نریندر مودی نے سوچا بھی نہ ہوگا کہ وزیر اعظم بننے کی خواہش نے ان کی آنکھوں میں جو سہانے سپنے سجائے تھے وہ آن کی آن میں ڈراؤنے خواب بن کر دل و دماغ کی رگوں سے خون نچوڑنا شروع کردیں گے۔ ہمیں 1960ء کے عشرے کی فلم ''تیسری قسم‘‘ کا ایک گانا یاد آرہا ہے جس کے بول تھے ع
مارے گئے گل فام!
ایک زمانے سے سنتے آئے تھے کہ بھارت چمک رہا ہے، دمک رہا ہے اور ترقی کی طرف تیزی سے لپک رہا ہے۔ کیا واقعی؟ اس میں تو خیر کوئی شک نہیں کہ جغرافیائی حجم اور آبادی کے تناسب و تنوع کی مدد سے بھارت نے اپنے لیے بہت سے امکانات پیدا کئے ہیں۔ دنیا بھر میں بھارت نالج ورکرز کام کر رہے ہیں اور اربوں ڈالر کا زر مبادلہ ہر ماہ وطن بھیج رہے ہیں جس کے نتیجے میں معیشت مستحکم ہوئی ہے۔ مگر صاحب، بھارت کا بھی وہی مخمصہ ہے جو مور کا ہے۔ ناچتے ناچتے مور اپنے پیروں کی طرف دیکھتا ہے تو رونے لگتا ہے۔ کمزوروں پر مظالم ڈھاکر ٹسوے بہانے والے بھارت کے لیے اب رونے کا وقت آگیا ہے۔
کہاں جدیدیت اور کہاں پانچ ہزار سال پرانی، سُکڑی اور چمڑی ہوئی ذہنیت؟ بات عجیب سہی مگر سچ ہے۔ نریندر مودی نے بھارت کو بدل دینے کا نعرہ لگایا اور عام انتخابات میں بھرپور کامیابی حاصل کی۔ اس عزم کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم بنے کہ ملک کی تقدیر بدل دیں گے۔ تقدیر تو وہ خیر کیا بدلتے، ہاں یاروں نے ان کا سیاسی مستقبل بدل ڈالا ہے۔ انتہا پسند ہندوؤں کی تنظیموں پر مبنی گروہ ''سنگھ پریوار‘‘ نے اپنا کھیل پھر شروع کردیا ہے۔
انتہا پسند ہندوؤں کے پاس ایشوز کی کمی نہیں۔ کسی بھی مسلمان پر گائے کا گوشت کھانے کا الزام لگائیے اور اُسے موت کے گھاٹ اتار کر ایشو کھڑا کردیجیے۔ دادری میں انڈین ایئر فورس کے ایک اہلکار کے والد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ اس کے بعد نچلی ذات کے ہندوؤں یعنی دلِتوں پر مظالم ڈھانے اور انہیں موت کے گھاٹ اتارنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ عیسائیوں پر تو پہلے ہی ہاتھ صاف کرلیا تھا۔ اب سِکھوں کی باری تھی۔ نئی دہلی کے نواح میں مقدس کتاب گرنتھ صاحب کی بے حرمتی نے سِکھوں کے جذبات بھی بھڑکا دیئے۔ اور اس کے بعد جو کچھ ہوا ہے اس پر قابو پانا کسی کے بس کی بات نہیں۔ سِکھوں نے لندن میں بھی مظاہرہ کر ڈالا ہے۔ یہ بھارت کے منہ پر کالک پوتنے جیسا ہی عمل ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے پورا ملک اقلیت دشمن رجحانات کی چھتری تلے آگیا ہے۔
ماہِ رواں کے اوائل میں ممبئی میں سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کی کتاب کی تقریبِ اجراء کے موقع پر کتاب کے بھارتی پبلشر کے منہ پر انتہا پسند ہندوؤں کی طرف سے کالک پوتے جانے سے اب بھارت کے سیکولر چہرے پر کالک مَلنے کا عمل ایسا شروع ہوا ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ انتہا پسند ہندوؤں کے جنون کا جن ایک بار پھر بوتل سے باہر آگیا ہے۔ اور جن کو دوبارہ بوتل میں کیسے بند کیا جائے؟ بوتل تو کہیں دکھائی ہی نہیں دے رہی! مودی پریشان ہیں کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔ راتوں رات سب کچھ خاک میں ملتا دکھائی دے رہا ہے۔ چمکتا دمکتا بھارت اچانک اندھیروں میں ڈوبتا محسوس ہو رہا ہے۔ کیوں؟ سیدھی سی بات ہے، جیسا کروگے ویسا بھروگے۔
بھارت نے کئی عشروں تک اپنے کمزور پڑوسیوں کو دبوچ کر رکھا ہے۔ نیپال اور سری لنکا سے اُس نے جو سلوک کیا ہے وہ کسی بھی اعتبار سے ڈھکا چُھپا نہیں۔ اور بنگلہ دیش؟ بنگلہ دیش کو تو اُس نے کہیں کا نہیں رہنے دیا۔ ایک پورا ملک بھارت کا محتاج اور حاشیہ بردار ہوکر رہ گیا ہے۔ مگر قدرت کے اپنے اصول اور قوانین ہیں۔ بھارت کے ظلم کا پہیّہ کب تک گھومتا رہتا؟ ایسا لگتا ہے کہ اب بھارت کے لیے بھگتان کا وقت آگیا ہے۔ بھارت میں مین اسٹریم کا میڈیا خواہ کچھ کہتا رہے، سوشل میڈیا نے ساری پول پٹی کھول کر رکھ دی ہے۔ فیس بک، ٹوئٹر اور دیگر سوشل ویب سائٹس پر مودی کی تذلیل کا سامان کیا جارہا ہے۔ عوامی لہجے میں کہیے تو اُن کی واٹ لگائی جارہی ہے۔
اشیائے خور و نوش مہنگی ہوتی جارہی ہیں۔ دال روٹی اور سبزی کھانا بھی اب عوام کے لیے انتہائی دشوار ہوتا جارہا ہے۔ دالیں اتنی مہنگی ہوگئی ہیں کہ مسلسل ہفتہ بھر دال پکائیے تو گھر کے بجٹ کا دلیہ بن جاتا ہے! آلو، پیاز، ٹماٹر اور دیگر سبزیوں کے نرخ اتنے بڑھ گئے ہیں کہ دکاندار سے نرخ پوچھنے والا شرمندہ ہو جاتا ہے اور اپنا سا منہ لے کر رہ جاتا ہے!
بھارت میں صفائی سُتھرائی کا معاملہ بہت پریشان کن ہے۔ دیہی علاقوں کا تو خیر مذکور ہی کیا ہے، شہروں میں بھی لاکھوں مکانات ٹوائلٹ سے محروم ہیں۔ کئی ریاستی حکومتوں نے گھروں میں ٹوائلیٹ بنانے کی تحریک دینے کے لیے خصوصی مہم چلا رکھی ہے۔ ٹوئٹر پر ایک تصویر خوب وائرل ہوئی ہے۔ گھر میں ٹوائلٹ بنانے کی تحریک دینے والی اداکارہ تبو سے ایک لڑکی کہہ رہی ہے : ''گوشت یہ لوگ کھانے نہیں دیتے اور دال سبزی کھانے کی ہماری اوقات نہیں رہی۔ گھر میں شوچالے (ٹوائلیٹ) بناکر کیا کریں گے دیدی!‘‘
بھارت کے عوام حیران ہیں کہ مودی سرکار ملک کو کہاں لے جائے گی جب اُس سے دال چاول اور سبزی کے دام کنٹرول نہیں ہو رہے! کچھ اضافہ تو خیر کیا کرنا تھا، ایک ذرا سی ارہر کی دال نے کھانے کی تھالی سے پاپڑ کو غائب کردیا ہے! ایک طرف تو بھارت کی چمک دمک داؤ پر لگی ہوئی ہے اور دوسری طرف نریندر مودی کو مست ماحول میں جینے سے فرصت نہیں۔
کمزور پڑوسیوں کے ہاں انتہا پسندی اور دہشت گردی کی جو آگ بھارت بھڑکاتا رہا ہے اس کے شعلے اب خود اس کے دامن تک آگئے ہیں۔ ملک بھر میں انتہا پسند ایک بار پھر بے لباس و بے لگام ہوگئے ہیں۔ ہندوؤں کے سوا کسی کو بھی برداشت نہ کرنے کا جنون پھر سَر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اقلیتوں پر حملوں کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کے بعد سِکھوں کو بھی نہ بخشنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہندو آج تک سِکھ مت کو ہندو دھرم کی ایک شاخ قرار دیتے ہیں اور سِکھوں کو اقلیت قرار دینے پر تُلے رہتے ہیں!
مودی سرکار نے امریکہ اور یورپ کو لُبھانے کی جتنی بھی کوششیں اب تک کی ہیں وہ ناکام رہی ہیں۔ برآمدات پانچ سال پہلے کی سطح پر جا گِری ہیں۔ سرمایہ کاری کا دائرہ سُکڑ رہا ہے۔ جُنونی ہندوؤں کے ہاتھوں میں مودی سرکار محض کھلونا بن کر رہ گئی ہے۔ بربادی دکھائی دے رہی ہے مگر مودی اور ان کے مصاحبوں میں اتنی ہمت نہیں کہ اس بربادی کی راہ میں دیوار بن کر کھڑے ہوں۔ ملک کو بدلنے کی بات کرنے والے مودی کے لیے اس سے بڑا ڈراؤنا خواب کیا ہوگا کہ سبزی اور دالوں کے نرخ بھی بے قابو ہیں۔ بڑی طاقت بننا تو بہت دور کی بات ہے، اب تو علاقائی طاقت کی حیثیت برقرار رکھنا بھی دشوار ہوچلا ہے۔ انتہا پسندی کی لہر پر سوار ہوکر نریندر مودی اپنی ٹیم کے ساتھ اقتدار میں تو آگئے ہیں مگر کریں گے کیا، یہ خود مودی سمیت کسی کو نہیں معلوم نہیں۔ گلشن کی تلاش ویرانے کی طرف لے آئی ہے۔ اور مودی چاہتے ہیں کہ ان کے دامن میں جو کانٹے ہیں اُنہی کو اہل وطن غنچہ و گل سمجھ کر قبول کرلیں۔ ایسا کہاں ہوتا ہے؟ مینڈیٹ ملا ہے تو کچھ کرکے بھی دکھانا ہے۔ نریندر مودی کے لیے یہ فیصلے کی گھڑی ہے۔ شو سینا اور بجرنگ دل جیسے اتحادیوں کو چھوڑنا یا قابو میں رکھنا ہے۔ اقلیت مخالف لہر نہ رکی تو مودی کا مستقبل آنے سے پہلے ماضی میں بدل جائے گا۔ یعنی مارے گئے گل فام۔