"MIK" (space) message & send to 7575

نہ ستائش کی تمنّا، نہ صِلے کی پروا

مہیندر میگھانی 92 سال کے ہیں۔ اور اِس عمر میں بھی متحرک ہیں، یومیہ معمولات ترک نہیں کیے یعنی پڑھنا پڑھانا جاری ہے۔ زندگی علم سے دوستی میں گزری ہے اور اِس راہ پر سفر کے دوران دوستوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا گیا ہے۔ حق تو یہ ہے کہ دوستوں سے زیادہ تعداد چاہنے والوں کی ہے۔ 
اب ذرا مہیندر میگھانی کا تعارف بھی ہوجائے۔ وہ گجراتی زبان کے معروف شاعر اور مصنف زویر چند میگھانی کے صاحبزادے ہیں۔ پیدائش 1923 ء کی ہے۔ زویر چند میگھانی کا شمار گاندھی جی کے سخت جان قسم کے جاں نثاروں میں ہوتا ہے۔ زویر چند میگھانی کو گاندھی جی نے بھرے جلسے میں ''قومی شاعر‘‘ کا لقب عنایت کیا تھا۔ وہ زندگی بھر عدم تشدد کے فلسفے پر کاربند رہے اور اخلاقِ عامہ درست کرنے پر انتہا سے زیادہ توجہ دی۔ قدرت نے یہی وصف مہیندر میگھانی کو بھی ودیعت کیا۔ 
مہیندر میگھانی بھارت کی مغربی ریاست گجرات کے شہر بھاؤ نگر میں رہتے ہیں۔ اِسی شہر میں ان کا قائم کردہ اشاعتی ادارہ ''لوک ملاپ ٹرسٹ‘‘ بھی ہے جس کے تحت کتب فروشی کی ایک دکان بھی چلائی جارہی ہے۔ مہیندر میگھانی لوک ملاپ ٹرسٹ کے روح و رواں رہے ہیں۔ اب مشعل ان کے صاحبزادے گوپال میگھانی نے تھامی ہوئی ہے۔ گوپال میگھانی کی عمر بھی ڈھلوان پر ہے مگر علم دوستی کی طرح جوش و جذبے میں وہ بھی والد کے نقوشِ قدم پر چل رہے ہیں۔ 
مہیندر میگھانی کی زندگی علم اور انسان سے محبت عام کرنے میں گزری ہے۔ 1947 ء میں زویر چند میگھانی کے انتقال کے بعد مہیندر میگھانی کے کاندھوں پر گھر چلانے کی بھاری ذمہ داری آن پڑی۔ انہوں نے صحافت کو زندگی بھر کے لیے اوڑھنا بچھونا بنانے کا فیصلہ کیا۔ اسی دوران 1948 ء میں وہ نیو یارک کی کولمبیا یونیورسٹی سے وابستہ ہوئے اور صحافت، ذرائع ابلاغ اور نشر و اشاعت سے متعلق اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ 1949 ء میں وطن واپس آئے اور صحافت سے پھر عملی وابستگی اختیار کی۔ 26 جنوری ء 1959 کو ماہنامہ ''ملاپ‘‘ جاری کیا جس نے ایک انوکھی روایت کو جنم دیا۔ ریڈرز ڈائجسٹ کی طرز پر اس جریدے میں گجراتی زبان کی بہترین تحریروں اور شعری تخلیقات کا انتخاب شائع کیا جاتا تھا۔ قارئین کو ایک ہی جریدے میں اتنا تنوّع ملتا تھا کہ وہ جریدے کی کاپی تھامتے ہی جھوم اٹھتے تھے۔ گجراتی زبان کے نامور ادیب ماہنامہ ملاپ میں اپنی تخلیق کی اشاعت کو ذریعۂ افتخار گردانا کرتے تھے۔ 
زمانہ بدلا تو لوگوں کے رجحانات بھی تبدیل ہوئے۔ بدلتے ہوئے زمانے میں ماہنامہ ملاپ کے لیے زندہ رہنا دشوار تر ہوتا گیا۔ اور پھر اس جریدے کی تیاری کے لیے جس قدر محنت درکار تھی وہ ہر کسی کے بس کی بات نہ تھی۔ جب تک مہیندر میگھانی کے ذہن اور ہاتھوں میں جان تھی، وہ یہ کام کرتے رہے۔ مگر پھر ان کی ہمت بھی جواب دے گئی اور 1978 ء میں ماہنامہ ملاپ بند ہوگیا۔ 
ماہنامہ ملاپ کے بند ہونے پر مہیندر میگھانی اور ان کے اہل خانہ نے پوری توجہ لوک ملاپ ٹرسٹ کے تحت کم قیمت کی معیاری کتب کی اشاعت اور ایک کتب فروشی کا ایک معیاری مرکز چلانے پر مرکوز کردی۔ مہیندر میگھانی نے گجراتی کے مصنفین اور شعراء کی تخلیقات کو اس طور شائع کرنا شروع کیا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ انہیں پڑھ سکیں۔ بیشتر کتب کی قیمت اتنی کم رکھی گئی کہ لوک ملاپ ٹرسٹ کی شائع کردہ کتب گھر گھر پہنچنے لگیں اور جن لوگوں میں مطالعے کا رجحان برائے نام تھا وہ بھی کچھ نہ کچھ پڑھتے رہنے کی طرف مائل ہوئے۔ 
چار پانچ سال قبل ایک صاحب احمد آباد سے آئے تو میرے لیے ایک کتاب لائے جو مہیندر میگھانی کی ترتیب دی ہوئی تھی۔ کتاب گجراتی زبان میں تھی جس کا نام تھا ''اردھی صدی نی واچن یاترا‘‘ یعنی نصف صدی پر مشتمل سفرِ مطالعہ۔ مہیندر میگھانی نے نصف صدی کے دوران جو کچھ پڑھا تھا اس کا حاصل یعنی انتخاب اس کتاب کے ذریعے اپنے چاہنے والوں کو دیا۔ یہ انتخاب اتنا عمدہ تھا کہ میں مہیندر میگھانی کی عظمت کا قائل ہوگیا۔ اس ایک کتاب سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کتب کی تیاری میں کس قدر عرق ریزی کرتے رہے ہیں۔ مجھے جو حاصل ہوا وہ ''اردھی صدی نی واچن یاترا‘‘ کی پہلی جلد تھی۔ بعد میں مزید تین جلدیں شائع ہوئیں۔ اِسی طور مہیندر میگھانی نے ماہنامہ ملاپ کی فائلوں سے ایک ایک عشرے کے انتخاب پر مبنی کئی جلدیں شائع کی ہیں۔ گجراتی زبان کے نامور ادیبوں اور شعراء کی کاوشوں کا بہترین انتخاب بھی لوک ملاپ ٹرسٹ کے تحت شائع ہوتا رہا ہے۔ 
مرکزی نکتہ یہ ہے کہ لوگوں کو بہت کچھ پڑھنے کو ملے یعنی تنوّع کے ساتھ اور وہ بھی کم قیمت میں۔ بیشتر کتب بیس پچیس روپے تک کی ہیں۔ مجھے ''اردھی صدی نی واچن یاترا‘‘ کی جو جلد عنایت کی گئی تھی اس کے صفحات 656 تھے اور قیمت؟ صرف پچھتر روپے! فونٹ بھی چھوٹا تھا یعنی 656 صفحات میں دراصل کم از کم 900 صفحات کا مواد سمویا گیا تھا! بتانے والی بات یہ ہے کہ نصف صدی کے دوران گجراتی زبان کے معروف اور کم معروف مصنفین اور شعراء کی تخلیقات پر مشتمل ان چار جلدوں کی اب تک ڈیڑھ لاکھ کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں اور وہ بھی حیرت انگیز حد تک کم قیمت پر! 
لوک ملاپ ٹرسٹ کے تحت عوام کے لیے شائع کی جانے والی دیگر سستی کتب کی بھی لاکھوں کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔ مہیندر میگھانی اور ان کا خاندان گجراتی معاشرے اور زبان کی لازوال خدمت انجام دے رہا ہے۔ اور ہاں، معاشرے میں ہم آہنگی پیدا کرنا اور مختلف طبقات کو ایک دوسرے کے قریب لاکر زیادہ قابل قبول بنانا اس کتاب دوست گھرانے کا مرکزی مطمحِ نظر رہا ہے۔ ان کی شائع کی ہوئی تقریباً سبھی کتابیں انسان دوستی کا درس دیتی اور اعلیٰ ترین تہذیبی اقدار کا پرچم بلند کرتی ہیں۔ 
پاکستانی معاشرہ اتنی تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے کہ ہر رجحان کچھ کا کچھ ہوتا جارہا ہے۔ مطالعے کے رجحان کا بُرا ہی حال ہے۔ یہ رجحان ویسے ہی کم تھا، اب الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا اور ایس ایم ایس کلچر در آنے سے یوں سمجھیے کہ تابوت میں آخری کیل ٹھونکے جانے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ سستی کتب شائع کرنے والے ناشر تھے جو عوام کے مفاد کا خاص خیال رکھتے تھے۔ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ قارئین کو مشہور ملکی اور غیر ملکی ادیبوں کی کتب معمولی قیمت پر فراہم کی جائیں۔ اس دور میں میری لائبریری اور اسی قبیل کے چند دوسرے اداروں نے ہندی، فارسی، انگریزی، فرانسیسی، اطالوی، جرمن اور دیگر زبانوں کی تخلیقات کے تراجم کی برائے نام قیمت پر عوام تک رسائی ممکن بنائی۔ آج پھر ایسے ناشروں کی ضرورت ہے۔ عوام بہت کچھ پڑھنا چاہتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر میسر بیشتر مواد انگریزی اور دیگر غیر ملکی زبانوں میں ہے۔ ہمارے ہاں لوگ معیاری کتب خریدنے کو تیار ہیں اگر وہ بر وقت شائع کی جائیں اور قیمت اتنی ہو کہ ان کا بجٹ متاثر نہ ہوتا ہو۔ 
کتب کی اشاعت بنیادی طور پر مشن ہے۔ عوام کا مفاد اس میں ہے کہ مہیندر میگھانی کا سا جذبہ لے کر لوگ میدان میں اتریں۔ ملک بھر میں کتب فروشی کی ایسی دکانیں ہونی چاہئیں جو معیاری کتب عوام تک پہنچانے کے عزم پر کاربند ہوں۔ 
گزشتہ دنوں گوپال میگھانی سے ٹیلی فون پر بات ہوئی تو ان کی زبانی یہ جان کر انتہائی خوش گوار حیرت ہوئی کہ ان کے والد 92 سال کی عمر میں بھی بستر پر لیٹ کر وقت نہیں گزار رہے۔ سال میں چند ماہ احمد آباد میں بیٹی کے ہاں گزارتے ہیں، پھر کچھ دن امریکا میں رہ کر بھاؤ نگر واپس آتے ہیں۔ اور بھاؤ نگر میں بھی مہیندر میگھانی آرام سے نہیں بیٹھتے بلکہ کچھ نہ کچھ سوچتے اور لکھتے ہی رہتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ مشوروں سے بھی نوازتے ہیں۔ اور یہ ساری مشقّت یوں ہے کہ ستائش کی تمنّا ہے نہ صِلے کی پروا۔ اور جب عوام سے محبت مل گئی تو اور کون سا صِلہ، کہاں کا صِلہ؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں