جب سے انسان نے روئے زمین پر آنکھ کھولی ہے یا قدم رکھا ہے تب سے ایک مسئلہ اس کے حواس پر بھوت کی طرح سوار رہا ہے۔ انسان کو فکر رہتی ہے تو بس اپنے وزن کی! گویا وزن کا بڑھنا کائنات کا سب سے بڑا مسئلہ ہو۔ ماہرین نے ایک زمانے سے لوگوں کو وزن کے حوالے سے بے وقوف بنا رکھا ہے۔ یہ معاملہ انسان کے سر پر ایسا سوار کیا گیا ہے کہ وہ وزن میں کمی کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ موٹا اور مضبوط انسان کی انتہائی نمایاں نفسیاتی کمزوری ہے۔ اور ماہرین اسی نفسیاتی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ سبز چائے پینے سے وزن گھٹ جاتا ہے اور کبھی کہا جاتا ہے کہ پھیکا سوپ پینا وزن گھٹانے کے لیے سود مند ثابت ہوتا ہے۔ کبھی کہتے ہیں کہ زیادہ کھانے سے کچھ نہیں ہوتا اور کبھی سارا نزلہ خوش خوراکی پر گرادیا جاتا ہے۔ وزن گھٹانا ایسا معاملہ ہے کہ ہر انسان کے پاس کوئی نہ کوئی ٹوٹکا ضرور ہوتا ہے۔ جس سے بات کیجیے وہ فوراً ماہرانہ رائے پیش کرتا ہے۔ اور اس یقین کے ساتھ کہ اگر اس کے مشورے پر عمل کیا گیا تو چند ہی روز میں وزن اس قدر گھٹ جائے گا کہ آپ خود بھی اپنے آپ کو اجنبی محسوس کرنے لگیں گے!
خواتین پر دہرا عذاب ہے۔ ایک طرف تو انہیں حُسن برقرار رکھنا ہے اور دوسری طرف وزن برقرار نہیں رکھنا ! اگر حُسن برقرار رکھنے کی طرف متوجہ ہوں تو وزن بڑھ جاتا ہے اور اگر وزن گھٹانے پر توجہ دیں تو حُسن گہنا جاتا ہے۔ ایمان داری کی بات تو یہ ہے کہ خواتین کی اِسی ایک الجھن کو دیکھتے ہوئے اُنہیں بہت سے معاملات میں گریس مارکس دیئے جانے چاہئیں!
وزن ہمارے لیے بھی بہت حساس معاملہ ہے۔ جب سے ہمارے وزن میں اضافہ ہوا ہے، لوگوں نے ہر معاملے کو ہمارے وزن سے جوڑنا شروع کردیا ہے۔ ہم پسند کی کوئی چیز کھا رہے ہوں تو فوراً کوئی نہ کوئی جملہ کس دیتا ہے کہ یہ سب کچھ ٹھونسوگے تو وزن لازمی طور پر بڑھتا ہی رہے گا! اگر ہم کوئی چیز نہ کھا رہے ہوں یا کم کھا رہے ہوں تب بھی یہ رائے سامنے آتی ہے کہ ایسی مفید چیزیں نہیں کھاؤگے تو وزن کیا خاک گھٹے گا! یعنی نہ جائے رفتن، نہ پائے ماندن۔ اب ہم آپ کو کس طور یقین دلائیں کہ لوگوں کے متضاد مشوروں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ذہنی الجھن نے ہمارا وزن بڑھانے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے!
خیر، ہم کیا اور ہمارا وزن کیا۔ آئیے دوبارہ وزن کے حوالے سے خواتین کی طرف چلتے ہیں۔ ہانگ کانگ کی خواتین نے وزن گھٹانے کے حوالے سے ایسا تجربہ کیا ہے کہ جس نے بھی پڑھا ہے، حیران رہ گیا ہے۔ آج تک تو ہم نے سنا تھا کہ خواتین حُسن کے معاملے میں انتہائی حساس ہوتی ہیں اور حُسن برقرار رکھنے کے لیے کسی بھی حد تک چلی جاتی ہیں۔ اور بالعموم بیوٹی پارلر تو چلی ہی جاتی ہیں! اور جناب، یہی حد ہے۔ بیوٹی پارلر مہنگا ہو سستا، اس سے خواتین کو کچھ فرق نہیں پڑتا۔ پڑے بھی کیوں؟ بیوٹی پارلر کا بل انہیں کون سا ادا کرنا ہوتا ہے!
اب آئیے وزن گھٹانے کے تازہ ترین نسخے کی طرف۔ بات زمین کی حدود سے نکل کر خلائے بسیط کو پھلانگتی ہوئی اب سورج تک جا پہنچی ہے۔ کہتے ہیں سورج کروڑوں، اربوں سال سے چمک رہا ہے اور زندگی کی نوید بنا ہوا ہے۔ یہ بھی سنا ہے کہ اپنی اس خوبی پر سورج نے کبھی غرور نہیں کیا! اب اگر سورج اپنے وجود پر اور اپنے وجود کی خوبیوں پر ناز کرے تو کچھ عجب نہ ہوگا۔ ہانگ کانگ کی چند خواتین نے سورج کی روشنی سے وزن گھٹانے کا تجربہ کیا ہے۔ یہ خواتین گھنٹوں سورج کے سامنے کھڑی رہتی ہیں۔ وزن گھٹانے کے اس عمل میں بھی وہ حُسن کی حفاظت کرنا نہیں بُھولیں یعنی چہرہ ڈھانپ کر سورج کے سامنے کھڑی رہتی ہیں۔ اب آپ سوچیں گے سورج کی روشنی یعنی دھوپ سے وزن کے گھٹانے کا کیا تعلق؟ بات یہ ہے کہ خواتین جب حُسن کی حفاظت اور وزن میں کمی کے حوالے سے کوئی تجربہ کریں تو دریائے حیرت میں غوطہ زن ہونے کی ضرورت نہیں۔ جو لوگ اس نوعیت کے تجربات پر غور کرتے ہیں وہ پھر غور ہی کرتے رہ جاتے ہیں اور کسی دوسرے کام کے نہیں رہتے۔
ہانگ کانگ کی خواتین نے ماہرانہ دینے کا شاندار مظاہرہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ جب جسم کو دھوپ لگتی ہے تو اچھی خاصی توانائی منتقل ہو جاتی ہے۔ سورج کی روشنی میں چونکہ توانائی ہوتی ہے اس لیے کچھ دیر دھوپ میں بیٹھنے سے اچھی خاصی کیلوریز جسم کو مل جاتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جسم کو خوراک کی زیادہ ضرورت نہیں رہتی۔ اب جس کے ذہن میں وزن گھٹانے کا خیال آئے وہ سورج کے سامنے کھڑا ہوجائے، کیلوریز جسم میں منتقل کرے اور بھوک کی شدت سے بے نیاز ہوجائے۔
دیکھا آپ نے؟ وزن گھٹانا کس قدر آسان ہے اور لوگوں نے کیسا ہوّا کھڑا کر رکھا ہے۔ ماہرین کی ساری آراء دھری کی دھری رہ گئی ہیں۔ کروڑوں، اربوں سال سے وزن گھٹانے کا انتہائی آسان اور تیر بہ ہدف نسخہ موجود تھا اور انسان اپنے چند ہزار سال کے سفر میں کبھی اس طرف گیا ہی نہیں۔
ہانگ کانگ کی خواتین نے ایسا کمال کر دکھایا ہے کہ انہیں بے ساختہ داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ وزن گھٹانے کے حوالے سے دنیا بھر میں ہزاروں نسخے گردش کر رہے ہیں۔ ایک پوری صنعت کام کر رہی ہے۔ اربوں ڈالر کا دھندا ہے۔ ایسا لگتا ہے ہانگ کانگ کی خواتین اس پورے دھندے کو چوپٹ کرنے پر تُل گئی ہیں۔ یا ہوسکتا ہے کہ وزن گھٹانے والے اشیاء بنانے والے اداروں سے موزوں فنڈنگ نہ ہونے پر چند خواتین نے انتقاماً سورج کو اس معاملے میں گھسیٹ لیا ہو! ہمیں کچھ اندازہ نہیں کہ سورج دیکھنے اور سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں۔ اگر وہ سوچنے کی صلاحیت کا حامل ہوگا تو وزن گھٹانے میں اپنے کردار کا سن کر ہنستے ہنستے پاگل ہوجائے گا۔
صد شکر کہ کسی نے ہماری حکومت کو سورج کے اس نئے استعمال کے بارے میں نہیں بتایا۔ ہمیں ڈر ہے کہ سورج کی روشنی سے وزن گھٹانے کا سن کر وزیر خزانہ ایک اور ٹیکس عوام پر مسلط کردیں گے۔ یعنی جتنی دیر سورج کی روشنی سے کیلوریز کشید کیجیے اتنی دیر کی پے منٹ بھی حکومت کو دیجیے۔ ہم ایک زمانے سے سوچ رہے ہیں کہ حکومت نے اب تک سورج کی روشنی اور ہوا پر کوئی ٹیکس کیوں نہیں لگایا۔ ہانگ کانگ کی خواتین شاید ہماری خوشی برداشت نہیں کر پارہیں۔ وزن گھٹانے کے لیے سورج کی روشنی کو بروئے کار لاکر انہوں نے ہمارے لیے ایک نئے ٹیکس کا خطرہ پیدا کردیا ہے۔ آج کل وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے گرد جس نوعیت کے مشیر پائے جاتے ہیں اسے دیکھتے ہوئے کسی بھی نوعیت کا ٹیکس خارج از امکان نہیں۔ ایسے میں سورج کی روشنی اور تازہ ہوا مفت مل رہی ہے، اِسے معجزہ ہی سمجھیے۔
خواتین ہانگ کانگ کی ہوں یا پاکستان کی، ان سے ہم التماس کرتے ہیں کہ ایسے حُسن بڑھانے اور وزن گھٹانے کے ایسے نسخے تجویز نہ کریں جن کے باعث ہمارے لیے قدرتی وسائل سے مستفید ہونا بھی ممکن نہ رہے۔ سورج جو کچھ کر رہا ہے وہی اسے کرنے دیجیے۔ کسی دوسرے کام پر لگانے سے اس کی کارکردگی کہیں گہنا نہ جائے اور ہمارے لیے بھی کوئی مصیبت کھڑی نہ ہوجائے۔