"MIK" (space) message & send to 7575

شیر اور بکرا بکری

تماشے اتنے اور ایسے ایسے ہیں کہ دیکھیے تو جی نہیں بھرتا اور اگر ان پر غور کیجیے تو ذہن کام کرنے سے انکار کردیتا ہے۔ اکیسویں صدی نے حیرت میں مبتلا کرنے کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔ زندگی کا سفر جاری ہے مگر ہم مسافر نہیں رہے، محض تماشائی ہوکر رہ گئے ہیں۔ گویا ''ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم‘‘ والی کیفیت دل و دماغ پر طاری ہے۔ 
ویسے تو خیر ہر دور میں حیرت انگیز واقعات رونما ہوتے رہے ہیں اور انسان کو مخمصوں سے دوچار کرتے آئے ہیں مگر اب عجیب واقعات کے رونما ہونے کی رفتار اس قدر بڑھ گئی ہے کہ ذرا سی دیر میں حواس کانپنے لگتے ہیں اور ذہن کے پاؤں تھک جاتے ہیں۔ کوئی کیا کیا دیکھے اور کب تک دیکھے؟ قدم قدم پر حیرت کے دریا ہیں کہ غوطہ زن ہوجائیے تو پھر اپنے بھی ہاتھ نہ آئیے! 
دنیا نے کچھ ایسا پلٹا کھایا ہے کہ بہت سی باتیں عجیب ہوتے ہوئے بھی اب عجیب نہیں رہیں۔ استعجاب کی کیفیت تو تب طاری ہو جب حواس مکمل جواب دے جائیں۔ بہت سے تماشے ایسے بھی ہیں کہ عجیب النوع ہوتے ہوئے بھی ورطۂ حیرت میں نہیں ڈالتے۔ قصوں کہانیوں میں ایسی بہت سی باتیں ہیں جو اُن گزرے ہوئے زمانوں میں عجیب سمجھی جاتی ہیں۔ اِن باتوں کو اپنے ماحول میں تلاش کیجیے تو قدم قدم پر مل جاتی ہیں۔ اور جو بات ہمارے ماحول میں پائی جاتی ہے اُس کے ذکر پر حیرت کیسی؟ بہت سے مشہور قصے پڑھ کر ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ لوگ آج بھی اِن قصوں کو پڑھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ 
یہ قصہ تو آپ نے بھی سنا ہوگا کہ کسی ملک کا بادشاہ انتہائی انصاف پرور تھا۔ اُس کے دور میں انصاف کا ایسا بول بالا تھا کہ شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیا کرتے تھے۔ بہت سے لوگ یہ قصہ پڑھ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی کیسے پی سکتے ہیں۔ ہم تاحال سمجھ نہیں پائے کہ اِس میں حیرت کا پہلو کہاں سے برآمد ہوگیا۔ شیر اور بکری تو آج بھی ایک ہی گھاٹ پر پانی پی رہے ہیں۔ 
کیا؟ آپ کو یقین نہیں آرہا؟ جناب! گھریلو زندگی میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ گھریلو ماحول میں شیر اور بکری مصلحت کے تقاضوں کے آگے سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے ایک گھاٹ پر پانی پیتے رہتے ہیں۔ آپ نہ مانیں تو آپ کی مرضی، ہم نے ہر گھر کے گھاٹ پر شیر اور بکری کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے۔ اور یہی سبب ہے کہ جب ہم قصوں کہانیوں میں شیر اور بکری کے ایک گھاٹ پر پانی پینے کی بات پڑھتے ہیں تو بے ساختہ ہنسی آجاتی ہے۔ 
آگے بڑھنے سے پہلے ہم گھریلو زندگی کے حوالے سے شیر اور بکری کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ گھر کی چار دیواری میں شیر شیر ہوتا ہے نہ بکری بکری۔ گھریلو زندگی کے مسائل اور پیچیدگیوں کے ہاتھوں شیر بے چارا بکری بن چکا ہوتا ہے اور بکری کو گھریلو زندگی دِلیری سے ہم کنار کرکے شیر میں بدل دیتی ہے! 
کیوں؟ حیرت میں مبتلا ہوگئے نا؟ جناب! شادی کے بعد کی زندگی ایسے ہی گل کھلایا کرتی ہے۔ جو کچھ دکھائی دے رہا ہوتا ہے وہ ہوتا نہیں۔ اور جو کچھ دکھائی نہیں دے رہا ہوتا دراصل وہی ہورہا ہوتا ہے۔ شیر اپنی فطرت یعنی ''شکارانہ‘‘ مہارت بھول جاتا ہے اور بکری گھاس کے ڈھیر پر منہ مارنے کے بجائے پنجے مارنے لگتی ہے! 
روس کے ایک چڑیا گھر میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ سائبیریا میں پائے جایا جانے والا ایک شیر ایمور چڑیا گھر کی زینت ہے۔ اُسے ایک وقفے سے زندہ بکرا پیش کیا جاتا رہا ہے۔ گزشتہ ماہ ایک عجیب واقعہ رونما ہوا۔ ہوا یہ کہ تگڑا پہاڑی بکرا خوراک کے طور پر پیش کیا گیا تو ایمور کے منہ میں پانی بھر آیا۔ یہ بکرا کئی تین چار دن کے لیے کافی تھا۔ مگر بکرے کو کچھ اور ہی منظور تھا، اُس نے کچھ اور ٹھان رکھی تھی۔ ایمور جب جبڑا کھولے اِس بکرے کی طرف لپکا تو اُس نے بھی پوزیشن لی دفاع کے ساتھ ساتھ جوابی حملے کے لیے تیار ہوگیا۔ بکرے کے سینگ بڑے اور خاصے نوکیلے تھے۔ شیر خُوں خوار سہی مگر عقل تو بہر کیف رکھتا ہے۔ اُس نے بکرے سے الجھنا مناسب نہ جانا اور ایک طرف بیٹھ گیا۔ بس، یہ بیٹھنا ہی قیامت ہوگیا۔ آپ نے بھی سُنا تو ہوگا کہ جو ڈر گیا، سمجھو مرگیا۔ یعنی پنجرے میں شیر کے آگے ڈالا جانے والے بکرے نے بھی جب ''جرمِ ضعیفی‘‘ کی سزا قبول کرنے سے انکار کیا تو شیر ہوگیا! گویا ہمتِ بکرا، مددِ خدا! شجاعت کے اِس شاندار مظاہرے پر بکرے کو تیمور کا لقب دیا گیا ہے۔ 
اور معاملہ صرف یہ نہیں کہ تیمور نے ایمور کے لیے لقمۂ تر بننے سے انکار کیا بلکہ ایک قدم آگے جاکر قبضہ مافیا کا کردار ادا کرتے ہوئے اُس نے ایمور کی کچھار بھی ہتھیالی۔ اور ایمور نے یہ کارروائی بھی قبول کرتے ہوئے کچھار کی چھت پر بستر ڈال لیا! ''گربہ کشتن روزِ اوّل‘‘ کے اصول پر عمل نہ کیا جائے تو ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ ایمور نے تیمور سے دوستی کرلی یعنی مجبوری کا نام شکریہ۔ ع 
مثل سچ ہے کہ مرتا کیا نہ کرتا 
یہ ہیں اکیسویں صدی کے شیر۔ اگر ٹائم مشین میں بیٹھ کر کسی قدیم دور میں جائیے اور لوگوں کو بتائیے کہ آنے والے زمانوں میں شیر ایسے ہوا کریں گے تو ہمیں یقین ہے کہ وہ شیروں سے ڈرنا چھوڑ دیں گے! 
اور ذرا اکیسویں صدی کے بکروں کو ملاحظہ فرمائیے۔ اگر ذبح ہونے پر آئیں تو کسی انسان کی جان بچانے کے لیے (صدقے کی مد میں) خرچ ہوجائیں اور اگر ڈرانے پر آئیں تو شیر کو بھی آنکھیں اور سینگ دکھاکر ایک طرف کردیں! 
آپ سوچیں گے اگر گھریلو زندگی میں شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے ہیں تو حیرت کیسی اور شرمندگی کیوں کہ درندوں کی ان کے فطری ماحول والی زندگی میں بھی ایسا ہی کچھ ہوا کرتا ہے۔ اگر آپ واقعی ایسا سوچ رہے ہیں تو ہم آپ کی سادگی پر قربان۔ جو کچھ آپ سوچ رہے ہیں ویسا کچھ بھی نہیں۔ جنگل پھر جنگل ہے، وہاں کے اصول کچھ اور ہیں۔ گھریلو زندگی میں اصول بھی اپنی ساری ''شیری‘‘ بھول کر ''بکریانہ‘‘ انداز اختیار کرلیتے ہیں۔ اگر یقین نہ آئے تو اِسی ایک نکتے پر غور کیجیے کہ روسی چڑیا گھر میں شیر نے اگر دُبکنا اور سہم جانا منظور کیا بھی تو بکرے کے مقابل، بکری کے سامنے نہیں۔ یعنی نَر کا سامنا نَر سے تھا۔ گویا ٹکّر کا مقابلہ تھا، برابری کی بات تھی۔ اگر ایمور نے تیمور کے مقابل اپنی فطرت سے بغاوت کی اور پسائی اختیار کی تو شرمندگی کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی تو کہہ سکتا ہے کہ مَرد کا مقابلہ مَرد سے تھا! 
اب آئیے گھریلو زندگی کی طرف۔ گھر کی چار دیواری میں شیر بکرے کے مقابل نہیں بلکہ بکری کے سامنے دُم دباکر چُپکا بیٹھا رہتا ہے! یعنی جنگل کا بادشاہ شیرِ نَر ہونے کے باوجود اپنی بھرپور طاقت کے استعمال کا آپشن ترک کرکے ''زانوئے تحفظ‘‘ تہہ بھی کرتا ہے تو مادہ کے مقابل۔ چڑیا گھر کا شیر تو پھر کچھ کچھ شیر ہوتا ہے۔ گھر کی چار دیواری کا شیر تو سرکس کے شیر سے بھی گیا گزرا ہوگیا! 
ہمیں یہ ڈر ہے کہ ہماری اِن معروضات سے بہت سے گھریلو شیر ناراض بھی ہوسکتے ہیں اور ہمیں ان کی طرف سے شدید ردعمل کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔ ایسے میں بہتر یہی ہے کہ شیر اور بکری کی کہانی ہم یہیں پر ختم کریں کیونکہ دوسروں کے ردعمل سے بچنے کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے گھر کی چار دیواری میں بھی جانا ہے کیونکہ ''گھریلو شیر‘‘ تو ہم بھی ہیں! 
بات شیر، بکرے اور بکری سے شروع ہوئی تھی۔ اب لگے ہاتھوں چوہے کا ذکر بھی ہوجائے۔ جنگل میں شیروں کے ہاں شادی تھی۔ ایک چوہا جب کچھار کی طرف چلا تو شیروں کے بچے نے روک دیا اور کہا کہ شیروں کے ہاں شادی ہے، تم کہاں چلے۔ چوہے کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ بھرّائے ہوئے گلے سے بولا : ''بچو! مجھے غور سے دیکھو، شادی سے پہلے میں بھی شیر تھا!‘‘ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں