پاکستان سمیت پورے خطے میں تقریباً تمام ہی موسم (کرکٹ اور فٹبال میچوں کی طرح) فکسڈ ہوتے ہیں۔ ہر موسم کائنات چلانے والے کے طے کردہ نظام الاوقات کے مطابق وارد ہوتا ہے اور اپنے حصے کی راحتیں اور کلفتیں بانٹ کر چلا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ ایک زمانے سے ہم بھی دیکھتے آئے ہیں مگر شعراء کی عادت ہے جو کچھ بھی درست چل رہا ہو اس کے بارے میں بدگمانیاں پھیلاتے ہیں تاکہ لوگ خیال کی ''ندرت‘‘ پر انہیں داد دیں۔
ایک مشہور فلمی گیت کا مکھڑا کچھ یوں ہے :
پت جھڑ، ساون، بسنت، بہار
ایک برس کے موسم چار
پانچواں موسم پیار کا!
یہ گیت سن کر ہم اکثر سوچا کرتے تھے کہ شاعر نے جو چار موسم گنوائے ہیں ان میں سردیاں اور گرمیاں کہیں رہ گئیں؟ کیا وہ بین السطور ہیں؟ گویا شاعر نے فرض کرلیا کہ ہم اتنے ذہین ہیں کہ بین السطور سمجھ جائیں گے! ہماری حد تک تو چلیے شاعر کا گمان درست ہے (!) مگر عام فلم بین بے چارے سردی اور گرمی کو کیسے تلاش کر پائے ہوں گے؟
اور پھر پانچواں موسم؟
وہ بھی پیار کا! بہت خوب۔ شاعر نے پیار کو بھی موسم سے تشبیہ دے کر شاید یہ جتانے کی کوشش کی ہے کہ جس طور قدرت کے طے کردہ موسم (سردی، گرمی، ساون، بہار وغیرہ) وارد ہوتے ہیں بالکل اسی طور انسان پر پیار کا موسم بھی وارد ہوتا ہے۔ یعنی یہ کہ پیار کرنے کی بھی ایک خاص عمر ہوتی ہے اور جب وہ عمر گزر جائے تو پھر پیار نہیں ہوتا، صرف ناٹک رہ جاتا ہے! گویا پیار بھی ایک موسمی آئٹم ہے۔ شاعر کا ''فلسفہ‘‘ شاید یہ ہے کہ جس طرح گرمی میں شربت اور سردی میں چکن سُوپ پسند کیا جاتا ہے بالکل اسی طرح جوانی میں تھوڑا پیار ویار کا چلن بھی رہتا ہے! (شاعری کی آڑ میں ایسے ''فلسفے‘‘ فلمی گیتوں ہی کے ذریعے ہاتھ آسکتے ہیں!)
ہمارے ہاں اس وقت مون سون چل رہا ہے۔ جن علاقوں میں بارش نہیں ہو رہی ان کے باشندوں کو بھی مان لینا چاہیے کہ یہ بارش کا زمانہ ہے۔ دو چار دن تھوڑی دیر کے لیے بارش سے محظوظ ہونے والوں کے نصیب میں مون سون کا باقی زمانہ شرم سے پانی پانی ہوکر گزارنا لکھ دیا گیا ہے۔ اہل کراچی کا بھی کچھ ایسا ہی مقدور ہے۔ کراچی کے باشندے بھی بارش سے محظوظ ہونا چاہتے ہیں مگر شہر کے نظم و نسق پر مامور افراد جب لوگوں کو بارش کے لیے دعائیں مانگتا دیکھتے ہیں تو دبی زبان میں انتباہ کرتے ہیں ؎
کیوں مانگ رہے ہو کسی بارش کی دعائیں
تم اپنے شکست در و دیوار تو دیکھو!
اور حقیقت بھی یہی ہے کہ آدھ پون گھنٹہ بارش ہوجائے تو کراچی کا حال کچھ ایسا ہو جاتا ہے کہ بارش کی دعا مانگنے والے اللہ کے حضور شرمندہ سے رہ جاتے ہیں!
آپ شاید حیران ہو رہے ہوں کہ بارش، موسم، پیار ... یہ سب کچھ ہمیں کیسے یاد آگیا۔ بات یہ ہے کہ صاحب کہ اب کے مون سون نے دھوکا دیا ہے۔ لوگ بھیگنے کو بے تاب تھے مگر موسم تھا کہ زاہدِ خشک کے مانند کہیں سے بھی تَر دکھائی نہ دیا۔ ایسے میں خیال آیا کہ اب کے مون سون نے بھی اردو شاعری کے روایتی محبوب کا سا انداز اختیار کیا ہے۔ کہیں ایک جھلک دکھلاکے سب کو بے قرار کیا اور چل دیا۔ لوگ ترستے ہی رہ گئے مگر بادلوں نے پلٹنے کا نام نہ لیا۔ اور کہیں مون سون کی دیوی نے جلووں کی ایسی فراوانی یقینی بنائی کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں پھر کچھ اور دیکھنے کے قابل نہ رہیں! مون سون کی یہ غیر مستقل مزاجی ثابت کرتی ہے کہ اس میں اردو غزل کے روایتی محبوب کی خُو، بُو خطرناک حد تک پائی جاتی ہے!
اب کے کراچی والوں کو بھی ''نوید‘‘ سنائی گئی تھی کہ بارش ہوگی اور اتنی ہوگی کہ تمام امنگیں پوری ہوں گی، تمام دلدّر دور ہوجائیں گے۔ یعنی آسمان سے برسنے والی بوندوں کو ترسنے والے اللہ کی رحمت کو اس حد تک پائیں گے کہ اُسے سنبھالنے اور برتنے کی پوزیشن میں نہ رہیں گے۔
کراچی کے لوگ بھی عجیب مزاج کے ہیں۔ اگر کوئی ڈرائے کہ فلاں چیز کی آمد سے خرابی بھی پیدا ہوگی تو ڈرتے نہیں بلکہ تفریح لینے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ بارش کے حوالے سے بھی اہل کراچی کا کچھ ایسا ہی معاملہ رہا ہے۔ جانتے بھی ہیں کہ گھنے بادل گھنٹہ دو گھنٹہ بھی برس گئے تو شہری انتظامیہ کا سب کیا دھرا بہہ جائے گا مگر پھر بھی بارش میں بھیگنے کے لیے بے تاب اور تیار رہتے ہیں! اب کے تو یہ ہوا کہ محض چالیس پینتالیس منٹ کی بارش میں شہر جام ہوگیا۔
محکمہ موسمیات نے موقع غنیمت جانتے ہوئے پیش گوئی کی کہ تین چار تواتر سے طوفانی بارش ہوگی اور ہر طرف پانی ہی پانی ہوگا۔ ایک بار پھر اللہ کی رحمت جوش میں آئی اور محکمہ موسمیات کی پیش گوئی کو ناکام بنادیا! بارش کی تمنا کرنا ہمارا کام ہے مگر اللہ کیوں چاہے کہ ہمارا بُرا ہو؟ باری تعالیٰ نے مون سون کو ڈٹ کر کچھ کر دکھانے کا موقع نہ دیا اور متبادل آئٹم کے طور پر اُس کے مزاج میں تھوڑی سی چُلبلا پن پیدا کردیا تاکہ کہیں تھوڑی سی بارش ہو، لوگ خوش ہولیں اور اس کے بعد بادل کہیں اور چل دیں۔ طوفانی بارش کی پیش گوئی سے اہل کراچی یہ سمجھے کہ بادل کھل کر برسیں گے اور ہر سال خشک رہ جانے والی بارش کی آرزو کچھ اِس انداز سے تَر ہو رہے گی کہ دل میں کوئی حسرت نہ رہے گی۔ خیر گزری کہ مون سون کو محبوب کے مانند چند اٹکھیلیاں سُوجھیں اور ایک جھلک دکھلاکر اُس نے اپنی راہ لی اور ہم بھی دل ہی دل میں خوش ہولیے کہ چلو، کچھ بھیگ لیے۔ اگر محکمہ موسمیات کی لاج رہ جاتی یعنی طوفانی بارش سے متعلق پیش گوئی درست ثابت ہوتی تو ہم کہاں ہوتے! ممکن ہے کہ ہم یہ کالم فائبر کی کشتی میں بیٹھ کر یا کسی اسکول میں قائم ریلیف کیمپ میں لیٹ کر لکھ رہے ہوتے!
ہر سال مون سون میں موسم کی ادا دیکھ کر ہمیں اپنا عہدِ جوانی یاد آ جاتا ہے۔ ''خوش نصیبی‘‘ سے ہماری تو کوئی گرل فرینڈ نہیں تھی مگر ہم نے اپنے بہت سے ساتھیوں کو گرل فرینڈز کے نخرے اور اٹھکھیلیاں جھیلتے اور بھگتتے دیکھا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ان بے چاروں کا حشر دیکھ کر ہم نے اچھا خاصا سبق سیکھا یعنی موسمی پیار کے دریا میں ڈبکی لگانے سے مجتنب رہے! اچھا ہے کہ مون سون ہم سے گرل فرینڈ کی طرح پیش آتا ہے۔ ایک جھلک دکھلاکر، چند اٹکھیلیاں کرکے اُڑن چُھو ہوجانے کے بجائے اگر یہ بھیگا موسم سیریس ہوجائے اور ہمارے گھر بس جانے پر بضد ہو تو؟ بس اِس کا تصور کرنے ہی سے دل میں ہَول اُٹھتے ہیں! مون سون کے شاہانہ مزاج کا شکریہ ؎
عزیز اِتنا ہی رکھو کہ جی بہل جائے
اب اِس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے!