اخبارات کا کام صرف خبریں دینا نہیں بلکہ قارئین کو چونکانا بھی ہے تاکہ اُنہیں پڑھنے میں کچھ لطف بھی محسوس ہو۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ کوئی عام سی بات بہت نمک مرچ لگاکر بیان کی جاتی ہے اور توقع یہ کی جاتی ہے کہ قارئین آئٹم پڑھیں تو حیرت سے اچھل پڑیں۔ سارا زور سُرخی پر لگادیا جاتا ہے۔ سُرخی پڑھ کر قارئین کی دلچسپی بیدار ہوتی ہے اور وہ خبر یا مضمون پڑھنے کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ مگر جب وہ متعلقہ متن پڑھتے ہیں تو لکھنے والے کو ''خراجِ تحسین‘‘ پیش کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں!
مصر سے خبر آئی ہے کہ وہاں 50 فیصد شادی شدہ مرد گھر میں بیوی سے مار کھاتے ہیں۔ سروے کے مطابق مشرقی وسطیٰ کے اس اہم ثقافتی مرکز میں شوہروں کی پٹائی کرنے والی ایک تہائی خواتین نہ صرف یہ کہ اپنے کیے پر شرمندہ نہیں ہوتیں بلکہ اس پر فخر بھی کرتی ہیں!
ہم یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ صرف ہمارا قصہ ہے یعنی صرف پاکستانیوں یا برصغیر کے لوگوں کا۔ مگر اب معلوم ہوا کہ بیوی سے پِٹنے کا معاملہ تو ''ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے‘‘ والا ہے، پاکستان سے مصر تک ''کہانی گھر گھر کی‘‘ والا ماحول ہے!
مشرق وسطیٰ کے اہم ثقافتی مرکز کی ایک ''تابندہ روایت‘‘ یعنی شوہروں کی پٹائی کے حوالے سے شائع ہونے والی خبر پر ہم ''ماہرانہ‘‘ رائے معلوم کرنے کے لیے مرزا تنقید بیگ کے گھر پہنچے تو وہ ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ ہم سمجھ گئے کہ کئی دن سے اُنہوں نے منجن نہیں بیچا یعنی اُن کی بات سننے والا کوئی نہ تھا! جب اُنہیں ہماری آمد کی غایت معلوم ہوئی تو ایک لمحے کو سہم سے گئے۔ اُن کی کیفیت بتا رہی تھی ع
آج کئی کہانیاں یاد سی آکے رہ گئیں!
ہمیں اندازہ تھا کہ مرزا اِس موضوع پر اظہارِ خیال کرکے اپنے گھر کی باتیں باہر لانا پسند نہیں کریں گے اس لیے کچھ دیر تک تو کچھ کہنے سے کتراتے رہے۔ مگر جب ہم نے صحافیانہ ہٹھ دھرمی جاری رکھی یعنی کچھ سُنے بغیر ٹلنے کا نام نہ لیا تو مرزا نے (بھابی کے ہاتھوں کئی بار پٹنے اور زخمی ہونے کے باوجود) کمال بے نیازی سے فرمایا کہ یہ تو اُن لوگوں کا کیس ہے جو دم خم نہیں رکھتے ورنہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی بیوی سے پِٹ جائے۔
یہ بات سُن کر ہم نے مرزا کو ایسی نظروں سے دیکھا جیسے اُن کی بات کا ایک فیصد بھی یقین نہ آیا ہو۔ ہم نے مرزا کو (اُن کے) چہرے کے کئی مقامات پر پُرانے زخموں کے نشانات کی طرف متوجہ کیا تو بولے: ''یہ تو محبت کی نشانیاں ہیں!‘‘
ہم سوچنے لگے لوگ کھنڈر دیکھ کر عمارت کا اندازہ لگاتے ہیں کہ کیسی رہی ہوگی، کیا شان ہوگی اور لوگ دیکھ کر ورطۂ حیرت میں پڑ جاتے ہوں گے۔ مرزا کی بات اگر درست ہے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نشانیاں جب ایسی ہیں تو ''محبت‘‘ کیسی رہی ہوگی! ہم نے عرض کیا کہ جس موضوع پر مارکیٹ میں سیکڑوں، بلکہ ہزاروں لطیفے پائے جاتے ہیں اُس کے برحق ہونے سے آپ انکار کیسے کرسکتے ہیں۔ اِس پر مرزا نے منجن بیچنا شروع کیا : ''دیکھو میاں! بات یہ ہے کہ گھر کی چار دیواری میں مار کھانا مردوں کے لیے نئی بات نہیں۔ یہ روایت ہر دور میں برقرار اور تابندہ رہی ہے۔ مگر ہاں، ہم فخریہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے اپنی چار دیواری میں مرد برادری کو رُسوا نہیں ہونے دیا۔‘‘
یہ بات سن کر ہم نے مرزا کو ذرا گھور کر دیکھا تو ذرا سے جھینپے، پھر بولے : ''ہمیں یقین تھا کہ تمہیں یقین نہیں آئے گا مگر ماننے نہ ماننے سے سچ کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘
ہم نے کہا سچ تو یہ ہے کہ بیوی کی دست بُرد سے بچنے والے خال خال ہیں۔ حد یہ ہے کہ دنیا کی طاقتور ترین سیاسی شخصیت بھی یہ دعوٰی نہیں کرسکتی کہ وہ گھر میں بیوی کے ہاتھوں ''عزت افزائی‘‘ سے محفوظ رہی ہے!
مرزا کو تھوڑا سا متجسّس پاکر ہم نے بتایا کہ امریکہ کے سابق صدر بل کلنٹن بھی (دورِ صدارت میں) خاتونِ اوّل سے مار کھانے کا ''شرف‘‘ پاچکے ہیں۔ راجر اسٹون نے اپنی تازہ کتاب ''کلنٹنز وار آن ویمین‘‘ میں لکھا ہے کہ ایک بار ہلیری کلنٹن کی والدہ بیمار پڑگئیں۔ وہ عیادت کے لیے لٹل راک گئیں۔ اِس دوران مشہور گلوکارہ باربرا اسٹریسینڈ ایوانِ صدر آئی اور مبینہ طور پر رات وہیں رک گئی۔ ہلیری کلنٹن جب واپس آئیں تو وائٹ ہاؤس کے اسٹاف کی زبانی یہ کہانی معلوم ہوئی اور پھر شوہر سے جھگڑا ہوا۔ صبح ہوئی تو لوگوں نے صدرِ محترم کے چہرے اور گردن پر خراشیں دیکھیں۔ ایک صحافی نے پوچھا تو امریکی صدر نے کہا کہ شیو کرتے وقت ہاتھ غلط چل گیا تھا! گویا مونیکا لیوئنسکی والے کیس کی طرح اس معاملے میں بھی بل کلنٹن نے (اپنے منصب کے حلف کو ایک طرف ہٹاکر) جھوٹ بولنے ہی میں عافیت محسوس کی!
ہم نے بارہا یہ محسوس کیا ہے کہ جہاں کہیں بیوی سے مار کھانے کا ذکر ہوتا ہے یا اِس قسم کی کوئی خبر سامنے آتی ہے تو بیشتر شادی شدہ افراد کچھ کہنے سے گریز کرتے ہیں اور کنّی کتراتے ہوئے، پٹڑی بدلتے ہوئے گزرنا چاہتے ہیں۔ ہم اب تک سمجھ نہیں پائے کہ بیوی سے مار کھانا ایسا موضوع کیوں ہوگیا ہے جس پر بات نہ کی جائے۔ ہمارے خیال میں تو ازواجی زندگی کا یہ ایک ایسا پہلو ہے جس کے دم سے اِس میلے کی رونق میں اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے، کبھی کمی نہیں آتی!
بعض علاقوں اور برادریوں میں تو گھریلو معاملات میں بیوی کا پلّہ بھاری ہونے کا معاملہ ایسے تماشوں کو جنم دیتا ہے کہ دیکھنے والے دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔ ایسے ایسے سین دیکھنے کو آتے ہیں کہ دن میں تارے نظر آ جاتے ہیں۔ نجانے جن کے ساتھ یہ سب ہوتا ہو گا ان کا کیا حال ہوتا ہو گا۔تاہم یہ طے ہے کہ جن گھروں میں یہ مناظر تخلیق پاتے ہوں گے وہاں پر ٹی وی ڈرامے دیکھنے کی ضرورت نہیں محسوس ہوتی ہو گی۔ ویسے بھی ٹی وی ڈرامے لائیو ٹیلی کاسٹ نہیں ہوتے۔ جبکہ گھروں میں ہونے والے یہ ڈرامے نہ صرف براہ راست ہوتے ہیں بلکہ ان کا رنگ ٹی وی ڈراموں سے کہیں زیادہ دلچسپ ہوتا ہے۔ اب کون کم بخت پہلے گھر میں ہونے والے ڈرامہ دیکھے یا بھگتے اور اس کے بعد ٹی وی کے سامنے بیٹھ جائے۔ بہت سے گھروں کا ''ڈراما اِن ریئل لائف‘‘ ایسا جاندار اور شاندار ہوتا ہے کہ پورا محلّہ، بلکہ علاقہ دل بہلانے کے بہت سے طریقوں سے دست بردار ہو جاتا ہے! پاکستان کے بہت سے شہروں کی طرح کراچی کے بعض علاقوں میں بھی ایسے گھرانے اچھے خاصے ہیں جن میں بیگمات بیشتر معاملات پر حاوی رہتی ہیں اور معاملہ اگر مار کٹائی تک پہنچ جائے تو مار کھانا شوہر ہی کا مقدر ٹھہرتا ہے! ایسے گھروں میں روزانہ کسی نہ کسی بات پر جھگڑا ہوتا ہے اور میاں بیوی ایک دوسرے پر برتن پھینک کر بالی وڈ کے معروف سنگیت کار بپّی لہری کی بنائی ہوئی دُھنیں یاد دلاتے ہیں! اہل محلہ، بلکہ اہل علاقہ کے لیے یہ سب کچھ ''مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے‘‘ کے مصداق ایسی تفریح کا درجہ رکھتا ہے جس کے لیے کچھ خرچ نہیں کرنا پڑتا۔ ویسے بھی خرچ کرنے کو کسی کے پاس رہ کیا گیا ہے کہ ہمارے محترم وزیر خزانہ کے ہوتے ہوئے خرچ کرنے کی طاقت ویسے ہی سلب ہوتی جا رہی ہے۔ اب گزشتہ روز کے ٹیکسوں کے نئے انبار کو ہی دیکھ لیجئے۔ ان ٹیکسوں کے اطلاق کے بعد تو بندہ خود ہی خرچ ہونے کے لئے باقی رہ جائے گا۔
مصر کی خبر میں یہ بھی درج تھا کہ شوہروں کی پٹائی کرنے والی 87 فیصد خواتین بالکل ناخواندہ یا برائے نام پڑھی لکھی ہیں!
اب ہماری سمجھ میں آیا کہ ہمارے ہاں بڑھی بوڑھیاں جب لختِ جگر کے لیے چاند سی بہو ڈھونڈنے نکلتی ہیں تو ساتھ ہی ساتھ اس بات کا بھی خاص خیال رکھتی ہیں کہ چاند سی بہو کا ذہن چاند کی سطح کی طرح بنجر نہ ہو یعنی پڑھی لکھی ہو۔ یہ اہتمام دور اندیشی کی دلیل ہے۔ پڑھی لکھی ہوگی تو سپوت کو مار پیٹ کر شہتوت نہیں بنائے گی!
مصر ہو یا کوئی اور ملک، شوہر سے مار پیٹ کرنے والی خواتین بس یہیں تک محدود رہتی ہیں۔ یعنی مار پیٹ کر ایک طرف ہٹ جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں (یعنی کراچی میں) بعض برادریوں کی خواتین دو چار قدم آگے جاکر انفرادیت کے قمقمے بھی روشن کرتی ہیں۔ مثلاً ہم نے کراچی میں ایک برادری ایسی بھی دیکھی ہے جس کے مردوں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ گھر میں سہمے، دُبکے رہتے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ ''حسبِ توفیق‘‘ مار بھی کھاتے ہوں گے! مگر بیویاں شوہروں کو صرف پیٹتی نہیں، بُرا وقت آئے تو اُن کے دفاع کا فریضہ بھی انجام دیتی ہیں! اس کمیونٹی کے کسی مرد سے جھگڑا ہوجائے تو آن کی آن میں خاتونِ خانہ باہر آتی ہیں اور شوہر کو ایک طرف ہٹاکر فرماتی ہیں : ''میرے میاں سے کیا لڑتا ہے، مَرَد کا بچہ ہے تو میرے سے بات کر!‘‘