"MIK" (space) message & send to 7575

فکشن رائٹر سے انٹرویو

ویسے تو خیر سے اب ہمارے معاشرے میں الگ سے فکشن لکھنے کی ضرورت باقی نہیں رہی کیونکہ مختلف شعبوں میں جو کچھ بھی کہا اور لکھا جارہا ہے وہ روایتی فکشن ہی کا کردار ادا کر رہا ہے‘ پھر بھی قیاس کے گھوڑے دوڑانے اور ان گھوڑوں کے دوڑائے جانے کے نتائج کو قلم بند کرکے باضابطہ مستند حیثیت دینے کے لیے فکشن رائٹرز اب تک موجود ہیں۔
ایک مشہور اور پیشہ ورانہ اعتبار سے کامیاب فکشن رائٹر سے ہماری ملاقات ہوئی تو ہم نے ان سے ان کے شعبے کے رجحانات کے بارے میں جاننے کی کوشش کی۔ پہلے تو وہ کھل کر کچھ کہنے سے گریز کرتے رہے۔ ہم چاہتے تھے کہ وہ اپنے شعبے کے بارے میں کچھ لب کشائی فرمائیں مگر وہ یوں دامن بچانے لگے جیسے ہم لب کشائی کے نام پر ''قبر کشائی‘‘ کی فرمائش کر بیٹھے ہوں! مگر جب ہم نے زیادہ زور دیا اور خاص طور پر آپ کو ثالث بنایا یعنی اپنے قارئین کی معلومات میں اضافے کا واسطہ دیا تو وہ لب کشا ہونے پر آمادہ ہوئے۔ ان سے گفتگو کا نچوڑ ہم یہاں پیش کر رہے ہیں تاکہ آپ بھی جان سکیں کہ فکشن آخر کس بلا کا نام ہے اور فکشن رائٹرز اس بلا کو کس طرح اپنی باندی بناکر رکھتے ہیں۔
.........
٭ آپ فکشن اس طرح لکھتے ہیں جیسے یہ کوئی کام ہی نہ ہو۔ ہر کام کے لیے محنت درکار ہوا کرتی ہے مگر آپ کا لکھا پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے جیسے آپ نے محنت کی ہی نہیں۔ آپ کی تحریریں قابل رشک حد تک effortless ہوتی ہیں۔ اس کا راز کیا ہے؟
فکشن رائٹر : کھل کر تو میں بتا نہیں سکتا کیونکہ یہ ٹریڈ سیکرٹ ہے!
٭ مگر پھر بھی معلوم تو ہونا چاہیے کہ آپ اور آپ کے قبیلے کے دیگر افراد ایسی روانی سے فکشن کیسے لکھ لیتے ہیں کہ فکشن پڑھنے والے اس میں گم ہوکر رہ جاتے ہیں۔ آخر اس کا بھید کیا ہے؟
فکشن رائٹر : راز واز کچھ نہیں ہے۔ فکشن لکھنے کا بنیادی اصول وہی ہے جو ہمارے اہلِ سیاست کا ہے۔ وہ لوگ جو منہ میں آئے، کہہ دیتے ہیں۔ ہم فکشن رائٹرز بھی جو ذہن میں آئے وہ قلم کے ذریعے کاغذ پر منتقل کردیتے ہیں۔
٭ سنا ہے فکشن رائٹرز جب ذہن کے گھوڑے دوڑانے پر مائل ہوتے ہیں تو ایسی باتیں بھی لکھ جاتے ہیں جن کا کوئی سَر ہوتا ہے نہ پیر۔ کائنات کے تمام بنیادی اصولوں کو بھی بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے؟
فکشن رائٹر : بات یہ ہے جناب کہ معاشرہ ہمیں متاثر کرتا ہے۔ جو کچھ معاشرے میں ہو رہا ہوتا ہے ہم وہی پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم ایسا کچھ بھی نہیں لکھتے جو کہیں پایا نہ جاتا ہو، ہوتا نہ ہو۔
٭ مگر فکشن پڑھ کر انسان کسی اور دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔ افسانہ یا ناول پڑھتے وقت محسوس ہی نہیں ہوتا کہ ہم اس دنیا میں ہیں۔ تحریر ہمیں کسی اور ہی دنیا کی سیر کرا رہی ہوتی ہے۔ یہ کیا کہانی ہے؟
فکشن رائٹر : آپ گویا یہ چاہتے ہیں کہ میں فکشن رائٹنگ کی دنیا کے تمام معاملات کھول کر آپ کے سامنے رکھ دوں! بھائی صاحب! آپ تو انٹرویو ضبطِ تحریر میں لاکر داد سمیٹ لیں گے‘ لیکن دوسری طرف میری برادری کے لوگ جب میرے لَتّے لیں گے تب آپ سمیت کون بچانے آئے گا؟
٭ فکشن رائٹرز کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ یہ ہر وقت خیالی دنیا میں رہتے ہیں؟
فکشن رائٹر : خیالی دنیا میں رہنا کچھ فکشن رائٹرز تک محدود نہیں۔ اب تو ہمارے معاشرے کا تقریباً ہر فرد اپنی خیالی دنیا میں آباد رہتا ہے۔ یہ عمل ایسا راس آیا ہے کہ اب اس کے رک جانے کے تصور ہی سے لوگ پریشان ہو اٹھتے ہیں۔ جب سبھی کو اپنی دنیا سے ہٹ کر کسی اور دنیا کی تلاش ہے تو ہم نے کیا بگاڑا ہے؟ ہم بھی تو وہی لکھیں گے جو لوگوں کو پسند ہے۔
٭ مگر آپ لوگوں پر یہ الزام بھی تو ہے کہ لوگوں کو خوش فہمی کی افیون چٹاتے رہتے ہیں۔ فکشن پڑھنے والے ایک ایسی خیالی دنیا میں آباد رہتے ہیں جس میں دُور تک کوئی غم نہیں ہوتا، کسی کو کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوتی؟
فکشن رائٹر : یہ بھی محض الزام ہے۔ آپ ہی بتائیے کہ ہمارے معاشرے میں ہر طرف خوش فہمی کا راج ہے یا نہیں۔ کیا لوگ حقیقت سے نظریں چراکر کسی خیالی دنیا میں آباد نہیں رہنا چاہتے؟ سبھی چاہتے ہیں کہ ان کے تمام مسائل حل ہوں۔ اب حقیقت کی دنیا میں تو کوئی ایک چھوٹا سا مسئلہ بھی حل ہونے کا نام نہیں لیتا۔ ایسے میں ہم اگر محنتِ شاقّہ سے کوئی خیالی دنیا بساکر لوگوں کو اس میں آباد کرتے ہیں تو کون سا گناہ یا جرم کرتے ہیں؟ حقیقی زندگی اس قدر تلخ ہے کہ لوگ فکشن کی دنیا میں گم رہنا پسند کرتے ہیں۔ ہم انہیں ایک ایسی دنیا میں لے جاتے ہیں جس میں تمام بنیادی سہولتیں آسانی سے میسر ہوتی ہیں، رہائشی سہولتیں بھی قابل رشک ہوتی ہیں، ہر طرف تعلیم، ترقی اور خوش حالی کا راج ہوتا ہے۔ کوئی پریشانی سے دوچار نہیں ہوتا اور کسی کے لیے زندگی وبال نہیں ہوتی۔
٭ مگر کتنی دیر؟
فکشن رائٹر : جتنی دیر لوگ اس خیالی دنیا میں رہنا چاہیں۔ بہرحال، ہماری بنائی ہوئی خیالی جنت میں لوگوں کو تمام سہولتیں اور آسائشیں آسانی سے میسر ہوتی ہیں۔ لوگ جتنی دیر اس خیالی جنت میں رہتے ہیں، حقیقی دنیا کا کوئی دکھ انہیں چُھو بھی نہیں سکتا۔ زندگی کی تمام تلخیاں سہم کر ایک طرف ہوجاتی ہیں۔
٭ مگر یہ تو لوگوں کو فرار پسندی سکھانے والا عمل ہوا؟
فکشن رائٹر : یہ تو آپ کی سوچ ہے۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ ہم دکھوں اور پریشانیوں کے خلاف جہاد کر رہے ہیں! کسی نہ کسی طرح لوگوں کو تھوڑی دیر کے لیے کسی الگ تھلگ اور پُرسکون دنیا میں پہنچانا ہمارے نزدیک بہت بڑی نیکی ہے۔
٭ آپ تو نیکی سمجھ کر خوش ہو رہے ہیں مگر لوگ تو خیالی جنت والا فکشن پڑھ کر بے عمل ہوتے جارہے ہیں؟
فکشن رائٹر : لوگ تو سیاست دانوں کی تقریریں سن کر بھی بے عملی کی طرف جاتے ہیں۔ سیاست دانوں کو تو کوئی نہیں لتاڑتا، سب لٹھ لے کر ہمارے پیچھے پڑجاتے ہیں۔ ہم جو کچھ لکھتے ہیں وہ کسی بھی طور ایسا نہیں کہ ہمیں شرم محسوس ہو۔ لوگ میڈیا پر ایک دوسرے کو گالیاں دے کر شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔ اور ہم اپنی تحریر سے لوگوں کے دکھ دُور کرنے پر شرمندہ ہوں؟ اچھی زبردستی ہے صاحب۔
٭ آپ فکشن کے ذریعے حقیقی زندگی کے مسائل حل کرنے کی تحریک بھی تو دے سکتے ہیں۔ ایسا کرنے میں کیا قباحت ہے؟
فکشن رائٹر : ہمیں کیا باؤلے کتے نے کاٹا ہے کہ اپنے پڑھنے والوں کو اسی دنیا میں لے جائیں جس سے وہ نکلنا چاہتے ہیں؟ ہم پروفیشنل رائٹر ہیں، سِکّہ بند ادیب نہیں کہ اپنی مرضی کے مطابق لکھ کر لوگوں کو پریشانی میں مبتلا کرتے رہیں! ہم وہی لکھتے ہیں جو لوگ پڑھنا چاہتے ہیں۔ یہ ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کا معاملہ ہے۔ پروفیشنل فکشن رائٹر ہمیشہ آرڈر پر مال تیار کرتا ہے۔ بات جب مارکیٹ کے اصول کی آجائے تو پھر وہی چیز سامنے لائی جائے گی جس کی ڈیمانڈ پائی جاتی ہو۔
٭ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ آپ خالص کاروباری انداز سے لکھتے ہیں۔ ایک ادیب کو ایسا تو نہیں ہونا چاہیے؟
فکشن رائٹر : یہ آپ کا وہم ہے کہ جو پروفیشنل فکشن رائٹر نہیں وہ ادب کی کوئی خدمت کر رہے ہیں۔ کام وہ بھی ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کے اصول کے تحت ہی کر رہے ہیں اور آرڈر ہی پر مال تیار کر رہے ہیں۔ نظریات کے نام پر متحرک ادیب بھی وہی لکھتے ہیں جو ان سے لکھوایا جاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ بدنامی صرف ہم جیسے خالص پروفیشنل لکھنے والوں کے حصے میں آتی ہے۔
٭ تو کیا یہ سمجھا جائے گا کہ آپ کبھی حقیقت پسندی کی طرف نہیں آئیں گے؟
فکشن رائٹر : جب حواس کام کرنا چھوڑ دیں گے اور مسترد کئے جانے کی خواہش ہمارے دلوں میں انگڑائیاں لینے لگے گی تو ہم ایسا بھی کر گزریں گے! فی الحال ہم ماحول کو دیکھ کر لکھ رہے ہیں۔ نام نہاد نظریاتی اور اصولی ادیبوں کی طرح زندگی بسر کرنے کو جی چاہے گا تو ہم بھی پروفیشنل اپروچ ترک کرتے ہوئے حقیقی دنیا کے مسائل ضبطِ تحریر میں لاکر اپنے لکھے ہوئے کی ضمانت ضبط کرانا شروع کردیں گے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں