"MIK" (space) message & send to 7575

کوئی ہمیں چٹ نہ کرجائے!

دنیا بھر میں خوراک کا مسئلہ انتہائی خطرناک شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ بعض ممالک نے تو بہت پہلے اس کا ادراک کرتے ہوئے حل تلاش کرنا بھی شروع کردیا تھا۔ چین اور مشرق بعید کے کئی دوسرے ممالک میں پالتو یعنی غیر جنگلی جانوروں کے ساتھ ساتھ بعض خوں خوار جانور اور حشرات الارض کھانے کا بھی رواج عام ہے۔ چین، جاپان اور خطے کے دیگر ممالک میں لال بیگ کھانا بھی عام بات ہے۔ تھائی لینڈ میں کتے، بلی اور دیگر ''غیر گھریلو‘‘ جانوروں کے ساتھ ساتھ لوگ بندر بھی بہت شوق سے کھاتے ہیں! مشرق بعید میں مینڈک اور سانپ کھانے والوں کی بھی کمی نہیں۔ مگر لال بیگ، جھینگر اور دیگر کیڑے مکوڑے کھانے کا رجحان زور پکڑ رہا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ کیڑے مکوڑوں کے ''گوشت‘‘ میں لحمیات کا تناسب زیادہ ہوتا ہے۔
چین کے شہر جینان میں ایک شخص نے غیر معمولی معاشی امکان کا اندازہ لگاتے ہوئے کیڑے مکوڑوں کی فارمنگ شروع کردی ہے۔ وینگ فیو منگ نے پہلے مرحلے میں لال بیگ پالنا شروع کیا ہے۔ اس کے فارم میں دس لاکھ سے زائد لال بیگ ہیں۔
ہمارے ہاں ایسی خبریں بہت حیرت سے پڑھی جاتی ہیں۔ لوگ سوچتے ہیں کہ آخر کیڑے مکوڑے کس طور کھائے جاسکتے ہیں۔ اور حرام (یعنی خوں خوار) جانوروں کا گوشت؟ بات اس حد تک تو ٹھیک ہے کہ ہمارے ہاں بہت کچھ ہے جو نہیں کھایا جاتا۔ مگر سوال بلا واسطہ کا نہیں، بالواسطہ کا ہے۔ جس طور حکومت بالواسطہ ٹیکس کے ذریعے ہماری جیب سے بہت کچھ نکلوا لیتی ہے بالکل اسی طرح ہمیں بہت کچھ بالواسطہ طور پر کھلایا جارہا ہے۔ ہماری اشیائے خور و نوش میں بہت کچھ ایسا ہے جو ناپسندیدہ ہے مگر ہمیں معلوم ہی نہیں کہ ہمیں کیا کھلایا جارہا ہے۔ ہم کسی چیز کے اجزائے ترکیبی میں حرام جانور کی چربی کے حوالے سے بات نہیں کر رہے۔ ہمارا اشارا تو اس بات کی طرف ہے کہ چینیوں سے ''اظہارِ یکجہتی‘‘ کی خاطر یعنی ان کے ساتھ ایک پیج پر آنے کے لیے ہم بھی کیڑے مکوڑے کھا رہے ہیں! ہاں، اتنا ضرور ہے کہ ہم کیڑے مکوڑے کھائیں تو چرچا نہیں ہوتا کیونکہ ایسی صورت میں ایمان خطرے میں پڑ جاتا ہے! اور یہ بات بھی ہے کہ ہمیں کیڑے مکوڑے علی الاعلان نہیں کھلائے جارہے۔ کھانا تیار کرنے کے بہت سے مقامات ایسے ہیں جنہیں دیکھتے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ شاید وہاں کام کرنے والوں نے صفائی اور نفاست کو حفظان صحت کے اصولوں کے خلاف کوئی بات سمجھ رکھا ہے! بہت سے آئٹمز میں کیڑے مکوڑے بھی اجزائے ترکیبی کی صف میں جگہ بنالیتے ہیں!
وینگ فیو منگ نے لال بیگ کی فارمنگ شروع کرکے ایک منافع بخش کاروبار کی بنیاد ڈالی ہے۔ ہم اب تک شش و پنج کی منزل میں ہیں۔ ہمارے ہاں کھانے پینے کی اشیاء میں پتا نہیں کیا کیا ڈالا جارہا ہے مگر اتنی اخلاقی جرأت کسی میں نہیں کہ جو کچھ کیا جارہا ہے اس کا اعتراف کرلیا جائے۔ میڈیا میں کئی بار آچکا ہے کہ بہت سے شہروں میں گدھے کا گوشت بھی سپلائی کیا جارہا ہے۔ کسی زمانے میں ایسی ہی خبریں کتوں کے حوالے سے آتی تھیں۔
ہم نے مرزا تنقید بیگ سے جب گدھے کے گوشت کی فروخت کا ذکر کیا تو کہنے لگے : ''لوگوں کو شرمسار یا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستانیوں کو گدھے کا گوشت نہیں کھلایا جارہا۔‘‘
ہم نے حیران ہوکر پوچھا کہ یہ بات اِتنے وثوق سے کیسے کہی جاسکتی ہے۔ مرزا نے جھٹ سے جواب دیا : ''ارے بھئی، سیدھی سی بات ہے۔ ہر جانور کی چند خصوصیات ہیں اور جو لوگ ان جانوروں کا گوشت کھاتے ہیں ان میں وہ خصوصیات دکھائی دینے لگتی ہیں۔ ہم ایک زمانے سے بکرے کا گوشت کھا رہے ہیں۔ نتیجہ دیکھ لو کہ ہم ہر معاملے میں قربانی کے بکرے بن کر رہ گئے ہیں! چکن کھانے کے شوق نے ہمیں چکن یعنی ڈرپوک بناکر دم لیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہم بھی جُثّے میں خاصے بڑے ہوتے ہوئے بھی ذرا سے رہ گئے ہیں۔ کم ہی لوگ سوچتے ہیں کہ محض ایک ماہ میں جسے جدید ٹیکنالوجی سے تیار کردہ فیڈ کے ذریعے پھلاکر مرغی کی شکل میں ہمارے سامنے لایا جاتا ہے وہ دراصل چوزہ ہی ہوتا ہے! ایسے میں آج اگر پوری قوم بیشتر معاملات میں بلا سبب چُوں چُوں کرتی پھر رہی ہے تو حیرت کیوں ہو؟ قوم ایک طویل مدت سے بھینس کا دودھ پی رہی ہے۔ نتیجہ؟ اب اور کیا نتیجہ نکلے گا کہ زندگی بھینس کی طرح جگالی کرتے گزر رہی ہے!‘‘
مرزا نے توقف اختیار کیا تو ہم نے پوچھا گدھے کا ذکر تو رہ گیا۔ انہوں نے چند مخصوص الفاظ کی مدد سے ہماری بے صبری کو ''خراج تحسین‘‘ کرتے ہوئے کہا : ''اگر یہاں گدھے کا گوشت فروخت ہو رہا ہوتا اور تم بھی وہ گوشت کھا رہے ہوتے تو آج تم میں یہ بے صبری نہ ہوتی۔ گدھا محنت کا عادی ہے۔ تم میں محنت سے جی چرانے کی عادت ہے۔ پھر ثابت ہوا کہ تم نے گدھے کا گوشت نہیں کھایا۔ اگر یہ قوم گدھے کا گوشت کھا رہی ہوتی تو آج کام کر رہی ہوتی اور وہ بھی سَر جھکاکر ... جیسے گدھے کرتے ہیں!‘‘
مرزا کی بات ہمارے دل کو لگی۔ ہم بات بات پر ایک دوسرے کو گدھا قرار دیتے نہیں تھکتے مگر سچ تو یہ ہے کہ گدھوں کا کوئی ایک وصف بھی ہم میں نہیں پایا جاتا۔ وہ بے چارا جوڑ جوڑ دُکھا دینے والی محنت سے مُزیّن زندگی بسر کرتا ہے اور ہم ہیں کہ ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کو گدھا قرار دے کر بے زبانوں کا تمسخر اڑانے پر تُلے رہتے ہیں!
بہت سے معاملات میں ہم نے ایسے شاندار گدھے پن کا ثبوت دیا ہے کہ گدھے بھی دیکھیں تو شرما جائیں۔ پرائی آگ میں کودنے کے شوق ہی کو لیجیے۔ گدھے لاکھ بے عقل سہی، اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ حقیقی پاکستانی گدھے پاکستان کی حدود میں رہتے ہوئے سوچتے ہیں! یہی عقل اور مصلحت کے مطابق ہے۔ مگر یہ بات اُن ... کی سمجھ میں بھی تو آنی چاہیے جو ہمارے سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔
بات کیڑے مکوڑے کھانے سے شروع ہوئی تھی۔ جو کیڑے مکوڑے کھاتے آئے ہیں وہ تو ترقی کے بام عروج پر جا پہنچے ہیں اور اِدھر ہم ہیں کہ حلال و طیّب گوشت کھاکر بھی بے عملی کے اسیر ہیں۔ اور اس پر خوش بھی!
سوال یہ نہیں ہے کہ ہم کیا کھا رہے ہیں۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ جو کچھ کھا رہے ہیں اس کا حق بھی ادا کر رہے ہیں یا نہیں۔ جانور اپنے گلے پر چُھر پِھرواکر ہماری پیٹ کی آگ بجھانے کا سامان کرتے ہیں۔ ہم پیٹ بھرنے کے بعد ڈکار لے کر اپنی راہ لیتے ہیں۔ جس طور ہمارا پیٹ بھرنے کے لیے جانور قربان ہوجاتے ہیں بالکل اُسی طرح ہمیں بھی تو اپنا آپ اس دنیا کو بہتر بنانے، کسی کے کام آنے کے لیے صرف کرنا چاہیے۔
ابھی ہم یہیں تک سوچ پائے تھے کہ مرزا کی زوردار ہنکار نے ہمیں دوبارہ حقیقت کی دنیا میں لا کھڑا کیا۔ مرزا کہنے لگے : ''میاں! کس دنیا میں رہتے ہو؟ اب تک یہی سوچ رہے ہو کہ کیا کھائیں اور کیا نہ کھائیں۔ ٹھیک ہے، حرام و حلال کا خیال رکھنا لازم ہے مگر یہ تو دیکھو کہ جو کھانے پینے کے معاملات میں حرام و حلال کے تصور سے نا آشنا ہیں وہ ستاروں پر کمندیں ڈال رہے ہیں۔ اور ہم ہیں کہ بیرونی قوتوں کو خوش رکھنے کے نام پر ہر اس حلال جانور کی طرح کٹ مرنے کو تیار ہیں جس کا گوشت ہم شوق سے کھاتے ہیں! ایسے میں وہ اچھے رہے جو کیڑے مکوڑے کھاکر بھی دنیا کے لیے عمل اور ترقی کا نمونہ تو ہیں!‘‘
مرزا کی بات کا مفہوم یقیناً یہ نہیں کہ ہم بھی حرام و حلال کی تمیز کا شعور کھو بیٹھیں اور کیڑے مکوڑے بھی چٹ کرجائیں مگر ہاں، ہمیں اتنا ضرور سوچنا چاہیے کہ فکر و عمل کے اعتبار سے ہمیں کیڑوں مکوڑوں جیسا نہیں ہونا چاہیے ورنہ کوئی بھی آسانی سے چٹ کرجائے گا!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں