"MIK" (space) message & send to 7575

’’تخلیقی‘‘ جوہر سے ذرا بچ کے!

نفسیاتی پیچیدگیوں کے ماہرین جو کچھ کر دکھاتے ہیں اس پر اگر غور کیجیے تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ کسی بھی طور جادوگروں سے کم نہیں۔ کسی میں جو ذہنی پیچیدگی پائی ہی نہیں جاتی اسے بھی وہ ذہن کے کسی دور افتادہ کونے سے گھسیٹ کر باہر لے آتے ہیں۔ گویا رومال سے انڈا یا ٹوپی سے چوزہ برآمد کرنا ان کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ 
ہر انسان زیادہ سے زیادہ آسانیاں چاہتا ہے اور اس کے لیے وہ بڑی سے بڑی مشکل بھی جھیل جاتا ہے! یہی حال ایمان داری اور بے ایمانی کا ہے۔ ایمان داری کی راہ پر گامزن ہونے سے بچنے کے لیے لوگ بے ایمانی کے راستے پر چلنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے! بہت سوں کا تو یہ حال ہے کہ اگر کسی محفل میں ان کے دیانت دار ہونے کا ذکر کیجیے تو عجیب نظروں سے گھورتے ہوئے بُرا مان بیٹھتے ہیں! گویا اب دیانت دار قرار دیا جانا کسی طرح کی ''ڈِس کوالیفکیشن‘‘ ہے! 
اور کم و بیش یہی کیفیت تخلیقی صلاحت کو پروان چڑھانے اور بروئے کار لانے سے بچنے کی بھی ہے۔ لوگ زندگی بھر تخلیقی صلاحیت کو پروان چڑھانے سے بچنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اس دنیا میں تخلیقی جوہر رکھنے والوں کو ہر دور میں شدید مشکلات سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ زندگی شدید آزمائش کی سی حالت میں گزرتی ہے۔ ان کا انجام دیکھ کر لوگ عمومی سطح پر تخلیقی کام کرنے سے گریزاں رہتے ہیں اور کبھی کبھی تو بچنے کی بھرپور کوشش بھی کرتے ہیں! اگر کسی سے کہیے کہ اس میں تخلیقی صلاحیت پائی جاتی ہے تو وہ عجیب نظروں سے گھورنے لگتا ہے۔ 
اب ماہرین نے ذہن کے کباڑ خانے میں کسی دور افتادہ کونے سے ایسا آئٹم نکالا ہے کہ جو سُنے گا عش عش کر اٹھے گا۔ ماہرین نفسیات دور کی، بلکہ بہت دور کی کوڑی لائے ہیں کہ تخلیقی صلاحیت انسان کو دیانت سے محروم کردیتی ہے یعنی وہ جھوٹ بولنے اور ریا کاری کا مظاہرہ کرنے کا عادی ہو جاتا ہے! امریکہ کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی اور سائراکیوز یونیورسٹی کے ماہرین نے اس کی توضیح یوں کی ہے کہ تخلیقی جوہر کو پروان چڑھانے والوں میں استحقاق پسندی جنم لیتی ہے۔ یعنی وہ اپنے بارے میں جھوٹ بولنے اور ریا کاری کا مظاہرہ کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ ضمنی توضیح یہ ہے کہ تخلیقی صلاحیتوں کے حامل افراد جب معاشرے میں ہر طرف نہایت عمومی سوچ کارفرما دیکھتے ہیں تو خود کو کچھ خاص سمجھنے لگتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ لوگ انہیں زیادہ اہمیت دیں۔ لوگوں کی زیادہ سے زیادہ توجہ پانے کے لیے وہ جھوٹ بولنے کو بھی مفید اور ناگزیر سمجھنے لگتے ہیں۔ ماہرین تو یہاں تک کہہ گئے ہیں کہ تخلیقی سوچ اور جھوٹ ایک ہی سِکّے کے دو رخ ہیں! 
گزشتہ برس بھی کچھ ایسی ہی بات ہارورڈ بزنس اسکول نے بتائی تھی۔ اس ادارے نے تحقیق کے ذریعے انکشاف کیا تھا کہ تخلیقی صلاحیت کے حامل 60 فیصد سے زائد افراد اپنے تجربات اور عمومی کارکردگی کے بارے میں صریح جھوٹ بولنے کے عادی ہوتے ہیں! 
کون چاہتا ہے کہ اسے کے بارے میں یہ تاثر پھیلے کہ وہ بے دیانت ہے؟ جو زمانے بھر کی بے ایمانی اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں وہ بھی یہ بات ہرگز پسند نہیں کریں گے کہ کوئی انہیں بے ایمان سمجھے۔ یہ ہوتا ہے دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنے کا ہنر۔ ماہرین نفسیات جانتے ہیں کہ لوگ تخلیقی صلاحیت سے دور بھی بھاگتے ہیں اور اس پر شرمندگی بھی محسوس کرتے ہیں۔ تو کیوں نہ لوگوں کو ایسی بات بتائی جائے جس سے ان کے دل کا بوجھ کم ہو اور وہ اپنے آپ سے شرمندہ نہ رہیں۔ اِسے کہتے ہیں ایک تیر میں دو نشانے لگانا۔ یعنی تخلیقی صلاحیت سے دور رہنے کا مشورہ بھی دے دیا اور دوسری طرف اس سے پیدا ہونے والی شرمندگی سے بھی بچالیا! 
آج ہمارے معاشرے کو ایسے ہی ماہرین نفسیات کی ضرورت ہے جو لوگوں کو زیادہ سے زیادہ آسانیاں فراہم کریں اور اس کے نتیجے میں دلوں میں پیدا ہونے والے احساسِ جرم یا شرمندگی سے بچانے کی راہ بھی سُجھائیں۔ سبھی آسانیاں چاہتے ہیں مگر مشکل یہ ہے کہ محنت نہ کرنے پر دل اندر ہی اندر دکھتا رہتا ہے اور ضمیر کچوکے لگا لگاکر آسانیوں سے پیدا ہونے والا سارا مزا کِرکِرا کردیتا ہے! ہمیں ایسے ماہرین نفسیات کی اشد ضرورت ہے جو ضمیر کو کسی نہ کسی طور سُلانے یا غنودگی کی حالت میں رکھنے کا فن جانتے ہوں اور منہ کا مزا خراب کرنے والی باتوں سے ہمیں محفوظ رکھیں! 
ویسے ماہرین نے اس نکتے پر غور نہیں کیا کہ تخلیقی صلاحیت کے بارے میں جھوٹ بولنے سے بڑھ کر بھی ایک مقام ہے اور وہ ہے جھوٹ ہی کو تخلیق کا درجہ دے دینا! پس ماندہ اور ترقی پذیر ممالک کے سیاست دانوں نے اس فن کو خوب پروان چڑھایا ہے۔ اور ہم بھی خیر سے پس ماندہ ہی ہیں تو اس صلاحیت کا ہمارے سیاست دانوں میں پایا جانا ناگزیر ہے۔ یہی صلاحیت معاشرے میں یوں عام ہوئی جارہی ہے کہ لوگ کچھ کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں سوچنے پر وقت زحمت ضائع کرنے کی بجائے اب جھوٹ کی دُم پکڑ کر آگے بڑھنے کو ترجیح دے رہے ہیں! وہ زمانے ہوا ہوئے جب جھوٹ کو ایک عیب جان کر شرمندہ ہوا جاتا تھا۔ اب جھوٹ بولنا اور لکھنا بیک وقت انگریزی اور اردو دونوں زبانوں کا ''فن‘‘ ہے! 
ماہرین کے لیے تخلیقی صلاحیت اور جھوٹ بولنے کو ایک ہی سِکّے کے دو رخ قرار دینا شاید ہمارے بہت سے سیاست دانوں اور بعض نام نہاد لکھاریوں ہی کو دیکھ کر ممکن ہوا ہوگا! مغربی دنیا میں فکشن بھی بہت حد تک حقائق ہی پر مبنی ہوتا ہے۔ بہت کچھ پڑھ کر کوئی رائے قائم کی جاتی ہے اور فکشن لکھا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں خیر سے اب حقیقت پر مبنی باتیں بھی فکشن کے دائرے میں داخل کردی گئی ہیں اور فکشن بھی ایسا کہ جس کا کوئی سِرا زمین پر نہ پایا جاتا ہو! 
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارا ''تخلیقی‘‘ جوہر پروان چڑھ رہا ہے، فنون کی تعداد بڑھ رہی ہے اور فنکارانہ صلاحیتوں کی نوعیت بھی تبدیل ہوتی جارہی ہے۔ آج کی دنیا جن فنون پر ناز کر رہی ہے ہم ایک زمانے سے ان میں طاق ہیں مگر کوئی ذرا متوجہ ہو اور تحسین کی نظر سے دیکھے تو دنیا کو کچھ پتا بھی چلے۔ غور کیے بغیر سمجھنے، سمجھے بغیر سوچنے، سوچے بغیر بولنے، بولے بغیر سب کچھ بیان کرنے، پڑھے بغیر پڑھانے، لکھے بغیر لکھاری کے منصب پر فائز رہنے، گائے بغیر گائیکی کی دنیا میں ممتاز مقام برقرار رکھنے، باقاعدگی سے ڈیوٹی کیے بغیر ملازمت کا ''حق‘‘ ادا کرنے، معاشرے کو کچھ دیئے بغیر اسے سے بہت کچھ وصول کرنے اور اپنا کوئی بھی عیب ختم کیے بغیر دوسروں کو سراپا عیب ثابت کرنے کا فن ہم پر ختم ہے! 
دنیا والے اب تک تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے اور اس کے مضمرات سے متعلق سوچنے ہی میں مصروف ہیں۔ انہیں کچھ اندازہ نہیں کہ ہم یہ ''بیریئر‘‘ کب کا توڑ چکے ہیں! اب آپ سے کیا چھپانا، سچ بات تو یہ ہے کہ ہم میں اب ''تخلیقی‘‘ جوہر اِتنی شدت سے پایا جاتا ہے کہ عمومی تخلیقی صلاحیت ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتی پھرتی ہے اور جان کی امان چاہتے ہوئے دور دور رہتی ہے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں