ہمیں لکھنے کی ... اور خاص طور پر فکاہیہ لکھنے کی عادت سی پڑگئی ہے۔ یہ معاملہ شوق سے زیادہ مجبوری کا ہے۔ یعنی مجبوری کا نام شکریہ۔ جب ہم نے لکھنا شروع کیا تھا تب احباب سے کہا تھا کہ ہم فکاہیہ لکھنا چاہتے ہیں۔ ان کا ردعمل یہ تھا کہ جو کچھ تم لکھوگے وہ فکاہیہ ہو نہ ہو مگر بلا خوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ مزاحیہ تو ضرور ہوگا! جواباً ہم نے ابتدائی مرحلے ہی میں پختہ کار لکھاری ہونے کا ثبوت دیا یعنی ہر تبصرے کو ٹھوکر مار کر لکھتے چلے گئے!
خیر، فکاہیہ لکھنے کے شوق کے ساتھ ساتھ مزاج میں ''بغاوت‘‘ بھی موجزن تھی۔ ہم نے عنفوان شباب ہی سے عملی زندگی کا آغاز کردیا تھا یعنی کام کرنے لگے تھے۔ تب ہماری مونچھیں بھی نہیں نکلی تھیں مگر اس کے باوجود ہم نے ع
روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر
والی بات پر عمل کرنے کی ٹھانی اور جو ٹھانی وہ کر بھی گزرے۔ کئی سیانوں نے ہمیں سنجیدگی سے کام کرتا دیکھ کر کہا تھا کہ یہ نوجوان معاشرے سے بغاوت کی راہ پر گامزن ہے۔ بغاوت کی صراحت چاہی تو جواب ملا کہ جہاں لوگ مرتے دم تک کام کے معاملے میں سنجیدہ نہیں ہوتے وہاں یہ ''سادہ و معصوم‘‘ نوجوان بھرپور سنجیدگی کے ساتھ کام کرکے بغاوت ہی کا تو ارتکاب کر رہا ہے!
مختلف ادوار میں لوگوں نے ہمیں خطرناک نتائج سے ڈراتے ہوئے کام کے معاملے میں غیر سنجیدہ رویہ اختیار کرنے کی ''تحریک‘‘ دینے کی کوشش کی ہے۔ مگر ہم بھی ایسے اولو العزم (یعنی ڈھیٹ اور ہٹ دھرم) واقع ہوئے ہیں کہ آج تک اپنی روش ترک نہیں کی۔
اب جبکہ ہم عمر کے چھٹے عشرے میں داخل ہوچکے ہیں، کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ ساحرؔ لدھیانوی نے کچھ غلط تو نہیں کہا تھا ع
لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے
اور ایک ساحرؔ لدھیانوی پر کیا موقوف ہے، کئی دوسرے شعراء نے بھی یاد دلایا ہے کہ اجتماعی رائے شاذ و نادر ہی غلطی پر ہوتی ہے۔ کسی نے خوب کہا ہے ؎
بجا کہے جسے دنیا اُسے بجا سمجھو
زبانِ خلق کو نقارۂ خدا سمجھو!
آج ہم ارضِ پاک پر جس طرف بھی نظر ڈالتے ہیں، لوگ ایک ہی کام میں مصروف دکھائی دیتے ہیں اور وہ ہے کام سے بیزاری! حقیقت یہ ہے کہ ہماری عقل داڑھ اب تک نہیں نکلی یعنی کام سے بیزاری ہم میں اب بھی پیدا نہیں ہوئی۔ مگر کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ جس رجحان کو اپناکر قوم مزے میں ہے اس میں کچھ تو لذت ہوگی، کوئی تو بات ہوگی۔ ہمارے احباب میں کئی ہیں جو خاصی پرسکون زندگی بسر کر رہے ہیں یعنی کام کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتے! انہوں نے ہمیں بھی کئی بار ''شجرِ ممنوعہ‘‘ (''بے کامی‘‘ و ہڈ حرامی) کا پھل کھانے کی ترغیب دی ہے یعنی کام کے نام پر محض اداکاری کی طرف لانا چاہا ہے!
ماہرین کی خیر ہو کہ آئے دن ''تحقیق‘‘ کے ذریعے ڈراتے رہتے ہیں کہ زیادہ کام کرنا کسی بھی طور انسان کے حق میں نہیں جاتا۔ وہ چاہتے ہیں کہ لوگ کام وام کو سات سلام کریں اور پُرسکون زندگی بسر کرنے کی راہ پر گامزن رہیں۔ گزشتہ دنوں ماہرین نے ایک دو ایسی باتیں کہی ہیں جنہیں پڑھ کر ہم تشویش کے دریا میں ڈبکیاں لگا رہے ہیں! ماہرین کے ایک گروپ نے کہا ہے کہ جو لوگ زیادہ کام کرتے ہیں ان پر فالج کے حملے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ یہ ماہرانہ وعید سُن کر ہم سہم گئے۔ مگر ایک قدم آگے جاکر ماہرین کے دوسرے گروپ نے تو ایسی بات کہی ہے کہ ہم کام کاج کو تج کے بن میں بس کر ''وشرام‘‘ کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ اِن ماہرین نے کہا ہے کہ جو لوگ دفاتر میں زیادہ کام کرتے ہیں اور چھٹی والے دن بھی گھر میں دفتر ہی کا کام کرتے رہتے ہیں ان کے لیے دماغی و ذہنی امراض میں مبتلا ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے!
پہلی تحقیق کی روشنی میں ہم بلا خوفِ تردید و استہزاء کہہ سکتے ہیں کہ پاکستانیوں کی واضح اکثریت فالج سے محفوظ رہے گی!
دوسری تحقیق ہمارے لیے زیادہ پریشان کن ہے۔ ہم زندگی بھر دماغ کو زحمتِ کار دیتے آئے ہیں یعنی ذہنی مشقّت کی ہے۔ مگر ہمیں کبھی کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوئی۔ یہ بات ہم اس لیے کہہ رہے ہیں کہ کہیں آپ ہماری کالم نگاری کو ذہنی خلل کا نتیجہ نہ سمجھ بیٹھیں! کچھ لوگ ایسے ضرور ہیں جنہوں نے ہمیں مطالعے کا شوقین پایا اور پھر لکھتے دیکھا۔ اِس سے وہ یہ نتیجہ اخذ کر بیٹھے کہ جو لوگ پڑھ پڑھ کر ''کھسک‘‘ جاتے ہیں وہ لکھنے پر تُل جاتے ہیں!
لکھنے پڑھنے اور دماغ کو بروئے کار لانے کو ہم نے ہمیشہ باغیانہ روش سمجھا ہے مگر اب پتا چلا کہ یہ تو اپنے آپ سے بغاوت اور صریح دشمنی کے مترادف ہے!
آخری مغل تاجدار کے استاد شیخ ابراہیم ذوقؔ نے خوب کہا ہے ؎
اے ذوقؔ! تکلف میں ہے تکلیف سراسر
آرام سے ہیں وہ جو تکلف نہیں کرتے!
پاکستانی معاشرے پر یہ شعر ذرا سے تصرف کے ساتھ یوں منطبق ہوگا کہ ع
آرام سے ہیں وہ جو کوئی ''کم نئیں کردے‘‘!
ماہرین کے بارے میں ہمارا اندازہ ہے کہ وہ عام طور پر بے پَر کی اڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سماجی امور میں تحقیق کے حوالے سے وہ جو کچھ کہتے ہیں اس کی حقانیت پر یقین کرنے کو جی کم ہی چاہتا ہے۔ مگر کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ اپنی بے کراں کائنات میں اللہ نے کوئی بھی چیز بے مصرف پیدا نہیں کی۔ تو پھر ماہرین کی بھی کوئی نہ کوئی ''عِلّتِ تخلیق‘‘ اور افادیت ضرور ہوگی! بند گھڑی کے کانٹے بھی دن میں دو بار صحیح وقت بتاتے ہیں تو ماہرین بھی کبھی تو کوئی کام کی بات کہہ جاتے ہوں گے۔ اور ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ کام کی زیادتی کے اثرات کے بارے میں ماہرین غلط نہیں کہتے ہوں گے کیونکہ وہ خود بھی کم کام کرکے پرسکون زندگی بسر کرتے پائے گئے ہیں!
عشروں سے کام کرتے کرتے ہمارے اعصاب پر شدید تھکن طاری ہوچکی ہے۔ ہم بھی ماہرین کی وعید سن کر پریشان ہوگئے ہیں اور فالج یا دماغی امراض سے بچنے کے لیے آرام کرنا چاہتے ہیں مگر سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا کریں؟ ایک بار پھر استاد ذوقؔ یاد آرہے ہیں۔ انہوں نے ''انگور کی بیٹی‘‘ کو ''خراج تحسین‘‘ پیش کرتے ہوئے خوب کہا ہے کہ ع
چُھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
ہمارا اور کالم نگاری کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ اب اگر ہم کمبل کو چھوڑنا بھی چاہیں تو کمبل ہمیں چھوڑنے کو راضی نہیں! ماہرین نے زیادہ ذہنی مشقّت کو دماغی امراض اور ذہنی عوارض سے جوڑنے کی کوشش کی ہے مگر ہم کیسے باز آئیں؟ ع
یہ جُنونِ عشق کے انداز چُھٹ جائیں گے کیا؟
ماہرین تو اب کہہ رہے ہیں، ہمیں تو بعض کہنہ مشق اہلِ قلم نے اپنی مثال دیتے ہوئے لکھنے لکھانے سے باز رکھنے کی اپنی سی کوشش بارہا کی ہے اور ہر بار شرمندہ ہوکر رہ گئے ہیں! جب بھی کوئی سمجھانے آیا ہے، ہم نے سوچا ہے ؎
حضرتِ ناصح گر آئیں، دیدہ و دل فرشِ راہ
کوئی مجھ کو یہ تو سمجھادو کہ سمجھائیں گے کیا؟
اور ہمیں سمجھانے میں ناکام رہنے والوں نے تھک ہار کر کہا ہے ؎
تو ... اور خیالِ خاطرِ اہلِ وفا کرے
اُمّید تو نہیں ہے مگر ہاں خدا کرے!
ماہرین نے دونوں طرح سے کوشش کرکے دیکھ لیا۔ زیادہ کام کرنے پر فالج کی اور زیادہ ذہنی مشقّت کرنے کی صورت میں دماغی و ذہنی امراض کی وعید بھی سُنادی مگر ہم باز نہیں آئے اور یہ کالم ہمارے باز نہ آنے کی ''روشن دلیل‘‘ ہے! اب تو بس یہ ہے کہ ہم لکھتے رہیں گے اور آپ پڑھتے رہیں گے۔ جو ہونا ہے وہ ہوکر رہے گا۔ غالبؔ کے ''اسدؔی دور‘‘ کی ایک غزل کا مقطع کالم نگاری کے کھونٹے سے ہمارے بندھے رہنے کو بخوبی بیان کرتا ہے ؎
اُس فتنہ خُو کے در سے اب اٹھتے نہیں اسدؔ
اِس میں ہمارے سر پہ قیامت ہی کیوں نہ ہو!