"MIK" (space) message & send to 7575

اور اب … ’’دہشت گرمی‘‘

ایک زمانے سے سنتے آئے تھے کہ مرے کو مارے شاہ مدار۔ اب کے رمضان المبارک کے اوائل ہی سے دیکھ بھی لیا کہ شاہ مدار مرے کو کس طور مارتا ہے۔
کراچی میں اب کے ہر طرف گرمی ہی گرمی ہے۔ پہلے تو ٹارگٹڈ آپریشن کی صورت جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں کے لیے عذاب والی کیفیت پیدا ہوئی۔ اور صد شکر کہ یہ کیفیت برقرار ہے!
سیاسی ماحول میں شاہ سائیں یعنی سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کے مزاج کی برکت سے ہر طرف سے سکون ہی سکون تھا اور سب کچھ ''ٹھنڈا ٹھار‘‘ چل رہا تھا۔ ایسے میں رینجرز، ایف آئی اے اور نیب نے کچھ ہلچل پیدا کی۔ تینوں اداروں کی مربوط کارروائیوں سے بہت سوں کی راتوں کی نیند حرام ہوئی اور ان کے سَروں پر ممکنہ احتساب کا سُورج ''سایا فگن‘‘ دکھائی دینے لگا! چند بڑوں کے فرنٹ مین جس تیزی سے قانون کے شکنجے میں آتے جارہے ہیں اُس کی روشنی میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بڑے مگرمچھوں کو اپنے مستقبل کی کس قدر فکر لاحق ہوگی۔ پیپلز پارٹی اور متحدہ دونوں ہی کے لیے مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ان دونوں جماعتوں کو اس طور گھیرے میں لینے کا فیصلہ کرلیا ہے کہ کسی بھی حکومت مخالف تحریک میں کوئی حکومت نواز کردار ادا کرنے کے قابل نہ رہیں! متحدہ قومی موومنٹ کے مرکز نائن زیرو پر چھاپے کے بعد سے پارٹی قدرے خاموش ہے اور سندھ حکومت کی چند بڑی شخصیات کے خلاف ممکنہ کارروائی نے پیپلز پارٹی کے ہونٹوں پر بھی چُپ کی مہر لگادی ہے۔
اور اب رہی سہی کسر شدید گرمی کی لہر نے پوری کردی۔ ملک بھر میں گرمی پڑ رہی ہے مگر کراچی میں تو اب کے کچھ اور ہی ہوا ہے۔ کسی کے وہم و گمان اور خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ گرمی یوں پڑے گی اور ایسا پگھلائے گی کہ دماغ کام کرنے سے انکار کردیں گے۔ رمضان المبارک کے ابتدائی چار ایام تو ایسے گزرے جیسے کچھ بھی نہ رہے گا، کچھ بھی نہ بچے گا۔ بجلی و پانی کے بحران سے دوچار شہر قائد کے لیے شدید گرمی کی لہر قیامت سے کم نہ تھی۔ ان چار دنوں میں شدید گرمی کی زد میں براہ راست آنے یا حبس کے باعث دم گھٹنے سے دم توڑنے والوں کی تعداد 1000 سے زیادہ ہوچکی ہے۔ بہت سی ہلاکتیں اس لیے بھی ہوئیں کہ متعلقین نے کماحقہ احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کی تھیں۔ بہت سے مکانات میں ہوا کے گزرنے کی گنجائش برائے نام چھوڑی گئی تھی۔
اب تک تو ہم دہشت گردی کو روتے آئے تھے۔ کون جانتا تھا کہ موسم بھی نظریں پھیر لے گا اور ہمیں ''دہشت گرمی‘‘ کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ گرمی نے بھی وہی کیفیت پیدا کی جو دہشت گردوں کی سَفّاکی سے پیدا ہوجایا کرتی ہے۔ ایک ہفتے کے دوران کراچی میں لوگوں کا عجیب حال رہا ہے۔ کسی کو معمولی سی قے بھی ہو تو اُس کے ذہن میں طرح طرح کے وسوسے اٹھنے لگتے ہیں۔ کسی کا سَر ذرا سا چکرائے تو لگتا ہے موت جُھولا جُھلانے پر مائل ہو رہی ہے! موسم میں پیدا ہونے والی شدّت کے بارے میں ماہرین نے بھی کم کم ہی آگاہ کیا تھا اس لیے لوگ ایسی بہت سی احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرپائے جو وہ آسانی سے اختیار کرسکتے تھے۔
1980 ء کے عشرے تک کراچی میں شدید گرمی پڑا کرتی تھی۔ اور بعد میں بھی شدید گرمی کی لہر آتی رہی ہے مگر اب یہ سب کچھ اس لیے جان لیوا ثابت ہو رہا ہے کہ لاکھوں افراد کی طرز رہائش تبدیل ہوچکی ہے۔ شہر کے بیشتر علاقوں کا حلیہ بالکل تبدیل ہوچکا ہے اور وہ انتہائی گنجان آباد ہوچکے ہیں۔ بعض پرانے علاقوں میں تو مکانات کی تعمیر (اور ان میں تقسیم در تقسیم) ایسی ہے کہ عام حالت میں بھی شدید حبس رہتا ہے اور بہت سوں کے لیے سانس لینا انتہائی دشوار ہو جاتا ہے۔ ایسے میں اب شدید گرمی پڑے اور ہوا تقریباً بند ہی ہوجائے تو سمجھ لیجیے قیامت کی گھڑی آن پہنچی۔ نیو کراچی، رنچھوڑ لائن، پاک کالونی، حسرت موہانی کالونی، موسٰی کالونی، ریکسر لائن، گارڈن، اندرون لیاری، کھارادر، میٹھادر، دریا آباد، ناظم آباد، پاپوش نگر، لیاقت آباد، ایف سی ایریا، لالو کھیت ڈاک خانہ سندھی ہوٹل، پٹیل پاڑا، جمشید روڈ، لسبیلہ اور دوسرے بہت سے علاقے اس قدر گنجان آباد ہیں کہ ان کے بیشتر مکین زیادہ وقت گھر سے باہر گزارتے ہیں۔ بہت سے علاقوں میں آبادی کے شدید دباؤ اور تجاوزات کا رجحان قوی ہونے کے باعث گلیوں کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ بیشتر مکانات میں سورج کی روشنی پہنچ پاتی ہے نہ ہوا۔ لاہور میں اندرون شہر کے چند علاقوں کی جو حالت ہے وہی کراچی کے ان گنجان آباد علاقوں کی ہے۔
بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے بھی معاملے کو بگاڑا مگر سچ یہ ہے کہ شدید گرمی کی لہر کو جان لیوا بنانے میں مرکزی کردار شہریوں کی لاپروائی اور
لا ابالی پن نے ادا کیا ہے۔ شدید گرمی ہو یا شدید سردی، کراچی کے مکین موسم کی مطابقت سے کوئی ایسا اہتمام نہیں کرتے جو انہیں بیماریوں یا کسی اور ناگہانی کیفیت سے محفوظ رکھے۔ اور پھر اس کا نتیجہ بھی بھگتتے ہیں۔ اعداد و شمار سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ بہت سے معاملات میں معمر افراد حبس کے باعث جاں بہ لب ہوئے اور جب انہیں طبی امداد پہنچانے کا اہتمام کیا گیا تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔
بات بہت عجیب سی لگتی ہے کہ کوئی گرمی کی لپیٹ یا حبس کی زد میں آکر دم توڑ دے۔ مگر جس شہر کی فضاء میں 25 لاکھ گاڑیوں کا دھواں بسا ہوا ہو، مکانات کی تعمیر تسلیم شدہ اصولوں کے مطابق نہ ہوئی ہو اور مکانات میں ہوا کے گزرنے کی گنجائش ہی نہ چھوڑی گئی ہو وہاں لوگ حبس کے مارے جاں سے نہ جائیں تو اور کیا ہو؟
آپ نے بھی سنا تو ہوگا کہ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے سو جھوٹ بولنا پڑتے ہیں۔ کچھ کچھ ایسی ہی کیفیت اس وقت بھی پیدا ہوتی ہے جب کمزوریاں مزید کمزوریوں کو جنم دیتی جاتی ہیں۔ کسی ایک بڑے معاملے میں حکومت یا ریاستی مشینری کی ناکامی سے خرابیاں پیدا ہوتی اور پنپتی جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں یہی تو ہوا ہے۔ ایک بحران دوسرے کو اور دوسرا تیسرے کو جنم دیتا ہے۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے برف سے ڈھکے ہوئے علاقے میں کسی ڈھلوان سطح پر برف کا چھوٹا سا گولا لڑھکائیے اور وہ لڑھکتے لڑھکتے بڑا ہوتا جائے اور بالآخر چھوٹے موٹے کمرے جتنے حجم کا ہوکر کہیں تباہی مچادے!
ملک کے کسی بھی حصے میں ریاستی اور انتظامی مشینری کی ناکامی سے کوئی سبق نہیں سیکھا جاتا۔ معاملات کو درست کرنے کے بارے میں سوچنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی جاتی۔ کراچی میں بھی یہی کچھ ہوتا رہا ہے اور ہو رہا ہے۔ ملک بھر کی طرح شہر قائد کے مکینوں کو بھی بنیادی سہولتوں کے معاملے میں ترساکر، پریشانی سے دوچار کرکے وفاقی، صوبائی اور مقامی انتظامی مشینری سمجھتی ہے کہ کوئی بہت بڑا تیر مار لیا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام کو کنٹرول کرنے کی یہ کوشش انہیں مزید بے قابو کردے۔ کوئی بھی قدرتی آفت اگر خود نازل ہو تو دل کو صبر آجاتا ہے لیکن اگر کسی صورت حال کو اس طور بگڑنے دینا کہ وہ قدرتی آفت میں تبدیل ہوجائے یقیناً اللہ کے غیظ و غضب کو ''دعوت‘‘ دینے کے مترادف ہے۔
دہشت گردی بھی راتوں رات نہیں پنپ گئی تھی۔ قتل و غارت کے واقعات کو برداشت کیا جاتا رہا، دوسروں کی چھوٹی موٹی لڑائیوں کے لیے اپنی سرزمین فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ یہ سب کچھ ہمیں بھرپور تباہی کی طرف لے جانے کے لیے کافی تھا اور ہم تباہی سے دوچار بھی ہوئے۔ یہی حال قدرتی آفات کا ہے۔ ایک زمانے سے ہم موسم کی سختیاں جھیلتے آئے ہیں۔ مگر بے انتظامی کا عالم یہ ہے کہ اب شدید گرمی کی ایک بھرپور لہر ''دہشت گرمی‘‘ بن کر ہم پر قہر ڈھانے لگتی ہے! موسم کی سختی وبائی امراض کو بھی جنم دیتی ہے مگر اب تو شاید ہم وبائی امراض کا انتظار کرنے کے بھی قائل نہیں رہے!
ہر سطح کی حکومت کے ساتھ ساتھ یہ صورت حال ان کے لیے لمحہ فکریہ ہے جو در پردہ سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔ اب کیا موسم کی ایک کروٹ بھی ہمارے لیے قومی بحران میں تبدیل ہوجایا کرے گی؟ ایسا ہونا تو نہیں چاہیے مگر کیا کیجیے کہ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ اور انتہائے افسوس یہ ہے کہ ع
شرم ہم کو مگر نہیں آتی!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں