چین کے ایک نوجوان نے ثابت کردیا ہے کہ جوانی واقعی دیوانی ہوتی ہے اور دیوانگی کسی بھی حد سے واقف ہوتی ہے نہ اُس کا احترام کرنے کی قائل۔ اِس نوجوان نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ سب ہماری طرح ڈرپوک نہیں ہوتے اور جوانی کے حسین زمانے سے بعد کی زندگی کے لیے حسین ترین یادیں کشید کرنے کے لیے وہی کچھ کر گزرتے ہیں جو دل میں آتی ہے۔ چین کے شہر چانگشا کے یووان کا فلسفہ شاید (بلکہ یقیناً) یہ رہا ہے کہ اگر ہوش باقی رہ جائیں تو جوانی کس کام کی۔
یووان نے ایسا کمال کر دکھایا ہے کہ ہم جیسوں کے لیے تو صرف شرمندہ ہونے کا آپشن رہ جاتا ہے۔ جوان تو کبھی ہم بھی تھے مگر یووان نے کچھ ایسا کیا ہے کہ اُس کے کارنامے کی تفصیل پڑھ کر ہم عجیب مخمصے کی حالت میں ہیں۔ کبھی (اپنے) گریبان میں جھانک کر دیکھتے ہیں اور کبھی آئینہ دیکھ کر اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے ہیں۔
بات یہ ہے کہ یووان کی ایک، دو یا تین چار نہیں بلکہ پوری 17 گرل فرینڈز تھیں! اب تو آپ کو یقین آگیا ہوگا کہ یووان نے ہمارے لیے صرف شرمندہ ہونے کا آپشن چھوڑا ہے! سچ کہیے گا، ایک لمحے کیلئے تو آپ بھی احساسِ کمتری کی لپیٹ میں آگئے تھے نا۔ آپ کو حیران یا خجل ہونے کی ضرورت نہیں۔ جس نے بھی یہ خبر پڑھی یا سُنی ہے اُس کا یہی حال ہے۔ سیدھی سی بات ہے۔ یہاں تو بھری جوانی گزر جاتی ہے اور کسی ایک دل میں بھی ڈھنگ سے آباد ہونا نصیب نہیں ہوتا اور دوسری طرف چین میں حال یہ ہے کہ یک نہ شد، سترہ شد!
ایک زمانہ تھا کہ ہم بھی زمانے کے چلن پر آمنّا و صدقنا کہتے ہوئے فطری اور قومی تقاضا سمجھ کر کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ تب یہ تصور ہی نہ تھا کہ کوئی پاکستانی جوان ہو اور کرکٹ میں دلچسپی نہ لے! خیر، اُس عہدِ زرّیں کی چند باتیں اب بھی حافظے کا حصہ ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ جب کسی کھلاڑی کا انفرادی اسکور 17 رنز ہوا کرتا تھا تب کہا جاتا تھا سترہ پہ خطرہ۔ اور لطف یہ ہے کہ بہت سے نوجوان ''نروس سیونٹین‘‘ کا شکار بھی ہوجایا کرتے تھے۔ یووان کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے۔ 17 کا عدد اُس کے لیے منحوس ثابت ہوا یعنی وکٹ گرگئی۔ اب پولیس ڈھیر ساری لڑکیوں کو دھوکا دینے کے الزام میں اُس کے خلاف ''تحقیقات‘‘ کر رہی ہے۔ مگر کیا پتا پولیس والے اُس سے اِتنی گرل فرینڈز رکھنے کا ہنر بھی سیکھنے کے خواہش مند ہوں! وہ لطیفہ تو آپ نے سنا ہوگا کہ ایک شخص پر بیوی کو ڈرا دھمکاکر رکھنے کا الزام تھا۔ عدالت میں اُس نے جب صفائی پیش کرنے کی کوشش کی تو جج نے کہا: ''صفائی پہ لعنت بھیج۔ طریقہ بتا، طریقہ!‘‘
یووان نے شاندار ہنر دکھایا مگر اِس ہنر کے کمال کو برقرار نہ رکھ پایا۔ رابطے کے فن میں وہ طاق تھا جبھی تو ایک دو نہیں پوری 17 لڑکیاں اُس کے من آنگن میں اُتر آئیں۔ مگر رابطوں کو ڈھنگ سے کنٹرول کرنا نہ آیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جب وہ بیمار پڑا تو سب کی سب عیادت کے لیے ہسپتال پہنچ گئیں اور بھانڈا پھوٹ گیا!
یووان کا پوٹلا کھلا تو مزید کمالات بھی سامنے آئے۔ اُس کا ایک بڑا کمال یہ تھا کہ وہ اپنی گرل فرینڈز سے پیسے اینٹھا کرتا تھا۔ یہ واقعی بڑی بات تھی۔
جن لڑکیوں کو یووان نے چُونا لگایا انہوں نے ایک آن لائن چیٹنگ گروپ بناکر اس سے انتقام لینے کا فیصلہ کیا۔ یووان کا معاملہ سوشل میڈیا کے افق پر طلوع ہوا تب ہنگامہ تو کیا کھڑا ہونا تھا، اُلٹا دھوم سی مچ گئی! چین کے لوگ عزم اور استقامت کے معاملے میں دنیا کے لیے مثال ہیں مگر یووان کی ''استقامت‘‘ خود چینیوں کے لیے مثال بن گئی! جب یووان کے ''کارنامے‘‘ سوشل میڈیا کے تھیلے سے باہر آئے تو ملا جُلا ردعمل دکھائی دیا۔ یووان ایک طرف تو تنقید اور طعن و تشنیع کے تیروں کا نشانہ بنا اور دوسری طرف کچھ لوگوں نے اُسے سراہا اور قابلِ رشک ''فن‘‘ کی داد دی!
بات تو ٹھیک ہے۔ یووان نے ''فن کاری‘‘ ہی تو دکھائی ہے۔ پوری 17 گرل فرینڈز کے جھرمٹ میں راجا اِندر بن کر رہنا کوئی معمولی بات ہے کیا! اور پھر ''راجا گیری‘‘ کے اخراجات بھی ''اِندر لوک‘‘ کی ''اپسراؤں‘‘ ہی سے وصول کرنا! اِسے تو ستم بالائے ستم کی طرز پر کمال علٰی کمال کہیے! ایسی ہوتی ہے فن کاری‘‘ یعنی ایسا فن جس کا وار کاری ہو! یہاں تو حال یہ ہے کہ ایک آدھ گرل فرینڈ بھی زندگی کا حصہ بن جائے تو بندے کی کمائی میں گھر والوں کا حصہ برائے نام رہ جاتا ہے! لوگ گرل فرینڈ پر مال لٹاتے ہیں اور خالی جیب گھر واپس جانے پر اہلِ خانہ سے جلی کٹی سن کر بھی ''بے مزا‘‘ نہیں ہوتے!
یووان نے 17 گرل فرینڈز رکھ کر جو ''فن‘‘ دکھایا وہ اپنی جگہ مگر قوم نے اِس بات پر بھی اسے داد دی ہے کہ جوانی دیوانی کے نشے میں دُھت ہوکر بھی سرکاری پالیسی نظر انداز نہیں کی۔ چین میں ایک بچے کی اجازت ہے اور یووان کا بھی ایک ہی بچہ ہے۔ ہاں، حکومت نے یہ لازم قرار نہیں دیا ہے کہ وہ ایک بچہ قانونی بیوی ہی سے ہو اِس لیے یووان اپنے بچے کی ماں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کسی اور گرل فرینڈ سے شادی کا منصوبہ بنا رہا تھا!
چین کی آبادی ایک ارب 36 کروڑ کے ''سنگِ میل‘‘ کو چُھو رہی ہے۔ یووان نے شاید یہ سوچا ہو کہ پاکستان جیسے پندرہ بیس کروڑ کی آبادی والے ممالک میں لوگ ایک آدھ گرل فرینڈ پر گزارا کرتے ہیں تو 136 کروڑ کی آبادی والے ملک میں گزارے کے لیے درجن ڈیڑھ درجن گرل فرینڈز تو ہونی ہی چاہئیں!
لطف کی بات یہ ہے کہ چین میں لڑکوں کی تعداد زیادہ ہے۔ ایسے میں شادی کے لیے لڑکی کا انتخاب ایک بڑا دردِ سر ہے۔ لڑکیوں کے نخرے ہی نہیں ملتے۔ ایسے میں یووان کی ''ہنر مندی‘‘ کی ایک بار پھر داد دینا ہی پڑے گی کہ لڑکیوں کی قِلّت والے معاشرے میں کہ جہاں لڑکے ''ایک ڈھونڈو، ہزار ملتے ہیں‘‘ والی کیفیت سے دوچار ہیں، اُس نے ڈیڑھ درجن لڑکیوں کو شیشے میں اتارا! یہ نوجوان ہمیں مزاجاً اچھا خاصا پاکستانی معلوم ہوتا ہے۔ ہمارے نوجوان بھی تو ایسے ہی ''کمالات‘‘ دکھاکر اہل خانہ کو حیران اور حلقۂ یاراں کو پریشان کیا کرتے ہیں! یعنی یہ کہ صنفِ نازک کو شیشے میں اتارنے اور اِس سے ایک قدم آگے جاکر چُونا لگانے کے معاملے میں پاکستان اور چین کے نوجوان ایک ہی پیج پر ہیں!
ہم نے جب یووان کے ''کار ہائِ نمایاں‘‘ کا ذکر مرزا تنقید بیگ کے سامنے کیا تو وہ (اپنے) کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے بولے: ''جذباتیت کی بھی کوئی نہ کوئی حد تو ہوتی ہے۔ اب ایسا بھی کیا جُنون کہ انسان کہیں کا نہ رہے۔ جون ایلیا نے خوب کہا ہے ؎
تیغ بازی کا شوق اپنی جگہ
آپ تو قتلِ عام کر رہے ہیں!
یووان میاں تو 'تیغ بازی‘ کے شوق کو پروان چڑھاتے چڑھاتے 'قتلِ عام‘ کی منزل تک پہنچ گئے! دل کی حالت خواہ کچھ ہو، جذبات کا دریا کیسا ہی تیز بہہ رہا ہو، انسان کو اپنی حدود کا خیال رکھنا ہی چاہیے۔ بصورتِ دیگر 'سترہ پہ خطرہ‘ والی بات سچ ثابت ہوکر رہتی ہے!‘‘
مرزا کی بات ہمارے دل کو لگی۔ جگرؔ مراد آبادی کے شاگردِ رشید حبابؔ ترمذی نے خوب کہا ہے ؎
حبابؔ ! ایسی بھی کیا بے اعتمادی؟
ڈبو دے گی ہمیں موجِ نَفس کیا!
جوانی کے تقاضے اپنی جگہ مگر زندگی صرف جوانی پر مبنی نہیں ہوتی! تیغ بازی کے شوق سے انکار نہیں مگر اس شوق کو قتلِ عام کی منزل تک پہنچنے سے روکنا بھی ایسا ہنر ہے جو نئی نسل کو پہلی فرصت میں سیکھنا چاہیے۔ یہ ہنر نہ سیکھا جائے تو ع
لو، آپ اپنے دام میں صَیّاد آگیا
والی کیفیت بھی نمودار ہوسکتی ہے یعنی 17 کے اسکور پر وکٹ اس طرح گرے گی کہ پھر بیٹنگ کے قابل ہونے میں زمانے لگ جائیں گے!