"MIK" (space) message & send to 7575

’’مجبوری‘‘

بعض احباب اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ عجیب و غریب خبریں پاکستان یا پھر اِس خطے ہی میں جنم لیتی ہیں۔ شرمندہ یا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ اور بھی بہت سے ممالک اور خطے ہیں جہاں سے حیران کن خبریں آتی رہتی ہیں۔ چین محض اچھا پڑوسی ہی نہیں بلکہ اب مزاجاً بھی ہم جیسا ہی ہوتا جارہا ہے کیونکہ چین سے بھی عجیب و غریب خبریں آرہی ہیں۔ بات کسی حد تک تشویش کی ہے۔ ہمیں ڈر ہے کہ کہیں چینیوں کے مزاج میں رونما ہونے والی تبدیلی کا الزام بھی ہم پاکستانیوں ہی پر نہ دَھر دیا جائے! اور یہ نہ کہا جائے کہ ع
خراب کر گئی شاہیں بچے کو صحبتِ زاغ!
خوش حالی ویسے تو فطری انداز سے آنے پر بھی انسان کو کہیں کا نہیں رہنے دیتی۔ اور اگر راتوں رات بہت کچھ مل جائے تو سمجھ لیجیے گئی بھینس پانی میں۔ دولت کا جادو سر چڑھ کر بولنا شروع کرتا ہے تو پہلے حواس مختل ہونے لگتے ہیں اور پھر دماغ بھی پاکستانی سا ہو جاتا ہے یعنی کام کرنے سے انکار کردیتا ہے! دولت کی فراوانی خیر ہمارے ہاں بھی بہت گل کھلاتی ہے مگر چین میں تو اِس کیفیت نے کمال ہی کر دکھایا ہے۔
چین کے صوبے گوانگ ژو کے چونگ شین کو غیر متوقع طور پر ترکے میں کروڑوں یوآن ملے۔ اُس کا تو سب کچھ بدل گیا۔ چونگ کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ قسمت یوں مہربان ہوگی۔ زر کی فراوانی ہوئی تو خوشیوں کی برسات ہونے لگی۔ سب کچھ اچھا لگنے لگا۔ چونگ کے دل و دماغ کی فضاء رنگ و نور سے بھرگئی۔ وہ خوشی سے پھولا نہ سمایا اور زندگی کے مزے لُوٹنے کے سفر پر نکل پڑا۔
مگر یہ کیا؟ کچھ ہی دن گزرے تھے کہ چونگ کو زندگی ادھوری سی لگنے لگی۔ جس دولت کو پاکر وہ اس قدر خوش تھا وہی دولت اُسے دولتّی رسید کرنے لگی! دولت خرچ کرکے بہترین اشیائے خور و نوش، اعلیٰ ترین ملبوسات اور بہترین طرز رہائش کا اہتمام کب تک؟ اور سیر سپاٹے بھی کتنے کئے جائیں؟ دولت لٹانے کا تماشا بھی چونگ کو چند ماہ بعد یکسر مصنوعی دکھائی دینے لگا۔ زندگی میں وحشت سی در آئی۔ لیل و نہار ویرانی کی نذر ہونے لگے۔ ہر طرف بیزاری سی نظر آنے لگی۔ اِس بیزاری نے چونگ کو شدید پریشانی سے دوچار کرنا شروع کیا۔ اوّل اوّل تو اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کرے۔ زندگی کے خاکے میں رنگ کیسے بھرے؟ چونگ نے زندگی میں یکسانیت ختم کرنے اور کچھ انوکھا کر دکھانے کے حوالے سے سوچنا شروع کیا۔
اب سوال یہ اٹھ کھڑا ہوا کہ ایسا کیا کیا جائے جس سے زندگی میں کچھ معنویت پیدا ہو، دل کے بہلنے کی کوئی صورت نکلے۔ چونگ کے لیے سب سے دشوار گزار مرحلہ وقت کاٹنے کا تھا۔ نوکری وہ کر نہیں سکتا تھا کیونکہ لوگ مذاق اڑاتے۔ اور پھر نوکری میں اسے ملنا بھی کیا تھا؟ چونگ نے مصروف رہنے کے لیے ''مجبور‘‘ ہوکر ایک مشغلہ اختیار کیا۔ اب چونکہ وہ کروڑ پتی تھا اس لیے مشغلہ شایان شان ہونا چاہیے تھا۔
چونگ چونکہ بیکار بیٹھے بیٹھے تنگ آچکا تھا اِس لیے اب وہ ''با کار‘‘ہوکر زندگی بسر کرنے لگا۔ اس نے جدید ماڈل کی مہنگی کاریں چُرانا شروع کیں! گھر میں پانچ عالی شان کاریں پہلے ہی موجود تھیں مگر جناب، شوق کی کوئی قیمت کہاں ہوا کرتی ہے! چونگ نے چند ماہ کے دوران پانچ شاندار اور مہنگی کاریں چُرائیں۔ چھٹی کار چُراتے ہوئے وہ پکڑا گیا اور پولیس نے اُسے چھٹی کا دودھ یاد دلادیا۔ جب پولیس نے چونگ سے ''خیر خیریت‘‘ پوچھی تو اُس نے انتہائی معصومیت کے ساتھ بتایا کہ وہ تو ''مجبوری‘‘ میں کاریں چُراتا تھا! وضاحت کی مد میں مزید بتایا کہ وقت کاٹے نہیں کٹتا تھا، سب کچھ تھم سا گیا تھا۔ وہ خوش حالی کے چند لمحات میں محبوس ہوکر رہ گیا تھا۔ خوش حالی نے اُس سے سب کچھ چھین لیا تھا۔ اس کی زندگی کا کوئی مقصد بچا تھا نہ کچھ معنویت ہی رہ گئی تھی۔
پولیس کو چونگ کی کہانی پر یقین نہ آیا۔
تفتیشی افسران سوچنے لگے کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی اچھا خاصا دولت مند شخص محض دل بہلانے اور خود کو مصروف رکھنے کے لیے شاندار گاڑیاں چُرائے! تنخواہ دار تفتیش کاروں کو کیا خبر کہ بھرپور کامیابی یا اچھی خاصی دولت پانے کے بعد انسان کتنا تنہا رہ جاتا ہے اور اُس کی زندگی میں کتنی بیزاری اور بے دِلی در آتی ہے!
ہمارے معاشرے کا بھی تو یہی مسئلہ ہے۔
بہت سے لوگ ہر اعتبار سے متموّل ہیں۔ مگر پھر بھی وہ زیادہ سے زیادہ مال بٹورنے کے چکر میں رہتے ہیں۔ اب پتا چلا کہ یہ ''مجبوری‘‘ کا سَودا ہے! اور جس کا سامنا چونگ جیسے لوگوں کو ہے ویسی ''مجبوری‘‘ تو انسان سے کچھ بھی کرالیتی ہے! ہم نے دیکھا ہے کہ لوگوں کو تو بس تنقید کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔ سیاق و سباق معلوم یا محسوس ہی نہ ہو تو تنقید زیادتی سے کم نہیں۔ ہم آپ ملازمت پیشہ لوگ ہیں۔ ہر ماہ جو تھوڑی بہت تنخواہ ملتی ہے اس سے ہم جہاں بھر کی خوشیاں خریدنے نکل پڑتے ہیں۔ ہمارا بس اتنا ہی فسانہ ہے۔ ہمیں کیا پتا کہ ''بے چارے‘‘ کروڑ پتی کیسی کیسی الجھنوں سے دوچار رہتے ہیں اور ان کی زندگی میں کیسا خلاء پایا جاتا ہے جسے پُر کرنے کی کوشش انہیں اوٹ پٹانگ حرکتیں کرنے پر ''مجبور‘‘ کرتی ہے!
ہمارے ہاں بہت سے جاگیرداروں کے پاس اچھی خاصی دولت ہوتی ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ دولت سے سب کچھ تو نہیں مل جاتا۔ زندگی کو کسی ''مقصد‘‘ اور ''معنویت‘‘ سے ہمکنار کرنے کے لیے یہ لوگ سیاست میں آتے ہیں اور عوام کے مال پر اُسی طرح ہاتھ صاف کرتے ہیں جس طرح چونگ دوسروں کی جدید، شاندار اور مہنگی گاڑیوں پر ہاتھ صاف کیا کرتا تھا! فرق اگر ہے تو صرف اتنا کہ چونگ جیسے شوقین اپنے گھامڑ پن کے باعث کبھی نہ کبھی پکڑے جاتے ہیں، جاگیردار پکڑے نہیں جاتے۔ وہ عوام کے مال پر ہاتھ صاف کرتے رہتے ہیں۔ اگر کوئی ان پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرے تو اُس کا پتہ صاف کردیا جاتا ہے!
اتنی سی کہانی ہے جس کا یاروں نے فسانہ بنا ڈالا ہے۔ اب تو آپ کی سمجھ میں اچھی طرح آگیا ہوگا کہ ہمارے ہاں بڑے گھروں کے بچے اوچھی سرگرمیوں میں کیوں ملوث پائے جاتے ہیں۔ اِن ''غریبوں‘‘ کا بھی تو یہی مسئلہ ہے۔ وقت کاٹے نہیں کٹتا، بیزاری ختم ہونے کا نام نہیں لیتی اور زندگی میں خلاء برقرار رہتا ہے۔ اِس خلاء کو پُر کرنے کے لیے بڑے گھروں کے بچے محض دل پشوری کی خاطر تھوڑا بہت ایسا ویسا کر گزرتے ہیں تو لوگ رائی کا پربت کھڑا کردیتے ہیں، بات کا بتنگڑ بنا ڈالتے ہیں! اپنے بہت سے مسائل اور مجبوریوں کا رونا روتے روتے ہم یہ بھول گئے ہیں کہ جن کی زندگی میں ہمارے جیسے مسائل نہیں ہوتے ان کی ''مجبوریاں‘‘ شدت اختیار کرتی جاتی ہیں!
ہمارے جدی پشتی سیاست دان بھی چونگ کی سی ذہنی کیفیت ہی سے دوچار ہیں۔ وہ بھی جب بیٹھے بیٹھے بیزار ہوجاتے ہیں تو ''مجبور‘‘ ہوکر قومی خزانے کو گاڑی سمجھ کر چُرانے لگتے ہیں! یہ بالکل طلب و رسد والا معاملہ ہے۔ زندگی جب خالی برتن جیسی ہوجائے تو اسے بھرنے کا سوچا جاتا ہے۔ جو اپنے بنیادی مسائل حل کرچکے ہیں وہ بیکاری کے ہاتھوں پیدا ہونے والا خلاء پُر کرنے کے لیے اوٹ پٹانگ حرکتوں پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ہمیں راہ دکھانے والے زندگی بھر ہماری خاطر پتا نہیں کیسی کیسی ''مجبوریوں‘‘ سے نبرد آزما رہتے ہیں اور اِدھر ہم عوام ہیں کہ اپنے رہبروں کی کوئی ''مجبوری‘‘ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اور موقع ملتے ہی اُنہیں آئینہ دکھانے لگتے ہیں! ہمیں اِس قدر ''سنگ دلی‘‘ اور ''سفّاکی‘‘ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے اور اپنے ساتھ ساتھ اپنے رہبروں کی ''مجبوریوں‘‘ کو بھی سمجھنا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں