، ٹوئٹر یا کسی اور سوشل سائٹ پر جا کر پوری دنیا کو اپنی آج کی تمام ''مصروفیات‘‘ کے بارے میں اچھی طرح اپ ڈیٹ کر دیں! ایسا لگتا ہے کہ اگر اپنے بارے میں لمحہ لمحہ اپ ڈیٹ کرنے کا موقع نہ ملا تو دنیا والے بہت کچھ ایسا جاننے سے رہ جائیں گے جو ان کی زندگی میں انقلابی تبدیلیوں کا نقیب بن سکتا ہے!
ویسے تو خیر میڈیا کا انقلاب ہی کافی تھا۔ انٹرنیٹ اور سیٹلائٹ ٹی وی نے زندگی کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا تھا مگر سوشل نیٹ ورکنگ کی سائٹس نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے، جو ایک کیل رہ گئی تھی وہ بھرپور انہماک اور قوت سے ٹھونک دی ہے۔ اب ہر معقول انسان کے لیے کھلا چیلنج ہے کہ اگر سوشل میڈیا سے بچ کر زندگی بسر کر سکتا ہے تو ذرا ایسا کر کے دکھائے! ہم نے اچھے اچھوں کو اس دریا میں چند ڈبکیاں کھانے کے بعد غرق ہوتے دیکھا ہے۔ بہت سے تو ایسے ہیں جو اپنی پُرسکون زندگی کا بیڑا سوشل میڈیا کے سمندر میں غرق کرنے پر تُلے رہتے ہیں۔ انسان کے حصے کا وقت ویسے ہی کم ہے۔ ایسے میں وقت کو سوچ سمجھ کر یُوں گزارا جاتا ہے جیسے کوئی کمبل اتار پھینکنا ہو! سوچے سمجھے بغیر خود کو سوشل میڈیا کے حوالے کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی جُون جولائی کی گرمی میں چولھے پر پتیلی رکھے، اس میں پانی ڈالے اور پھر کھولتے ہوئے پانی میں برف کا ٹکڑا ڈال دے! گویا وقت ایسی نعمت کوئی نعمت نہیں بلکہ عذاب ہو کہ جلد از جلد جان چُھڑا لی جائے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں