"MIK" (space) message & send to 7575

ڈپریشن ذرا سامنے تو آئے

ماہرین نفسیات نے ڈپریشن سے بچاؤ کے طریقے سُجھانے میں عمریں کھپا دی ہیں۔ کبھی کبھی تو اِتنی دور کی کوڑی لائی جاتی ہے کہ ڈپریشن میں مبتلا افراد ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو جاتے ہیں‘ یعنی واقعی ڈپریشن ختم ہو جاتا ہے۔ اب امریکی ماہرین نے ایک مطالعے کے نتائج کی روشنی میں بتایا ہے کہ ڈپریشن دور کرنے میں بزرگ غیر معمولی حد تک مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ طریقہ یہ ہے کہ بزرگوں کے پاس ہفتے میں دو مرتبہ کچھ دیر کے لیے بیٹھا جائے، ان سے گپ شپ لگائی جائے۔ 
امریکہ کی ہیلتھ سائنس یونیورسٹی آف پورٹ لینڈ کے پروفیسر ایلن ٹو کا کہنا ہے کہ بزرگوں کی معیت میں کچھ وقت گزارنے سے ڈپریشن کا گراف نیچے لایا جا سکتا ہے۔ اس کی توجیہہ وہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ بزرگوں سے بات کرتے ہوئے یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ ان کی تنہائی دور کی جا رہی ہے یعنی ان کی مدد اور دل جُوئی کی جا رہی ہے۔ اور جب انسان کسی کی دل جُوئی کر رہا ہوتا ہے تو دل کو عجیب سی طمانیت نصیب ہوتی ہے۔ بزرگوں سے کچھ دیر بات کرنے اور ان کے مسائل معلوم کرنے سے انسان اپنے لیے راحت کا سامان کرتا ہے۔ 
امریکہ اور یورپ کے ماہرین کو شاید معلوم نہیں کہ ہمارے پاس بھی ایک ایسی عظیم ہستی موجود ہے جو ذہن کی گتھیوں کو اتنی تیزی اور عمدگی سے سلجھاتی ہے کہ دیکھنے والے عش عش کر اٹھتے ہیں۔ مرزا تنقید بیگ چونکہ سٹھیا چکے ہیں‘ یعنی عمر ساٹھ سال سے زیادہ ہے اس لیے وہ بھی اب بزرگوں کی صف میں ہیں۔ پروفیسر ایلن ٹو اور ان کے ساتھی اگر مرزا کو سمجھ پائیں تو اُن کے گرویدہ ہو کر ان کے گرد اُسی طور منڈلائیں جس طور شمع کے گرد پروانے منڈلاتے ہیں۔ مرزا سے ان کی عمر کے اور ان سے بڑے یعنی ہر کیٹیگری کے بزرگ ان سے پناہ مانگتے ہیں۔ پروفیسر ایلن ٹو کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے کوئی مرزا کے پاس بیٹھ کر اپنا ڈپریشن دور کرنا چاہے تو ہمیں یقین ہے کہ پھر کبھی ڈپریشن میں مبتلا نہیں ہو گا۔ وہ یوں کہ مرزا اس کا دماغ اس قابل چھوڑیں گے ہی نہیں کہ وہ کبھی کسی بھی عارضے کا شکار ہو! مرزا کے کئی یاروں نے اِسی لیے بہت دور ٹھکانے بنا لیے کہ مرزا سے آئے دن کا ٹاکرا ان کے لیے جان کا عذاب بن چکا تھا۔ یاروں کی محفل ڈپریشن ختم کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ مرزا کے پاس بیٹھنا ایک ڈپریشن کی موت اور کسی نئے ڈپریشن کی ولادت کا منظر پیش کرتا رہا ہے! ''دیکھ مگر پیار سے‘‘ والے فارمولے کی بنیاد پر ہم مرزا سے ملنے آنے والوں کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ بیٹھ مگر احتیاط سے! 
جو کچھ مرزا کے ہاتھوں ہم پر یعنی ہمارے دل و دماغ پر بیتی ہے اس کی روشنی میں ہم پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اگر کوئی شخص مغربی ماہرین کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے مرزا کے پاس کچھ دیر بیٹھ کر ڈپریشن دور کرنے کی کوشش کرے تو پھر اُس غریب کے دماغ کا نشان بھی نہ ملے گا! ایسی ہی کیفیت کے لیے سیف الدین سیفؔ نے خوب کہا ہے: ؎
لوٹ کر پھر نگہ نہیں آئی 
اُن پہ قربان ہو گئی ہو گی! 
مرزا ہر معاملے میں بال کی کھال اتنی خوبصورتی اور نزاکت سے اتارتے ہیں کہ پتا ہیں نہیں چلتا۔ بہت سے نوجوان اپنی پریشانی لے کر ان کے پاس آ بیٹھتے ہیں۔ اور جب سلسلۂ کلام چل نکلتا ہے تو کچھ ہی دیر میں حالت یہ ہوتی ہے کہ اپنی اپنی پریشانیاں لے کر آنے والے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے رخصت ہونے لگتے ہیں۔ مرزا سے مل کر ان میں سے ہر ایک کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ اسے بخشی جانے والی پریشانی تو کچھ بھی نہیں اور اس قابل تو ہرگز نہیں کہ اس کے باعث ڈپریشن میں مبتلا ہوا جائے! یہ وہی معاملہ ہے جو جیل میں قیدیوں کی تفریح طبع کا اہتمام کرنے سے سامنے آیا تھا۔ ایک بار کسی جیل کے قیدیوں کی ''تفریح طبع‘‘ کے لیے استادانِ فن کو بلا کر راگ رنگ کی محفل سجائی گئی! منتظمین سمجھے کہ قیدیوں کا دل بہلایا گیا اور قیدی سمجھے کہ شاید یہ بھی سزا کا حصہ ہے! 
مرزا کہتے ہیں کہ مغربی ماہرین میں ایک بہت ہی بُری عادت یہ پائی جاتی ہے کہ وہ کسی بھی عارضے یا عِلّت کا علاج تو بتا دیتے ہیں، مابعد اثرات کا معاملہ گول کر جاتے ہیں۔ اب یہی دیکھیے کہ امریکی ماہرین نے ڈپریشن کم کرنے کے لیے بزرگوں کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا مشورہ تو دے دیا مگر یہ نہیں بتایا کہ اگر ڈپریشن منتقل ہو کر بلا کی طرح بزرگوں سے چمٹ جائے تو انہیں کیا کرنا چاہیے! ہم نے جب بھی اُن کے منہ سے یہ شکوہ سُنا ہے، اُن کی ''سادگی‘‘ پر ہنسی آ گئی ہے! 
مرزا کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ نئی نسل جس طرح کی بے ہنگم زندگی بسر کر رہی ہے اس کا تقاضا ہے کہ ان سے دور رہا جائے۔ زندگی بھر محنت کر کے عمر کے آخری حصے میں سکون کا سانس لینے والوں کو پریشان کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ نئی نسل اگر اپنا ڈپریشن دور کرنے کے لیے بزرگوں کے پاس بیٹھے گی تو ان کی عمر کا آخری حصہ بھی پریشانی کے گڑھے میں دھکیل دے گی! 
مغربی ماہرین کا اب تک اندازہ نہیں ہو سکا کہ ڈپریشن کو ختم کرنے کی ایک موثر صورت یہ ہے کہ اُسے ڈپریشن سے ٹکرا دیا جائے۔ ہمارے ہاں عشروں سے یہی ہو رہا ہے۔ لوگ ہوٹلوں میں اور سڑک کنارے بیٹھ کر اپنا اپنا ڈپریشن نکال کر آپس میں ٹکراتے ہیں۔ کچھ ہی دیر میں ایک حشر سا برپا ہو جاتا ہے اور پھر سارا ڈپریشن جاتا رہتا ہے اور سب دل کھول کر ہنسنے لگتے ہیں۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کچھ دیر قبل ان لوگوں کو ڈپریشن نے گھیر رکھا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں سب کا ڈپریشن آپس میں ٹکرا کر یوں ختم ہوتا ہے کہ ع 
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سُنا افسانہ تھا
ڈپریشن بھی بہت عجیب عارضہ ہے۔ لاحق ہونے پر آئے تو بلاوجہ بھی لاحق ہو جائے اور نہ ہونے کی ٹھان لے تو کشیدہ گھریلو ماحول والے دسیوں ڈرامے دیکھ کر بھی خواتین خانہ کو لاحق نہ ہوں! 
ہمارے ہاں ڈپریشن کی کئی اقسام ہیں جو چینلز کی مہربانی سے جنم لیتی ہیں اور انہی کی مہربانی سے ختم بھی ہو جاتی ہیں۔ آپ نے خود بھی محسوس کیا ہو گا کہ کبھی کبھی اصلی تے نسلی کامیڈی شو دیکھ کر شدید ڈپریشن پیدا ہو جاتا ہے جو اسی وقت جاتا ہے جب آپ پرائم ٹائم کا کوئی جدّی پشتی قسم کا سیاسی ٹاک شو دیکھیں! بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ اگر آپ تازہ ترین خبریں دیکھ کر شدید ڈپریشن میں مبتلا ہیں تو ہرگز نہ گھبرائیں بلکہ کسی بھی واقعے یا حادثے کی لائیو کوریج دیکھیں۔ ہم یقین دلاتے ہیں کہ اینکرز کی رننگ کمنٹری سُن کر آپ کا سارا ڈپریشن یوں اُڑن چُھو ہو جائے گا جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔ پس ثابت ہوا کہ ہمارے دکھ دینے والی چیزیں سکھ بھی دیتی ہیں۔ محمد رفیع مرحوم کی طرح گا گا کر فرمائش نہیں کرنا پڑتی ع 
تمہی نے درد دیا ہے، تمہی دوا دینا! 
ڈپریشن کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشان ہونا اور اس کے تدارک کے لیے نت نئے ڈھنگ سے تحقیق کا میلہ سجانا اہل مغرب کو مبارک ہو۔ ہم نے ڈپریشن کو کبھی گھاس ڈالی ہے نہ ڈالیں گے۔ کسی بھی معاملے میں ذرا سا ڈپریشن بھی نمودار ہو تو ہم لوہے کو لوہے سے کاٹنے والا فارمولا استعمال کرنے لگتے ہیں یعنی اپنے ڈپریشن کو کسی اور کے ڈپریشن سے ٹکرا کر دونوں کی موت کا اہتمام کرتے ہیں۔ 
آخر میں ایک اور کام کا نسخہ ہم آپ کو مفت فراہم کرتے ہیں۔ جب کبھی آپ کی سمجھ میں نہ آئے کہ ڈپریشن سے کس طور نجات حاصل کی جائے تو اس موضوع پر مغرب میں کی جانے والی مختلف ادوار کی تحقیق پڑھیے۔ ہمیں یقین ہے کہ ڈپریشن سے نجات پانے کے لیے پیش کی جانے والی اوٹ پٹانگ تجاویز پڑھ کر آپ کی ایسی ہنسی چُھوٹے گی کہ ہر طرح کا ڈپریشن آپ سے یوں دامن چھڑائے گا کہ پھر کبھی پاس آنے کا سوچے گا بھی نہیں! لیکن اس معاملے میں احتیاط لازم ہے۔ اگر آپ نے ڈپریشن سے متعلق مغربی تحقیق کچھ زیادہ پڑھ لی اور ہنسی قابو میں نہ آئی تو دماغ کی چُولیں ہل جائیں گی۔ ہمارے ہاں اب تک ماہرین یہ نہیں بتا سکے کہیں کہ بے لگام ہنسی پر کس طور قابو پایا جائے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں