"MIK" (space) message & send to 7575

… بُرا مان گئے!

کچھ دن قبل اسلام آباد سے ایک فون آیا۔ عباس بیگ صاحب لائن پر تھے۔ دعا سلام کے بعد دو تین رسمی جملوں کا تبادلہ ہوا۔ عباس بیگ صاحب نے ''آمدم برسرِ مطلب‘‘ کی منزل تک پہنچنے میں دیر نہیں لگائی۔ اُن کا ''استغاثہ‘‘ یہ تھا کہ ہم اپنے کالموں میں جس بے دردی سے مرزا تنقید بیگ کی ''واٹ‘‘ لگاتے ہیں وہ دراصل بیگ برادری کے خلاف سازش کے مترادف ہے! 
عباس بیگ صاحب کی بات سن کر ہم پہلے حیران اور پھر خوفزدہ ہوئے۔ چند لمحات تک تو ہماری گِھگھی بندھی رہی اور کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ اپنا دفاع کرتے ہوئے کس طور یہ بیان کریں کہ مرزا تنقید بیگ سے ہمیں کوئی پرخاش ہے نہ بیگ برادری سے۔ ہم تو اپنے ٹوٹی پھوٹی تحریر سے قارئین کو وہ سب کچھ بتانے کی اپنی سی کوشش کرتے ہیں جو مرزا کے ہاتھوں ہمارے دل و دماغ پر گزرتی ہے۔ مگر افسوس ع 
کون سُنتا ہے فغانِ درویش 
عباس بیگ صاحب نے فون پر جس طرح جم کر ''استغاثہ‘‘ پیش کیا اُس سے ہم تو خوفزدہ ہوگئے۔ عباس بیگ صاحب نے فون کے ذریعے معاملہ بھگتانے پر اکتفا نہ کیا بلکہ ہم سے گھر اور دفتر کا پتا بھی دریافت کیا تاکہ وہ ہمیں بیگ برادری کی خدمات پر کماحقہ مطلع کرسکیں۔ (جناب بیگز آف پاکستان کے عنوان سے ڈائریکٹری مرتب کر رہے ہیں۔) داغؔ دہلوی نے کہا تھا ع 
کس قیامت کے یہ نامے مِرے نام آتے ہیں 
ہم آج تک منتظر ہی رہے مگر کسی ''قیامت‘‘ کا کوئی نامہ ہمارے نام نہ آیا! قارئین میں سے جو ہماری کسی تحریر کو تبصرے کے قابل گردانتے ہیں وہ ایس ایم ایس یا پھر ای میل کرتے ہیں۔ عباس بیگ صاحب کے خلوص کی داد دینا پڑے گی کہ انہوں نے چار صفحات پر مشتمل خط کوریئر کے ذریعے ارسال کرنے کی زحمت گوارا کی۔ خط کا انداز اجازت نہیں دیتا کہ ہم ناہید اختر کی طرح طرح لہک لہک کر کہیں ع 
مِرے محبوب کا آیا ہے محبت نامہ 
اپنے ''محبت نامے‘‘ کے ذریعے عباس بیگ صاحب نے مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دینے والے بیگ صاحبان کے نام گِنوائے ہیں۔ ان میں سرِ فہرست سابق آرمی چیف جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ ہیں۔ ہمارا خیال ہے اِس کے بعد تو عباس بیگ صاحب کو کسی اور بیگ کا نام پیش کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی! 
عباس بیگ صاحب لکھتے ہیں : ''ایسا لگتا ہے کہ جو کچھ آپ براہِ راست نہیں لکھ پاتے اُسے بیان کرنے کے لیے مرزا تنقید بیگ کا کردار تخلیق کر رکھا ہے۔ ہر کڑوی کسَیلی اور تیر مارتی بات مرزا تنقید بیگ کے منہ سے بیان کروانا بیگ برادری کا امیج خراب کرنے کی سازش کے مترادف ہے۔ یہ کردار تخلیق کرنے میں کیا مصلحت تھی؟ کیا آپ بیگ برادری کے ستائے ہوئے ہیں؟‘‘ اس کے بعد عباس بیگ صاحب نے ''مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ کے مصداق بیگ برادری کے سپوتوں کے نام یُوں گِنوائے کہ ہمارے دل و دماغ پر ہتھوڑے برس گئے! 
ہم عباس بیگ صاحب کی خدمت میں عرض کرنا چاہیں گے کہ ہم بیگ برادری کے تو ستائے ہوئے نہیں ہیں مگر ہاں، مرزا تنقید بیگ نے ہمیں اب تک جو دکھ دیئے ہیں وہ اتنے زیادہ ہیں کہ اُنہیں پوری برادری کا تحفہ قرار دیا جاسکتا ہے! 
اب ہم عباس بیگ صاحب کو کیا بتائیں کہ بیگ صاحبان کی خدمات سے ہم واقف ہی نہیں، قدر دان بھی ہیں۔ ندیم صاحب (نذیر بیگ) کی اداکاری اور گلوکاری کے تو ہم بھی دیوانے رہے ہیں۔ عبید اللہ بیگ کے علمی مرتبے سے بھلا کون علم دوست ناواقف ہوگا؟ اس فہرست میں اپنے دیرینہ رفیق مرزا یٰسین بیگ کا نام دیکھ کر خصوصی مسرّت ہوئی۔ 
عباس بیگ صاحب نے اپنے ''وعیدی رقعے‘‘ میں بیگ برادری کے چند افراد کا عجیب رویہ بھی بیان کیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ بہت سے بیگ صاحبان ایسے بھی ہیں جو کسی لال بیگ کو جان سے نہیں مارتے! یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی۔ لال بیگ کی جاں بخشی کا جواز کیا ہے؟ کسی بھی لال بیگ کو جان سے مارنے کی صورت میں کوئی نہیں کہے گا کہ ایک جاندار کے خون سے ہاتھ رنگ لیے کیونکہ لال بیگ کا خون روایتی سُرخ رنگ کا نہیں ہوتا! 
عباس بیگ صاحب نے آخر میں دعا بھی دی ہے کہ ع 
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ 
عباس بیگ صاحب کا عنایت نامہ پڑھنے کے بعد ہم پر عجیب کیفیت طاری ہوئی۔ کچھ دیر تک تو سمجھ میں نہ آیا کہ اِسے انتباہ سمجھتے ہوئے مطمئن ہو رہیں یا دھمکی سمجھنے کی منزل تک بھی پہنچیں! دل نے صدا لگائی کہ ذرا نہ گھبراؤ، اگر عباس بیگ نے بیگ برادری کا پینڈورا بکس کھول ہی لیا ہے تو تم بھی مدد کے لیے اپنے یوسف زئی قبیلے کو پکارو! ہم نے توجہ نہ دی تو دل نے بھی اپنے مشورے پر زور نہیں دیا۔ 
کچھ دیر میں حواس بحال ہوئے تو خیال آیا کہ پریشان ہونے سے بہتر یہ ہے کہ مرزا تنقید بیگ کی خدمت میں حاضر ہوکر کچھ ''رعایتی نمبر‘‘ حاصل کرنے کا اہتمام کیا جائے! ممکن ہے اِس مرحلے پر آپ کو میر تقی میرؔ کا یہ مقطع یاد آئے ؎ 
میرؔ کیا سادہ ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب 
اُسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں! 
عرض ہے کہ اِس کے سِوا کوئی آپشن بھی نہ تھا۔ ویسے تو ہمارے خیر خواہوں میں مرزا عالم بیگ بھی ہیں مگر اُن کی ڈیوٹی اِس 
طور بدلتی رہتی ہے کہ وہ اہل خانہ ہی کے ہاتھ مشکل سے آتے ہیں! ہم نے سوچا عباس بیگ صاحب ہم سے مرزا تنقید بیگ کے باعث ہی تو ناراض ہیں۔ تو پھر کیوں نہ اُنہی سے بات کرکے معاملے کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے؟ 
عباس بیگ صاحب کا عنایت نامہ لے کر ہم مرزا تنقید بیگ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مرزا نے ہم سے پریشانی کا سبب پوچھا تو ہم نے خاموش رہنے کو ترجیح دیتے ہوئے عباس بیگ صاحب کا استغاثہ اُنہی کی تحریر میں مرزا کے سامنے دَھر دیا۔ مرزا نے لمحہ بہ لمحہ بدلتے ہوئے تاثرات کے ساتھ عباس بیگ صاحب کا خط پڑھا، مکمل کرنے کے بعد چُوم کر سینے سے لگایا اور ہماری طرف یُوں گھور کر دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں ع 
اِسی باعث تو قتلِ عاشقاں سے منع کرتے تھے! 
اور اِدھر ہمارا عالم یہ تھا کہ ''گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل‘‘ کی تصویر بنے ہوئے تھے۔ مرزا خوش تھے کہ ہمیں آئینہ دکھانے والا کوئی تو پیدا ہوا۔ ہمیں دُبکا ہوا دیکھ کر مرزا بھلا کیوں نہ چہکتے؟ 
مرزا نے اہل خانہ کو بھی بیگ برادری کے سپوتوں کی فہرست دکھائی۔ سب اتنے خوش ہوئے کہ ہمارے قلم کی چیرہ دستیاں بھول کر بھرپور تواضع کا اہتمام کیا کہ ہمارے توسط سے اپنے سپوتوں کہ فہرست تو اُن تک پہنچی! 
عباس بیگ صاحب سے گزارش ہے کہ ''بیگز آف پاکستان‘‘ کے عنوان سے ڈائریکٹری مرتب کرلیں تو ہمارے ''ذکرِ خیر‘‘ سے گریز کریں ورنہ ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہ رہیں گے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں