حقیقی فلاحی ریاست کا جو تصور اسلام نے دیا ہے اور جس پر خلفائے راشدین نے عمل بھی کر دکھایا تھا وہ اب مغرب میں رو بہ عمل ہے۔ یورپ کی کئی ریاستوں نے فلاحی ریاست کی ایسی عملی تعبیر پیش کی ہے جو پوری دنیا کے لیے رول ماڈل کا درجہ رکھتی ہے مگر ''پھرتے ہیں میرؔ خوار، کوئی پوچھتا نہیں‘‘ کے مصداق فلاحی ریاست کا یورپی تصور گلے سے لگانے کے لیے باقی دنیا کا بیشتر حصہ تیار نہیں، اور اس کا سبب بھی ایسا نہیں کہ سمجھ میں نہ آسکے۔ بات اتنی سی ہے کہ یورپ نے قربانی دینا سیکھا ہے۔ صدیوں کی خوں ریزی کے بعد ان کے ہاں اجتماعیت کا تصور پروان چڑھا ہے۔ انہوں نے قبائلی اور دیگر عصبیتوں کو بھلاکر قومی ریاست کا تصور اپنایا ہے۔ ہر فرد کے ذہن میں یہ تصور راسخ ہے کہ ریاست کو چلانا اس کی بھی ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری سے وہ اسی وقت سبک دوش ہوسکتا ہے جب وہ اپنی محنت کی کمائی کا معتدبہ حصہ ریاستی خزانے میں جمع کرائے۔ شمالی امریکہ، یورپ اور مشرق بعید کے ترقی یافتہ معاشروں کے بیشتر باشندے اس بات کو اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں کہ ریاست کو کچھ دینا دراصل اپنے آپ کو دینا ہے یعنی جو کچھ بھی ٹیکس اور ڈیوٹی کی شکل میں دیا جائے گا وہ مختلف سہولتوں اور آسائشوں کی شکل میں ریاست کی طرف سے لَوٹادیا جائے گا۔ اور عملاً ایسا ہی ہو بھی رہا ہے۔
فن لینڈ سے خبر آئی ہے کہ ٹیکس چوری روکنے کے لیے پولیس نے انوکھا طریقہ اختیار کیا ہے۔ پولیس نے شہریوں سے کہا ہے کہ اگر فاسٹ فوڈ کا کوئی آؤٹ لیٹ کم قیمت پر پیزا فراہم کر رہا ہو تو فوراً مطلع کیا جائے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ بعض دکاندار حکومت کو ٹیکس ادا کرنے کے بجائے قیمت سے وہ ٹیکس منہا کرکے لوگوں کو سستا پیزا فراہم کر رہے ہیں۔ یہ ریاستی عملداری کے لیے کھلے چیلنج سے کم نہیں۔ حکومت کو ٹیکس ادا کرنے کی بجائے عوام کو وہی ٹیکس منہا کرکے سستی چیز فراہم کرنا ریاست پر عدم اعتماد کا مظہر ہے۔ کوئی چیز کم قیمت پر ملے اس میں عوام کا بھلا ہے مگر عوام کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اس طور ریاست کی آمدن میں کمی واقع ہوگی اور اس کا نتیجہ ان اقدامات کے کمزور ہونے کی صورت میں برآمد ہوگا جو ریاست کی طرف سے بہبودِ عامہ یقینی بنانے کے لیے کیے جاتے ہیں۔
فن لینڈ کا شمار یورپ کی چند انتہائی فلاحی ریاستوں میں ہوتا ہے۔ ان ریاستوں میں لوگوں سے ٹیکس کے نام پر بہت کچھ، بلکہ آمدن کا 70 فیصد تک وصول کیا جاتا ہے مگر زندگی کی ہر بنیادی اور اضافی سہولت انہیں اس طور فراہم کی جاتی ہے کہ کسی کے لیے شکایت کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ ایسی کسی بھی ریاست میں عوام کے پاس ریاستی مشینری پر عدم اعتماد کا بظاہر کوئی جواز نہیں ہوتا۔ ایسے میں یہ بات بہت عجیب لگتی ہے کہ کوئی شخص یا ادارہ ٹیکس بچانے کے بارے میں سوچے۔ مگر قابل غور بات یہ ہے کہ اگر کوئی ریسٹورنٹ ٹیکس بچا بھی رہا ہے تو اپنی جیب میں نہیں ڈال رہا، اس کا فائدہ عوام تک منتقل کر رہا ہے۔ یعنی ایک پیزا پر جس قدر ٹیکس نافذ ہوتا ہے وہ منہا کرکے عوام کو اصل قیمت پر پیزا فراہم کیا جارہا
ہے۔ کہنے کو یہ بات کچھ زیادہ قابل اعتراض نہیں کہ عوام کا بھلا تو ہو رہا ہے، مگر اصولی طور پر یکسر غلط اور بے بنیاد ہے۔ یہ روش پختہ ہوجائے اور معاشرے میں سبھی عوام کو فائدہ پہنچانے کی ذمہ داری اپنے سَر لے لیں تو ریاستی نظم خاک میں ملتے دیر نہیں لگے گی۔
فن لینڈ کی پولیس نے ''گربہ کشتن روز اول‘‘ والی دانش اپنائی ہے۔ سستا پیزا بیچنے والوں کی نشاندہی کرنے کی اپیل اس لیے کی گئی ہے کہ اگر ان سستے پیزے بیچنے والوں کی دیکھا دیکھی اوروں نے بھی ٹیکس بچاکر لوگوں کو سستا مال بیچنا شروع کردیا تو سب اپنی اپنی بولیاں بولنے لگیں گے اور ریاستی نظم و ضبط دھرا کا دھرا رہ جائے گا! فن لینڈ میں کوئی ہماری پولیس تو ہے نہیں کہ سوئی رہتی اور آنکھ کھلنے پر کسی کو بھی جھپٹ کر ایفیشینسی جھاڑتی! یہ فن لینڈ کی پولیس ہے جو بر وقت جاگ اٹھی اور لوگوں کو بھی جگانے کی کوشش کر رہی ہے۔
ہم خیر سے اس مقام تک پہنچ گئے ہیں کہ ٹیکس بھی نہیں دیتے اور لوگوں کو سہولتیں دینے سے بھی گریزاں ہیں۔ پاکستانی معاشرے پر سرسری سی نظر بھی ڈالیں تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ لوگ سب کچھ اپنے ہاتھ میں لینے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ریاستی مشینری پر اعتماد رکھنے والوں کی تعداد کم اور دن بہ دن کمتر ہوتی جارہی ہے۔ ریاستی مشینری جس طور وسائل ضائع کر رہی ہے اُسے دیکھتے ہوئے ہمیں لوگوں کا طرز عمل درست دکھائی دیتا ہے اور ٹیکس چوری بھی کچھ عیب محسوس نہیں ہوتی۔ مگر صاحب یہ اوپری سطح کا ردعمل اور طرز فکر ہے۔ ذہن پر زور دیجیے اور ٹیکس چوری کی خصلت کو بنیاد بناتے ہوئے نفسی تجزیہ کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ ہم (من حیث المعاشرہ) جس راہ پر گامزن ہیں وہ صرف تباہی کی طرف لے جاتی ہے۔ جب ایک باضابطہ نظام موجود ہے اور اسے چلانے والی مشینری بھی غائب نہیں تو کسی کو یہ اختیار نہیں کہ ٹیکس چوری کو ایک پختہ عادت کی حیثیت سے اپنائے اور اپنے لیے جہنم میں بھیانک آگ کے گڑھے تیار کرے۔
یورپ اور دیگر خطوں کے ترقی یافتہ ممالک میں عمومی معاشرتی رویّوں میں جو غیر اخلاقی عناصر پائے جاتے ہیں اور عریانی و
بے حیائی کا جو مظاہرہ برسر عام کیا جاتا ہے وہ یقیناً کسی بھی اعتبار سے قابل قبول نہیں اور اسے مثال بناتے ہوئے اپنایا بھی نہیں جاسکتا مگر انہی معاشروں میں عوام کو پرسکون زندگی بسر کرنے کے لوازم فراہم کرنے کا جو نظم پایا جاتا ہے وہ یقینی طور پر ایسا ہے کہ ہم اس کے مُقلّد ہوں اور اپنی زندگی میں زیادہ سے زیادہ آسانیاں پیدا کریں۔ یورپ میں اسکینڈینیویا کی ریاستوں، مشرقی امریکہ میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور کینیڈا، مشرق وسطیٰ میں متحدہ عرب امارات، بحرین، قطر اور سعودی عرب اور مشرقی بعید میں جاپان، چین اور جنوبی کوریا وغیرہ نے فلاحی ریاست کا جو تصور عملاً متعارف کرایا ہے وہ ہماری بے حِسی اور نام نہاد حب الوطنی پر تازیانے سے کم نہیں۔ کبھی جن اقدامات کی بدولت ہماری شان و شوکت اور عظمت دنیا نے دیکھی تھی آج وہی اقدامات ان کے ہاتھوں انجام پارہے ہیں جو ایمان کی دولت سے سرفراز نہیں۔ اخلاق باختہ ہونے کے باجود یورپ سمیت کئی معاشرے اس لیے مستحکم دکھائی دیتے ہیں کہ وہ عدل اور احسان کے اصول کو اپنائے ہوئے ہیں۔ ہمیں اچھی طرح اور بروقت سمجھ لینا چاہیے کہ قدرت نے ان فلاحی ریاستوں کو منصۂ شہود پر لاکر ہمیں آئینہ دکھانے کا اہتمام کیا ہے۔ اس آئینے میںجھانک کر ہمیں اپنے حال کا جائزہ لیتے ہوئے ماضی کو یاد کرکے بہت کچھ سیکھنا ہے تاکہ ہمارا آنے والا دور دنیا کے لیے مثال بن کر رہ جائے۔ اب یہ تو ہمی کو طے کرنا ہے کہ ہم یہ آئینہ کب تک دیکھیں گے!