"MIK" (space) message & send to 7575

ووٹ بینک کی سیاست … کب تک؟

ایک زمانے سے یہی ہوتا آیا ہے کہ جب بھی بھارت میں عام یا ریاستی انتخابات نزدیک آتے ہیں، معاشرہ تحمل اور رواداری سے دور ہو جاتا ہے۔ انتہا پسند ہندو اپنا ووٹ بینک مضبوط کرنے کے لیے چند روایتی ایشو کھڑے کرتے ہیں اور قوم کو ڈراکر اپنے ووٹ پکے کرتے ہیں۔ انتہا پسند ہندو اپنے ہم مذہب افراد کو مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کا ہوّا دکھاکر یوں ڈراتے ہیں گویا ہندوستان پر مسلمانوں یا عیسائیوں کا قبضہ ہونے ہی والا ہے! 
گائے کا ایشو بھی کیا ایشو ہے کہ پانچ ہزار سال سے چلا آرہا ہے اور کمزور پڑنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ مسلمانوں پر الزام ہے کہ گائے کا گوشت کھانے سے باز نہیں آتے۔ اور دوسری طرف جنونی ہندو ہیں کہ گائے کھانے کے نام پر مسلمانوں کو کاٹ ڈالنے سے اجتناب برتنے کو تیار نہیں۔ مسلمان تو گائے کیا قربان کریں گے، ہاں گائے کا تقدس بچانے کے نام پر کی جانے والی سیاست کے استھان پر مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو ذبح کرنے کا سلسلہ ضروری جاری ہے۔ 
اکیسویں صدی کا بھارت اب تک کیا کھانا چاہیے اور کیا نہیں کھانا چاہیے کے چکر میں الجھا ہوا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہندوؤں کے مقدس صحیفے وید اور پُران ساڑھے تین چار ہزار سال پرانے ہیں۔ مگر یہ پُرانے کہاں سے ہوگئے؟ جو ماحول ان صحیفوں میں پایا جاتا ہے وہ تو آج بھی بھارتی معاشرے کا حصہ ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے صرف اچھوتوں اور دلتوں کو نیچ سمجھا جاتا تھا، اب اس درجہ بندی میں مسلمان، عیسائی اور دیگر غیر مسلم بھی شامل ہوگئے ہیں۔ نفرت کی جو لہر پہلے بھی بھارت کا بہت کچھ بہا لے جاتی رہی ہے وہی لہر اب پھر بہت کچھ بہا لے جانے کو بے تاب ہے۔ بات گائے سے شروع ہوکر گائے پر ختم ہو رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بھارت کے تمام مسائل حل ہوگئے ہیں اور اب صرف گائے کی عزت اور جان بچانے کا مسئلہ رہ گیا ہے اور اس نکتے پر ملک بھر کے ہندوؤں کو ایک ہونا ہے! 
کئی عشروں سے انتہا پسند ہندو مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں سے ڈراکر عام ہندو کو اپنی جیب میں رکھتے آئے ہیں۔ اقلیتوں کو کھلے دل سے قبول نہ کرنا بھارتی معاشرے کا ایک نمایاں وصف ہوکر رہ گیا ہے۔ عام ہندو کو ہر وقت اس خوف میں مبتلا رکھا جاتا ہے کہ اقلیتوں کو کنٹرول نہ کیا گیا تو وہ ملک پر قابض ہو بیٹھیں گی۔ اقلیتوں کو حب الوطنی بار بار ثابت کرنا پڑتی ہے۔ منافرت کے الاؤ میں بہت کچھ بھسم ہوکر رہ گیا ہے۔ 
ویسے تو خیر پورے ''سنگھ پریوار‘‘ سمیت تمام ہی جنونی ہندو مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف ہیں تاہم شیو سینا اس معاملے میں بہت نمایاں ہے۔ وہ کچھ بھی سننے اور سمجھنے کو تیار نہیں۔ اُسے صرف اپنا ووٹ بینک بچانے اور مزید توانا کرنے کی فکر لاحق رہتی ہے۔ اب اگر اس کوشش میں ملک کی سلامتی، استحکام اور ترقی سمیت سبھی کچھ داؤ پر لگتا ہے تو لگتا رہے۔ اس کی بلا جانے۔ شیو سینا کو اس بات سے بھی کچھ غرض نہیں کہ معاشرہ مزید منقسم ہوتا رہے۔ 
پاکستان اور پاکستانیوں کے خلاف مورچہ لگائی ہوئی شیو سینا کے نمبر بنتے دیکھ کر اب بھارتیہ جنتا پارٹی بھی میدان میں آگئی ہے۔ بہار اسمبلی کے انتخابات میں نتائج کو اپنے حق میں کرنے کے لیے بی جے پی نے ایک متنازع اشتہار اخبارات میں شائع کرایا ہے جس میں ایک خاتون کو گائے کے بچھڑے سے پیار کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اس اشتہار میں بہار حکومت کو غیرت دلائی گئی ہے کہ اس کے اتحادی گائے کا گوشت کھانے کے حق میں بیانات داغ رہے ہیں اور وہ محض تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اشتہار میں لالو پرساد یادو، رگھو ونش پرساد سنگھ اور سِدّھا رمیّا کے بیانات کا حوالہ دیا گیا ہے جنہوں نے کہا ہے کہ بھارت میں ہندو بھی گائے کا گوشت کھاتے ہیں اور یہ کہ ہندوؤں کے مقدس ترین صحیفوں میں لکھا ہے کہ رشی اور مُنی بھی گائے کے گوشت سے اپنے پیٹ کی آگ بجھایا کرتے تھے! ایسے بیانات کے آئینے میں اپنے چہرے دیکھنا شیو سینا کو پسند ہے نہ بی جے پی کو۔ 
اشتہار کے آخر میں لکھا گیا ہے کہ جواب نہیں تو ووٹ نہیں یعنی عوام کو اس بات پر اکسایا گیا ہے کہ اگر اس اشتہار کے جواب میں ریاستی حکومت خاموشی اختیار کرے تو اسے ووٹ نہ دیا جائے! انتخابی مہم کے آخری لمحات میں منافرت پھیلانے کی اس کوشش کا الیکشن کمیشن نے نوٹس لیا ہے اور اشتہار دینے اور شائع کرنے والوں کو طلب کرلیا ہے۔ 
شیو سینا بہت خوش ہے کہ پاکستان نے عالمی برادری سے بھارت میں انتہا پسندی کا نوٹس لینے اور شیو سینا کی سرگرمیوں کا محاسبہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ پارٹی کے ترجمان اخبار ''سامنا‘‘ نے ایک اداریے میں لکھا ہے کہ پاکستان کا شیو سینا کو اپنے دشمنوں میں شمار کرنا اُس (شیو سینا) کے لیے حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ سے کم نہیں! ساتھ ہی ساتھ اداریے میں اُن کارکنوں کو بھی خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے جنہوں نے ممبئی میں غلام علی کا کنسرٹ منسوخ کرایا اور نئی دہلی میں پاک بھارت کرکٹ مذاکرات کی راہ مسدود کردی! اداریے میں اس بات پر فخر کا اظہار کیا گیا ہے کہ ملک میں پاکستانیوں کی راہ روکنے کی صلاحیت صرف شیو سینا میں ہے! 
نریندر مودی کو اس بات پر فخر ہے کہ ان کے والد کا ایک ریلوے اسٹیشن پر چائے کا کھوکھا (کیبن) تھا اور یہ کہ انہوں (نریندر مودی) نے زندگی بھر محنت کرکے سیاست میں یہ سب کچھ پایا ہے۔ محنت کرکے اپنی حیثیت بلند کرنا اچھی بات ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ نریندر مودی کے ذہن سے چائے کا کھوکھا اب تک نکلا نہیں۔ ان کی مہربانی سے اب بھارتی سیاست چائے کے کھوکھے کا منظر پیش کر رہی ہے۔ شیو سینا اور بھی جے پی دونوں ہی بھارتی سیاست کے ریلوے اسٹیشن پر اپنی مرضی کی ٹرین رکوانا چاہتی ہیں اور نریندر مودی خاموشی سے یہ تماشا دیکھ رہے ہیں۔ 
بھارت کے لیے فیصلے کی گھڑی آچکی ہے۔ پورا خطہ بہت تیزی سے بدل رہا ہے۔ یوریشین یونین کے پلیٹ فارم سے روس اور جنوب مشرقی ایشیا کی طرف سے چین بہتر معاشی اور اسٹریٹجک امکانات کے لیے پاکستان کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ امریکہ اور یورپ کے لیے ایسے میں اس کے سوا بظاہر کوئی آپشن نہیں بچا کہ بھارت کو استعمال کرکے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار رکھے۔ بھارتی قیادت کو سوچنا ہوگا کہ ایسا کب تک چلے گا۔ ایک طرف تو بھارتی حکومت پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار رکھنا چاہتی ہے اور دوسری طرف بھارت میں جنونی ہندو محض ووٹ بینک برقرار رکھنے کے لیے ملک کے وجود ہی کو داؤ پر لگانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ یہ سب کچھ نریندر مودی کے خوابوں کے مطابق تو نہیں۔ وہ ملک کے لیڈر بننا چاہتے تھے۔ وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد وہ قوم کے لیڈر کی مسند پر بھی بیٹھ گئے ہیں۔ مگر محض اتنا ہی تو کافی نہیں۔ ایک طرف جنونی ہندو پورے ملک کو داؤ پر لگانے کی تیاری کر رہے ہیں اور دوسری طرف بھارتی قیادت مغربی طاقتوں کے ہاتھوں میں کھلونا بننے کے لیے بے تاب ہے۔ نئی دہلی کو یہ بات جلد از جلد سمجھنا ہوگی کہ اب کوئی معاملہ اندرونی معاملہ نہیں ہوتا۔ بھارت میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا اثر پورے خطے اور بالخصوص پاکستان پر بھی مرتب ہوتا ہے۔ جو کچھ بھارت میں ہو رہا ہے اس سے پاکستان لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ اور لاتعلق رہنا بھی نہیں چاہیے۔ خطے کے بہتر معاشی امکانات میں بھارت کا حصہ بھی ہے۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ نریندر مودی کو جنونی ہندوؤں نے گھیر لیا ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو سمجھ لیجیے بدنصیبی نے بھارت کو نرغے میں لے لیا ہے۔ 
چائے کے کیبن سے اٹھ کر وزیر اعظم ہاؤس تک پہنچنے کی ہمت جس نے اپنے اندر پیدا کی اب اسے ملک کو بچانے کی خاطر جنونی ہندوؤں سے نمٹنے کا ہنر بھی سیکھنا پڑے گا۔ اور یہ ہنر جس قدر جلد سیکھ لیا جائے اتنا ہی اچھا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں