"MIK" (space) message & send to 7575

ماروں گُھٹنا … پُھوٹے آنکھ

اس دنیا میں اگر کوئی کام بالکل ناممکن دکھائی دیتا ہو تو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ ماہرین کو زحمت دیجیے، وہ ناممکن کو ممکن کر دکھانے کی اپنی سی کوشش ضرور کریں گے۔ اور وہ بھی پورے ''احساسِ ذمہ داری‘‘ کے ساتھ، یعنی اس بات کا خاص خیال رکھیں گے کہ نتائج کے ذمہ دار آپ ٹھہرائے جائیں! جو کچھ بھی کیا جائے اس کا ذمہ دار کوئی اور ٹھہرایا جائے یہی تو ماہرین کی اصل کاری گری ہے! 
گزری ہوئی صدیوں کا تو ہمیں علم نہیں مگر ہاں، اکیسویں صدی کے ماہرین جب بھی کسی معاملے میں دادِ تحقیق دیتے ہیں تو اس کی تفصیل پڑھ کر لوگ حیرت کے دریا میں ڈبکیاں لگانے لگتے ہیں۔ بیشتر معاملات میں ماہرین کا ''مستند ہے میرا فرمایا ہوا‘‘ کے سے انداز سے کچھ کہنا ''ماروں گھٹنا، پُھوٹے آنکھ‘‘ کی جیتی جاگتی مثال ہوا کرتا ہے۔ لوگ سوچتے ہی رہ جاتے ہیں کہ کوّے کے انڈے سے کوئل کا بچہ نکال کر دکھانے کا فن ماہرین پر ختم ہے! 
ماہرین ویسے تو ہر شعبے اور ہر موضوع کو جی بھر کے پامال کرچکے ہیں مگر ہم نے دیکھا ہے کہ کھانے پینے کے معاملات اور ازدواجی زندگی کے اُمور ان کے پسندیدہ ترین اہداف ہیں۔ ماہرین عام طور پر ان دو میدانوں ہی میں کھیلتے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ تقریباً ہر انسان کھانے پینے کی اشیاء اور ازدواجی زندگی کے اُمور سے متعلق پڑھنا چاہتا ہے۔ بس یہی بات ماہرین کے لیے بہت ہے۔ وہ انسان کی نفسی کمزوریوں کو محض جانتے نہیں بلکہ ان سے کھیلنا بھی جانتے ہیں! 
ایمان داری کی بات تو یہ ہے کہ کھانے پینے کے معاملات میں ماہرین نے ایسی عجیب و غریب تھیوریز دی ہیں کہ اُنہیں پڑھنے والے پریشان ہوکر مزید کھانے لگتے ہیں! بہت سے ماہرین نے جب یہ دیکھا کہ ان کی ماہرانہ آراء پڑھ کر پریشان ہونے والے لوگ زیادہ کھا بیٹھتے ہیں تو یہ تھیوری پیش کردی کہ پریشانی اور بدحواسی کے عالم میں انسان زیادہ کھاتا ہے! 
اب ماہرین نے ''نوید‘‘ سنائی ہے کہ گھریلو جھگڑے موٹاپے کا باعث بنتے ہیں! یہ پڑھ کر آپ بھی چونک گئے ہوں گے۔ کہاں گھریلو جھگڑے اور کہاں موٹاپا؟ اِسی کو تو کہتے ہیں کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا! ضمیمے کے طور پر یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ماروں گھٹنا، پُھوٹے آنکھ! 
آپ ہی سوچیے کہ گھریلو جھگڑوں کا موٹاپے سے کیا تعلق۔ مگر بھئی، ماہرین نے کچھ کہا ہے تو تسلیم کرنا ہی پڑے گا۔ اگر تسلیم نہ کیا تو وہ اس پر بھی تحقیق کرکے کوئی نتیجہ اخذ کرلیں گے۔ ماہرین ہر کام ''ہونی‘‘ کے سے انداز سے کرتے ہیں۔ اور ہونی کو بھلا کون ٹال سکتا ہے؟ 
امریکہ کی اوہایو اسٹیٹ یونیورسٹی کے ماہرین نے بتایا ہے کہ شریکِ حیات سے تکرار یا جھگڑے کی صورت میں ''گیرلین‘‘ متحرک ہوجاتا ہے۔ اب آپ سوچیں گے یہ گیرلین کیا بلا ہے۔ عرض ہے کہ گیرلین بھوک بڑھانے والا ہارمون ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ شریکِ حیات سے جھگڑے کی صورت میں تیز بھوک لگتی ہے، یعنی جنگ کا ماحول جنک فوڈ کی شدید خواہش کو جنم دیتا ہے! ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ عام طور پر ایسا ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو صحت مند وزن رکھتے ہیں یعنی جن کا جسم ابھی موٹاپے کی طرف مائل نہ ہوا ہو۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بہت موٹے افراد کا شریکِ حیات سے لڑنا یا نہ لڑنا یکساں اثر کا حامل ہے! اگر واقعی ایسا ہے تو کیا ہم جیسے ''صحت مند نونہالوں‘‘ کا مقدور صرف یہ ہے کہ شریکِ حیات سے جھگڑے کے بعد محض خار کھاکر اور غصہ پی کر ایک طرف بیٹھ رہا کریں! ماہرین کسی بھی معاملے میں ''جگاڑ‘‘ پیدا کرنے کی لامتناہی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہیں ایسی کوئی صورت ضرور نکالنی چاہیے کہ گھریلو جھگڑوں کے نتیجے میں غیر متوازن وزن یا جسم رکھنے والے بھی کچھ کھانے پینے کی طرف مائل ہوں۔ وہ بے چارے لڑنے جھگڑنے کے بعد محض غم کھا کھاکر کب تک زندہ رہیں گے! 
ماہرین کی مستند رائے ابھی ختم نہیں ہوئی۔ وہ کہتے ہیں تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ ازدواجی زندگی کے عدم اطمینان اور خوراک کے ناقص انتخاب کے درمیان واضح اور گہرا ربط پایا جاتا ہے۔ یعنی لڑائی کے بعد عموماً لوگ ایسی اشیاء کھانا یا پینا پسند کرتے ہیں جن میں چربی، چینی اور نمک کی مقدار زیادہ ہو۔ 
یہ بھی خوب رہی۔ اب ماہرین کو یہ بات کون سمجھائے کہ جسے وہ سبب قرار دے رہے ہیں وہ دراصل نتیجہ ہے۔ ہم خدا ناخواستہ ماہرین میں سے تو نہیں ہیں مگر ہمارا مشاہدہ بتاتا ہے کہ بہت سے گھروں میں جھگڑا کھانے پینے کی ناقص اشیاء کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ یعنی بیوی نے ڈھنگ کی چیز نہ پکائی ہو تو شوہر برس پڑتا ہے۔ اِسی طور اگر شوہر بازار سے غیر معیاری چیز اُٹھا لائے تو اُسے دیکھ کر یا اُسے پکانے کے دوران بیوی پھٹ پڑتی ہے! سیکڑوں نہیں ہزاروں، بلکہ لاکھوں گھروں کا سروے کیجیے۔ یہی معلوم ہوگا کہ کھانے پینے کی ناقص اشیاء کی بنیاد پر جھگڑا ہوتا ہے نہ کہ جھگڑے کے باعث ناقص اشیائے خور و نوش کا انتخاب عمل میں آتا ہے! یہ ماہرین ہی کا حوصلہ ہے کہ مستند سبب کو نتیجہ قرار دے رہے ہیں ؎ 
خرد کا جنوں رکھ دیا، جنوں کا خرد 
جو چاہے آپ کا حُسنِ کرشمہ ساز کرے! 
بازار میں ازدواجی زندگی کے حوالے سے لطائف کی کتابیں دستیاب ہیں۔ ہمارے خیال میں وہ زائد از ضرورت ہیں۔ اگر آپ کو ازدواجی زندگی سے متعلق بہترین اور سدابہار لطائف پڑھنے ہیں تو اِس حوالے سے ماہرین کی آراء اور تجزیے پڑھ ڈالیے۔ اس جنگل سے گزرنے پر آپ طرح طرح کے جانوروں کو اُول جلول حرکتیں کرتا ہوا پائیں گے! 
گھریلو زندگی اور کھانے پینے کے معاملات کو ملاکر ماہرین ایسے ایسے نقشے کھینچتے ہیں کہ دیکھنے والے دانتوں تلے انگلیاں داب کر رہ جاتے ہیں۔ ماہرین کے مبنی بر تحقیق تجزیے پڑھ کر بہت سوں کو اندازہ ہوتا ہے کہ جن معاملات نے اُن کا ناک میں دم کر رکھا ہے ان میں تو اچھا خاصا مزاح پایا جاتا ہے! یہی سبب ہے کہ ماہرین کی آراء پڑھ کر ابتداء میں انتہائی پریشان دکھائی دینے والے کچھ دیر خاصے ہشّاش بشّاش پائے گئے ہیں! 
جب تک کرّہ ارض پر ازدواجی زندگی کا وجود ہے، ماہرین بھی ''بقلم خود‘‘ پائے جاتے رہیں گے اور ان کی ''مستند‘‘ آراء سے ہم آپ ہنسنے گانے کی وجوہ کشید کرتے رہیں گے! یہ ہے قدرت کا کمال۔ اُس نے ازدواجی زندگی اور اُس کے جھگڑے پیدا کئے ہیں تو اُن سے لطف کشید کرنے اور محظوظ ہونے کے اسباب بھی مہیّا کئے ہیں۔ جب تک قدرت آپ کے ساتھ اور آپ پر مہربان ہے، ماہرین کی کوئی بھی بات آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں