"MIK" (space) message & send to 7575

جی ہی لیتے ہیں لوگ

جو پیدا ہوا ہے، سانس لے رہا ہے اُسے کسی نہ کسی طور مرتے دم تک اِس دنیا میں تو رہنا ہی ہے۔ یہ ہے تو مجبوری کا سودا‘ مگر اس مجبوری میں ان کے لیے لذت بھی ہے جو بھرپور لذت حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ 
ہر انسان بہتر رہائش کے لیے کوشاں رہتا ہے مگر سب کے نصیب میں رہائشی سکون نہیں لکھا ہوتا۔ بہت سوں کو، بلکہ بیشتر کو کسی نہ کسی حد تک کمپرومائز ہی کرنا پڑتا ہے۔ اور کمپرومائز بھی ایسا کہ جو دیکھے، دل تھام کر رہ جائے۔ 
پاکستان میں رہائش کا عمومی معیار خاصا پست ہے۔ لوگ کسی نہ کسی طرح ایڈجسٹ کر کے گزارا کرتے ہیں۔ شہروں میں مکانات بہت مہنگے ہیں اور، ظاہر ہے، کرائے بھی بہت زیادہ ہیں۔ ایسے میں معمولی سی تنخواہ یا قلیل سی یومیہ اجرت والا شخص کیا جیے گا۔ مگر پھر بھی لوگ کسی نہ کسی طور جی رہے ہیں۔ آپ نے سُنا تو ہو گا کہ دل میں جگہ ہونی چاہیے۔ مجبوری کے پنجرے میں مقید انسان اِسی طور ایک دوسرے کے لیے گنجائش پیدا کیا کرتے ہیں۔ 
دنیا بھر میں لوگ کس طور جی رہے ہیں‘ یعنی رہائش کے طریقے کیا ہیں یہ جان پر آپ حیران اور افسردہ رہ جائیں گے۔ اپنی پریشانیوں کو غیر معمولی گردانتے ہوئے رات دن مزید پریشان رہنے والے اگر دوسروں کے دُکھوں پر نظر دوڑاتے رہیں تو اپنے سارے غم بھول جائیں اور رب کا شکر ادا کیا کریں کہ اُن کے حالات بہت اچھے ہیں۔ 
ہانگ کانگ کا شمار دنیا کے مہنگے ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ یہ شہر اپنے ہائی فائی لائف سٹائل کے لیے خاص شہرت رکھتا ہے‘ مگر یہ تصویر کا صرف ایک رُخ ہے۔ دوسرا، تاریک رُخ یہ ہے کہ ہانگ کانگ ہی میں لاکھوں غربا انتہائی پست معیار کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ شہر بہت مہنگا ہے‘ اتنا مہنگا کہ مکانات کی قیمت سن کر دل میں ہول اٹھتا ہے۔ ایسے میں کوئی بھی غریب مکان خریدنے کا تو کیا، کرائے پر لینے کا بھی نہیں سوچ سکتا۔ سوال یہ ہے کہ ایسے میں زندگی کس طور بسر کی جاتی ہے؟ 
ہانگ کانگ کے غربا پنجروں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ جی ہاں، پنجروں میں۔ شہر کی بہت سے انتہائی بوسیدہ، کھنڈر نما عمارتوں میں اب ہر طرف پنجرے ہی پنجرے دکھائی دیتے ہیں۔ ان عمارتوں میں پایا جانے والا لوہے کا ہر پنجرہ حجم میں پان سگریٹ کے کیبن جتنا ہوتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہ پنجرے ایک فرد کو سمونے کے لیے مستطیل یا لمبوترے رکھے جاتے ہیں۔ ایک بڑے اپارٹمنٹ میں 50 سے زائد پنجرے بھی پائے گئے ہیں! بس یہی گنجائش ہے، رہنا ہے تو اسی میں رہ لیجیے‘ ورنہ کوئی اور راستہ تلاش کر لیجیے۔ اور لوگ رہتے ہیں۔ نہ رہنے کا سوال ہی نہیں۔ بہتر زندگی کے حصول کے لیے اور دور افتادہ علاقوں میں اپنے اہل خانہ کو زندہ رکھنے کے وسائل مہیا کرنے کی خاطر‘ انہیں یہ کڑوا گھونٹ پینا پڑتا ہے۔ نہ پئیں تو کیا کریں؟ زندگی کا یہ بھیانک پہلو ایسا ہے کہ ہم آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں تو زندگی کے اُس معیار پر اللہ کا شکر ادا کریں جو ہمیں میسر ہے۔ بے شک، ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے۔ 
ایک ہانگ کانگ پر کیا موقوف ہے، مشرق بعید کے دوسرے بہت سے حصوں میں بھی لوگ ایسی ہی زندگی کو گلے لگانے پر مجبور ہیں۔ حالات انسان کو سب کچھ سہنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ فلپائن، کمبوڈیا، ویت نام اور مشرق وسطیٰ کے دوسرے کئی ممالک کی حالت کسی بھی طور ایسی نہیں کہ اطمینان بخش قرار دی جا سکے۔ ایک طرف ان ممالک کو چین، ملائشیا، انڈونیشیا اور دیگر بڑے ممالک کے زیر سایہ رہنا پڑتا ہے اور دوسری طرف ان کی اپنی معاشی حالت ایسی نہیں کہ عوام کو بلند معیار زندگی نصیب ہو۔ 
ہم اپنے خطے کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ متحدہ عرب امارات جیسے ترقی یافتہ ماحول میں بھی پاکستان، بھارت، سری لنکا، بنگلہ دیش، میانمار، تھائی لینڈ، فلپائن، چین اور دوسرے بہت سے ممالک کے محنت کش اِسی طور رہتے ہیں۔ دبئی اور شارجہ میں بھارتی ریاستوں کیرالا، بہار، آندھرا پردیش، مہاراشٹر، اُتر پردیش وغیرہ سے سے تعلق رکھنے والے محنت کش ایسے پست اور گھٹن زدہ ماحول میں رہنے پر مجبور ہیں کہ اُنہیں دیکھ کر الجھن محسوس ہوتی ہے۔ ایک بڑے کمرے میں کیرالا کے بیس تا پچیس باشندے سکونت پذیر پائے گئے ہیں! 80 گز کے اپارٹمنٹ میں چالیس تا پچاس افراد کسی نہ کسی طور رہ لیتے ہیں۔ ان تمام افراد کے لیے زیادہ سے زیادہ تین ٹوائلٹ دستیاب ہوتے ہیں۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ جو کچھ بسر کر رہے ہیں اُسے کس حد تک زندگی قرار دیا جا سکتا ہے! 
افریقہ کے پس ماندہ ممالک کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ وہاں بھی شہروں میں رہائش بہت مہنگی ہے۔ لوگ خاصے غیر انسانی ماحول میں دن کو رات اور رات کو دن کرنے پر مجبور ہیں۔ 
اور دور کیوں جائیے، ہمارے پڑوس میں بھارت واقع ہوا ہے۔ صرف بھارت میں اِتنے غریب ہیں کہ پورے افریقہ میں نہ ہوں گے! بھارت کے معیشت دان بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے کہ جس ترقی کا اِس قدر ڈھول پیٹا جاتا ہے اُس کے ثمرات عام آدمی تک برائے نام بھی نہیں پہنچتے۔ بھارت میں اعلیٰ طبقہ آبادی کا ایک فیصد بھی نہ ہو گا۔ اور متوسط طبقہ آبادی کے تقریباً دس تا پندرہ فیصد ہے۔ ایسے میں بلا خوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ معیار سے نیچے زندگی بسر کرنے والے بھارتی باشندوں کی تعداد 85 تا 90 کروڑ ہے۔ ممبئی، دہلی، مدراس، کولکتہ، بنگلور، حیدر آباد، احمد آباد اور دیگر بڑے بھارتی شہروں میں لوگ کس طور رہتے ہیں‘ یہ کوئی ڈھکی چُھپی حقیقت نہیں۔ ممبئی، دہلی اور کولکتہ جیسے شہروں میں نصف سے زائد باشندے انتہائی پست سطح پر جی رہے ہیں۔ ممبئی میں چال سسٹم ہے‘ جہاں ایک کمرے کا اپارٹمنٹ بھی آسانی سے میسر نہیں ہو پاتا۔ ذرا سے اپارٹمنٹ میں کوئی ٹوائلٹ کیسے بنائے؟ پندرہ بیس اپارٹمنٹس کے لیے دو یا تین اجتماعی ٹوائلٹ میسر ہو پاتے ہیں! اور ایک کمرے کے اپارٹمنٹ میں سات آٹھ ارکان پر مشتمل گھرانے سکونت پذیر پائے گئے ہیں! ممبئی میں جنہیں ایک کمرے کا بھی اپارٹمنٹ مل جائے اُنہیں بھاگیہ وان سمجھیے۔ تیس چالیس لاکھ افراد فٹ پاتھ پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ فٹ پاتھ کے علاوہ بڑے پائپس، ندی نالوں اور دیگر مقامات پر بھی لوگ جیسا تیسا جھونپڑا ڈال کر رہتے پائے گئے ہیں۔ اب اگر اِسے کوئی زندگی سمجھے تو اُس کی مرضی۔ 
مشرقی پاکستان مرحوم کو بنگلہ دیش میں تبدیل ہوئے ساڑھے چار عشرے ہونے کو آئے مگر اب تک وہاں بھی عمومی معیار زندگی ایسا پست ہے کہ دیکھنے والے ملول اور شرمندہ ہو جاتے ہیں۔ چھونپڑیوں میں رہنے والوں کی تعداد لاکھوں نہیں، کروڑوں میں ہے۔ یہی حال نیپال کا ہے۔ افلاس نے ہمالیہ کے زیر سایہ واقع اس واحد ہندو ریاست کو زندگی کی دوڑ میں کہیں بہت پیچھے رہنے پر مجبور کر دیا ہے۔ 
دنیا بھر کا جائزہ لے کر ہم جب اپنے وطن پر نظر ڈالتے ہیں تو مکمل شرحِ صدر سے اللہ کا شکر ادا کرنے کو جی چاہتا ہے۔ اِس میں کیا شک ہے کہ افلاس پاکستان میں بھی ہے اور لوگ کمتر درجے کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں مگر ہم اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ ہمارے ہاں ابھی وہ مرحلہ نہیں آیا کہ لوگ لوہے کے پنجروں میں رہیں یا پائپ میں زندگی بسر کریں۔ افلاس ہمارے ہاں بھی ہے مگر سچ یہ ہے کہ یہ حالات سے زیادہ بہت سے لوگوں کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے۔ بہتر زندگی بسر کرنے کے لیے جو کچھ کرنا چاہیے وہ کرنے کے لیے لوگ تیار نہیں ہوتے۔ اِس کے نتیجے میں زندگی پستی کی طرف لڑھکتی جاتی ہے۔ بھارت اور بنگلہ دیش جیسے ممالک میں بہتر معاشی امکانات کی کمی ہے۔ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے۔ لوگ چاہیں تو منظم ڈھنگ سے جی کر اپنے حالات بہتر بنا سکتے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے بڑے شہروں میں لاکھوں افراد فٹ پاتھ پر زندگی بسر کرنے پر مجبور نہیں‘ مگر جس سطح پر وہ جی رہے ہیں اُس سے اوپر آنا ان کے لیے چنداں دشوار نہیں ع 
ذرا سی ہمتِ پرواز کی ضرورت ہے 
نہیں ہیں دور بہت شاخِ آشیاں سے ہم! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں