"MIK" (space) message & send to 7575

اصلیت کا رنگ نہ چُھوٹے!

کون ہے جو اچھا دکھائی نہیں دینا چاہتا؟ اب آپ یہ مت کہیے گا کہ جس کا من صاف ہو وہ تو ہر حال میں اچھا دکھائی دیتا ہے۔ یہ ساری باتیں بہت اچھی ہیں مگر یہ سب کہنے کی باتیں ہیں۔ یہاں من میں جھانکنے کی فرصت کِسے ہے؟ جو کچھ دکھائی دیتا ہے اسی کی بنیاد پر اچھے برے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ دل مانتا ہو تو مانیے، نہ ماننا ہو تو آپ پر کوئی زور زبردستی نہیں۔ اگر دل کی خوبصورتی ہی کو سب کچھ مان لیجیے تو پورا ''بیوٹی کلچر‘‘ جھاگ کی طرح بیٹھ جائے، افزائش حُسن کے سامان کا دھندا چوپٹ ہوجائے۔ یہ سارا میلہ خوبصورت دکھائی دینے کے لیے ہی تو لگایا گیا ہے۔ 
ہم تو آج تک یہ سوچ کر مطمئن تھے کہ بیوٹی کلچر کی غلامی صرف خواتین کے حصے میں آئی ہے۔ وہ ہر وقت زیادہ سے زیادہ خوبصورت دکھائی دینے کے لیے بے تاب رہتی ہیں۔ اور اب تو معاملہ صرف چہرے تک نہیں محدود نہیں رہا۔ پورے وجود پُرکشش بنانے کی دوڑ سی لگی ہیں۔ مارکیٹنگ کے جدید اطوار نے خواتین کو اس معاملے میں بہت حد تک نفسیاتی پیچیدگیوں سے دوچار کردیا ہے۔ بیشتر لڑکیاں رات دن بیوٹی پروڈکٹس کے بارے میں سوچتی رہتی ہیں۔ پرس میں جو کچھ پایا جاتا ہے اس کا بڑا حصہ بیوٹی پروڈکٹس کی خریداری کے بہانے ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔ 
بیوٹی پروڈکٹس اور بیوٹی کلچر کے حوالے سے خواتین زیادہ شرمندہ نہ ہوں کہ اب بہت سے نوجوان بھی اس دوڑ میں شریک ہیں۔ سلو واکیہ کے ایک نوجوان نے دل کش دکھائی دینے کی دوڑ میں خواتین کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ جسٹن جیڈلیکا نے حسین و دل کش دکھائی دینے کے لیے ایسی جنونیت کا اظہار کیا ہے کہ خواتین بھی سُنیں گی تو انگلیاں دانتوں تلے داب کر سوچتی ہی رہ جائیں گی۔ جسٹن نے چہرے سمیت پورے جسم کو انتہائی دل کش بنانے کے لیے ایک دو یا تین چار نہیں بلکہ پورے 190 آپریشن کرائے ہیں! پہلے تو جسٹن نے چہرے کو تبدیل کرایا۔ اس نے پیشانی، رخسار، ناک، ہونٹ، ٹھوڑی اور گردن کو پلاسٹک سرجنز کے لیے کھیل کا میدان بنا ڈالا! نتیجہ یہ نکلا کہ وہ کچھ کا کچھ ہوگیا۔ ظاہرہے، ایسا تو ہونا ہی تھا۔ اس کا چہرہ اس قدر بدل گیا ہے کہ اب تو برسوں کے شناسا بھی غور سے دیکھنے پر اسے پہچان پاتے ہیں! اور کبھی کبھی تو خود جسٹن کو بھی حیرت ہوتی ہے کہ اس کا چہرہ کیا سے کیا ہوگیا ہے ؎ 
کیا کہوں، پہچاننا بھی خود کو مشکل ہوگیا 
جب نئی تصویر میری مجھ کو دِکھلائی گئی! 
جسٹن نے معاملات کو چہرے تک محدود نہیں رکھا بلکہ پورے جسم کو تبدیل کرنے کی ٹھان لی۔ پلاسٹک سرجنز کی مشاورت سے اس نے پورے جسم کو چھوٹے بڑے 190 آپریشنز کی سرنگ سے گزارا! اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جسٹن کا پورا جسم کہیں سے کچھ اور کہیں سے کچھ ہوگیا ہے۔ جو بھی اسے دیکھتا ہے، دیکھتا ہی رہ جاتا ہے۔
خواتین خود کو دل کش بنانے کے لیے بیوٹی پارلرز میں خاصے اذیت ناک مراحل سے گزرتی ہیں۔ مینی کیور، پیڈی کیور اور پتا نہیں کون کون سے کیور کے نام پر ان سے خطیر رقوم اینٹھی جاتی ہیں۔ کہیں وہ دھاگے سے چہرے کے فاضل بال اکھڑواتی دکھائی دیتی ہیں اور کہیں چہرے یا گردن کی جلد میں موجود مردہ خلیوں سے نجات پانے کے لیے جدید مشینوں کے تکلیف دہ پروسیجر کا سامنا کر رہی ہوتی ہیں۔ ہیئر اسٹائل تبدیل کرنے کے نام پر بھی خواتین خود کو تماشا بناتی پائی گئی ہیں مگر جسٹن نے تو ریکارڈ ہی قائم کر ڈالا۔ 190 آپریشن! ان آپریشنز پر اس نے ڈیڑھ لاکھ برطانوی پاؤنڈ یعنی کم و بیش 2 کروڑ 34 لاکھ روپے خرچ کئے! ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ بہت سی خواتین نے جب جسٹن کی طرف سے ''بیوٹی کیئر‘‘ پر اتنی خطیر رقم خرچ کئے جانے کا سُنا ہوگا تو حیران وہ پریشان، بلکہ سُنّ ہوگئی ہوں گی کہ اُس کا تو کوئی شوہر (!) نہیں پھر اُس نے بیوٹی کیئر کے بھاری بھرکم بل کیسے چُکائے ہوں گے! 
اور اس پر حیرت کیوں ہو؟ جب بھی کوئی اپنی اصل سے مطمئن نہیں ہوتا اور کسی نہ کسی طور اپنے مرکز سے دور ہونے کی کوشش کرتا ہے تو اس کا یہی حشر ہوتا ہے۔ جسٹن کا کیس انوکھا نہیں۔ بیوٹی کیئر کے نام پر ہم نے بہت سی خواتین کو بچا کھچا حُسن بھی ٹھکانے لگاتے دیکھا ہے۔ اور پھر الزام بیوٹی پروڈکٹس یا بیوٹی ایکسپرٹس پر منڈھ دیا جاتا ہے! 
ایسی خواتین کی کمی نہیں جو بیوٹی ایکسپرٹس کو جادوگر سمجھتی ہیں۔ وہ بیوٹی پارلر میں قدم رکھتے ہی فرمائش کر بیٹھتی ہیں کہ انہیں دنیا کی حسین ترین مخلوق میں تبدیل کردیا جائے! بیوٹی پارلر میں کام کرنے والیاں شدید الجھن سے دوچار ہوتی ہیں کہ کوئی کلی ہو تو کسی نہ کسی طور اسے کِھلنے پر مائل کرکے پھول میں تبدیل کریں۔ اب خزاں کے سُوکھے پتے میں بہار کا موسم کہاں سے پیدا کریں! 
جسٹن نے اپنے ساتھ جو کچھ کیا ہے وہ ہم پاکستانیوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ ہم نے بھی تو اپنے ساتھ وہی کچھ کیا ہے جو جسٹن نے اپنے ساتھ کیا ہے۔ قابل رشک زندگی بسر کرنے کے قابل ہونے کی خاطر ہم نے تقریباً ہر طریقہ آزماکر دیکھ لیا ہے اور آج تک مطمئن نہیں۔ اسلام کی شکل میں ہمیں ایک مضبوط بنیاد اور اصل ملی تھی مگر ہم نے قدر ہی نہ کی۔ اور اپنی ناقدری کی جو سزا ملا کرتی ہے وہ ہمیں ملی ہے۔ اب ہمارا کوئی نظریہ ہے نہ طریق عمل۔ تعلیم ہو یا تربیت، سیاست ہو یا معیشت، ہم نے ہر شعبے میں اتنے تجربات کئے ہیں کہ اب دنیا ہمیں دیکھ کر سیکھ رہی ہے کہ تجربے کرتے رہنے کا کتنا بھیانک نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے! گویا ہم دنیا سے کچھ سیکھ تو نہیں سکے، ہاں کچھ نہ کچھ سِکھا ضرور رہے ہیں! 
اگر اپنے آپ سے مطمئن نہ رہتے ہوئے ہر وقت کوئی نہ کوئی تجربہ ہی کیا جائے اور کسی نہ کسی طور مرکزِ نگاہ بننے کی کوشش کی جائے تو قدم قدم پر صرف دُکھ ملتے ہیں۔ یہی حال ہم جیسی اقوام کا بھی ہے جو زیادہ سے زیادہ انفرادیت یقینی بنانے کے لیے کچھ بھی کر گزرنے پر تُل جاتی ہیں اور پھر اس کا نتیجہ بھرپور ناکامی کی صورت میں بھگتتی ہیں۔ پلاسٹک سرجری سے چہرہ تھوڑا بہت تبدیل ضرور ہوسکتا ہے مگر حُسن و دل کشی تو اللہ کی دین ہے۔ اللہ چاہے تو دے، نہ چاہے تو نہ دے۔ یہ زبردستی کا سَودا نہیں۔ 
ہم نے ہر شعبے میں جو تجربے کئے ہیں وہ ہم سے اب ہوش مندی کا تقاضا کرتے ہیں۔ خود کو بدلنے کے لیے جسٹن نے 190 آپریشن کرائے۔ ہم بھی ایسا ہی کچھ کرچکے ہیں مگر اب تھمنے کا وقت آگیا ہے۔ کچھ رک کر ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہیے۔ دیکھنا چاہیے کہ محض تجربات کرتے رہنے سے کیا ہوتا ہے۔ جو تجربے ہم کرچکے ہیں وہ تو undone ہونے سے رہے۔ ایسے میں وہی کچھ کرنا چاہیے جو کیا جاسکتا ہے۔ یعنی یہ کہ جسٹن کی طرح دل کشی میں اضافے کی کوششوں سے اپنے وجود کو تماشا بنانے کے بجائے ہمیں اپنی اصلیت کا دامن تھامے رہنا چاہیے تاکہ ہم دنیا کے لیے عبرت کا سامان نہ بنیں۔ اپنی اصل کی طرف لَوٹ کر ہم کسی کے لیے تحریک کا ذریعہ بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔ سوال صرف قوتِ ارادی کو بروئے کار لانے کا ہے۔ اپنے وجود کو زیادہ سے زیادہ خوب صورت اور پُرکشش بنانے کا یہی سب سے حسین اور پُرکشش طریقہ ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں