"MIK" (space) message & send to 7575

صرف سُونگھ کر …

آسٹریلیا کی جوئے میلن عجیب عورت ہے۔ عجیب یوں کہ اُس میں کسی کو سُونگھ کر بیماری بتانے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ مگر ابھی معاملہ زیادہ آگے نہیں بڑھا یعنی جوئے صرف رعشے کی بیماری (پارکنسنز ڈزیز) ہی کے بارے میں بتا سکتی ہے۔جوئے کے شوہر رعشے کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ اِس کا اندازہ جوئے نے بیماری کی علامات ظاہر ہونے سے چار پانچ سال قبل لگا لیا تھا۔ جوئے کا کہنا ہے کہ جس انسان میں رعشے کی بیماری پیدا ہونے والی ہوتی ہے اس کے جسم کی بُو تبدیل ہوجاتی ہے۔ جوئے نے اپنے شوہر کے جسم کی بُو میں تبدیلی محسوس کی تو انہیں چیک اپ کا مشورہ دیا۔ ڈاکٹرز نے جب چیک اپ کیا تو اندازہ ہوا کہ جوئے کے شوہر کے جسم میں غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جن کے نتیجے میں انہیں رعشے کا مرض لاحق ہوسکتا ہے۔ اور پھر یہ مرض اسے لاحق بھی ہوگیا! 
حکیم عارف عبداللہ کا شمار ہمارے ان دوستوں میں ہوتا ہے جن میں اعلیٰ درجے کی حکمت پائی جاتی ہے۔ پہلے ہم یہ سمجھے تھے کہ شاید حکیم صاحب نے معاشرے میں تیزی سے پھیلتے ہوئے شاعرانہ رجحان کو بیماری سمجھتے ہوئے مطب کھولا ہوگا! بعد میں اندازہ ہوا کہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ شاعری نے ان کی حکمت کا دماغ درست کیا ہے یعنی ذوقِ سخن رکھنے والوں میں باقاعدگی سے بیٹھنے کی ''بدولت‘‘ ان کی حکمت داؤ پر لگ گئی ہے! چلیے، اس میں قدرت کی مصلحت نمایاں ہے۔ اب اگر حکیم صاحب نے دوبارہ مطب کیا بھی تو مریض رحلت فرمانے کے لیے ادویہ کے محتاج نہیں ہوں گے۔ یہ کام اب حکیم صاحب اپنے اشعار کی مدد سے کیا کریں گے! عام سے کیس کے لیے دو تین قطعات کافی ہوں گے۔ زیادہ سخت جان مریض پر دو تین غزلیں آزمانا پڑیں گی اور اگر مریض خیر سے بہت ہی سخت جان ہوا تو ''زہرِ عشق‘‘ ٹائپ کی کوئی مثنوی بروئے کار لائی جائے گی! 
بات چلی تھی جسم کی بُو سُونگھ کر بیماری بتانے کی۔ جوئے میلن کی خصوصیت کا جب طبی ماہرین کو علم ہوا تو انہوں نے آزمائش کی۔ چند انتہائی ماہرانہ سوالوں کے بالکل درست جواب دے کر جوئے میلن نے ماہرین کو بھی ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ جب ہم نے حکیم عارف عبداللہ سے جوئے میلن کی خصوصیت کا ذکر کیا تو کچھ نہ بولے، بس ''زیرِ لب کے نیچے‘‘ مسکرانے لگے! ہم نے اس انوکھی مسکراہٹ کا سبب پوچھا تو بولے: ''بھائی صاحب، یہ بتائیے کہ کوئل اچھا کوکتی ہے تو اس میں اس کا کچھ کمال ہے۔ مور کے پَر اتنے خوبصورت ہوتے ہیں تو اُس کا کمال کہاں سے ہوا؟‘‘ 
ہم نے جب عرض کیا کہ بات سمجھ میں نہیں آئی تو حکیم صاحب نے سلسلۂ وضاحت آگے بڑھایا : ''اِس میں سمجھ میں نہ آنے والی کون سی بات ہے۔ آسٹریلیا کی جن محترمہ کا آپ ذکر فرما رہے ہیں وہ اگر بُو سُونگھ کر بیماری کی نشاندہی کر رہی ہیں تو کوئی تیر نہیں مار رہیں۔ اللہ نے یہ خصوصیت بیشتر اور تقریباً تمام شادی شدہ خواتین کو ودیعت کی ہے!‘‘ 
حکیم صاحب کی بات سُن کر ہمارا دماغ چکراگیا۔ چند لمحات تک تو کچھ بھی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا فرما رہے ہیں۔ گمان گزرا کہ شاید انہوں نے اپنے ہی مطب کی تیار کی ہوئی کوئی دوا پھانک لی جس کے نتیجے میں ہذیانی کیفیت دل و دماغ پر سوار ہوگئی ہے! ہم نے ایک بار پھر حکیم صاحب سے استدعا کی کہ اس تازہ ترین نکتہ سنجی کا مفہوم بھی گوش گزار کیجیے۔ حکیم صاحب نے فاتحانہ نظروں سے ہمیں دیکھا اور کرم فرمائی کے انداز سے لب کُشا ہوئے : ''بات یہ ہے جناب کہ ہر شادی شدہ عورت کو قدرت کی طرف سے ملنے والے وقت کا اچھا خاصا حصہ ایسی ویسی باتوں کی بُو سُونگھنے پر صرف ہوتا ہے۔ شادی شدہ عورت روزانہ شوہر کے کپڑوں کو سُونگھ کر اطمینان کرتی ہے کہ کسی کلموہی کے پاس سے تو جانا نہیں ہوا تھا! اگر کوئی دوست سرِ راہ کوئی خوشبو لگادے تو بے چارے مرد کو گھر پہنچنے کے بعد بہت دیر تک دلائل دے کر بیوی کو اطمینان دلانا پڑتا ہے کہ خوشبو ''لگانے والا‘‘ ملا تھا، ''لگانے والی‘‘ نہیں! جوئے میلن صاحبہ نے شوہر کے جسم کی بُو سُونگھ کر اگر رعشے کی بیماری کا اندازہ لگالیا تو کیا کمال کیا؟ بے چارے شوہر کو رعشے کی منزل تک پہنچانا بھی تو اِنہی محترمہ کا کمالِ فن تھا!‘‘ 
ہم نے حکیم صاحب سے دریافت کیا کہ مریض کے جسم کی بُو سُونگھ کر بیماری بیان کرنے کا فن آتا ہے تو تنک کر بولے: ''ہم کوئی بیوی ہیں جو یہ کام کریں؟ جن کا یہ کام ہے وہ شوق سے کریں، کسی نے روکا تھوڑی ہے۔‘‘ ہم نے عرض کیا کہ گزرے وقتوں میں مطب کرنے والوں کے حوالے سے طرح طرح کے فسانے سننے کو ملے ہیں۔ مثلاً ایک حکیم صاحب کے بارے میں مشہور ہے کہ مستورات کی کلائی سے بندھے ہوئے دھاگے کا دوسرا سِرا چُھوکر بیماری اور اس کی مختلف کیفیات بیان کرنے کی اہلیت رکھتے تھے۔ آپ نے اپنے اندر ایسا کوئی کمال پیدا کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ 
حکیم عارف عبداللہ کچھ سوچ میں پڑگئے۔ پھر وہی ہوا جو شروع میں ہوا تھا یعنی من ہی من مسکرانے لگے۔ اس سے پہلے کہ ہم ان کی ذہنی حالت کے بارے میں کوئی ایسا ویسا گمان کر بیٹھتے، حکیم صاحب نے وضاحت بدوش لہجے میں کہا : ''ہم نے جب حکمت کی دنیا میں قدم رکھا تھا تو حاذق طبیب بننے کے خواب دیکھے تھے۔ افسانوی شہرت رکھنے والے حکماء کے قصے سن کر ہم میں بھی خواہش پیدا ہوئی تھی کہ حکمت کی دنیا میں نام پیدا کریں۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ کوئی عجیب و غریب مہارت پیدا کی جائے۔‘‘ 
ہم نے پوچھا پھر آپ نے اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے کیا کیا؟ کوئی خصوصی مہارت پیدا کی۔ حکیم صاحب بولے : ''ایک مہارت تو یہی ہے کہ نُسخے لکھتے لکھتے اور ادویہ کی پُڑیا بناتے بناتے کوچۂ سُخن کی طرف آ نکلے ہیں!‘‘ 
ہم نے دست بستہ عرض کیا کہ تفنّن برطرف، ذرا سنجیدہ ہوجائیے اور کھل کر بتائیے کہ کوئی عجیب الطرفین قسم کی مہارت پیدا کرنے کا معاملہ کیا ہوا۔ ہمیں سنجیدہ دیکھ کر حکیم صاحب بھی سنجیدہ ہوگئے اور کہا : ''معاملہ یہ ہے جناب کہ ہماری قوتِ شامّہ تیز تھی۔ ہم ادویہ کو سُونگھ کر بتادیا کرتے تھے کہ اُس میں مطلوبہ خواص ہیں یا نہیں۔ اِسی طور دستر خوان پر بھری ہوئی پلیٹ سُونگھ کر سب سے پہلے بتا دیتے تھے کہ کھانا 'قابلِ کھا‘ ہے یا نہیں۔ ایک دن ہم نے کسی تقریب میں جب سُونگھ کر بتایا کہ کھانا خراب ہوچکا ہے تو ایک صاحب نے برجستہ کہا آپ کو تو ایئر پورٹ پر جاب مل سکتی ہے! بس، اُس دن کے بعد سے ہم نے سُونگھ کر بیماری بتانے کا فن سیکھنے کی خواہش کو خیرباد کہہ دیا!‘‘ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں