ایک بات ایسی ہے جو ایک زمانے سے ہمارے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتی آئی ہے۔ ہم لاکھ کوشش کے باوجود سمجھنے میں ناکام ہی رہے تھے۔ بھلا ہو گلشن اقبال کے عوامی کتب بازار کا جس کی مہربانی سے یہ عُقدہ وا ہوا اور ہم اپنے دل میں کھٹکنے والے کانٹے کی حقیقت تک پہنچ گئے۔
اب آپ سے کیا چھپانا، ہمیں بچپن ہی سے کتب بینی کا شوق رہا ہے۔ ہم آپ کو مرعوب نہیں کرنا چاہتے بلکہ صرف اپنے بچپن کی نوعیت سے آگاہ کرنا مقصود ہے۔ چھٹی یا ساتویں جماعت ہی سے ہم نے درسی کتابوں اور حکیم محمد سعید شہید کے ''نصیحت ناموں‘‘ کے ساتھ ساتھ طرح طرح کے ڈائجسٹوں کی ورق گردانی بھی شروع کردی تھی۔ ہمارے ہاتھ میں ہر وقت کوئی نہ کوئی کتاب یا جریدہ دیکھ کر بہت سے لوگ، بظاہر کسی سبب کے بغیر، منہ بنالیا کرتے تھے۔ کچھ لوگ سمجھائے بغیر بھی نہ رہتے تھے کہ اِتنی سی عمر میں یہ سب پڑھوگے تو دو باتوں کا احتمال ہے۔ وقت سے بہت پہلے بڑے ہو جاؤگے یا پھر کبھی (ذہنی طور پر) بڑے نہیں ہو پاؤگے! اللہ کا شکر ہے کہ ہم اُن کے کسی بھی انتباہ سے خوفزدہ نہ ہوئے اور مطالعے کی شاہراہ پر اپنا سفر جاری رکھا۔ مطالعے سے ذہن کے دریچے کُھلے اور علم و حکمت کی ہوا کے جھونکے ہماری رگِ جاں تک پہنچے۔
اِس مرحلے پر ایک وضاحت ناگزیر ہے۔ آپ ہماری کالم نگاری کو مطالعے کی برکت یا نتیجہ ہرگز نہ سمجھیے گا۔ کالم نگاری وہ مُہم جُوئی ہے جس کے لیے کسی بھی درجے میں مطالعہ لازم نہیں! اِس شعبے میں اونچا جھنڈا گاڑنے میں آج تک وہی کامیاب رہے ہیں جو ''تلمیذ الرحمٰن‘‘ ہیں! ہم نے شعر کہنا شروع کیا تو کچھ مدت بعد رئیسؔ امروہوی مرحوم کے آگے زانوئے تلمّذ تہہ کیا۔ اور (اپنی) بساط بھر اُن سے مستفید ہوئے۔ کالم نگاری کا معاملہ اِس کے برعکس ہے۔ اس معاملے میں ہم نے اپنے زورِ بازو پر بھروسہ کیا اور آپ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ ہمارے بازوؤں نے ہمیں (اور آپ کو) دھوکا نہیں دیا!
ہم مطالعہ کرتے رہے اور لوگوں کی ناراضی کی پروا نہ کرنے کی روش پر گامزن رہے۔ ہمیں کبھی خیال تک نہ آیا کہ ہر وقت کچھ نہ کچھ پڑھتے رہنے سے ہم ''بدمعاشی‘‘ کے مرتکب ہو رہے ہیں!
کتب بینی اور بدمعاشی! آپ سوچ رہے ہوں گے یہ بھلا کیا بات ہوئی۔ قصہ یہ ہے صاحب کہ تین دن قبل ہم گلشن اقبال کے کتب بازار سے گزرے تو ایک ٹھیلے پر رک کر کتابیں دیکھنے لگے۔ اتنے میں کتب فروش اپنے کسی مستقل گاہک پر زور دینے لگا کہ فلاں کتاب ضرور خرید لیں، پھر ہاتھ نہ آئے گی۔ اور وہ صاحب خریدنے میں دلچسپی نہیں دکھا رہے تھے۔ جب کتب فروش نے زیادہ زور دیا تو وہ بولے بھئی دیکھنا پڑے گا کہ یہ کتاب گھر میں ہے یا نہیں کیونکہ کتابیں اتنی ہوگئی ہیں کہ یاد نہیں رہتا کیا خرید چکے ہیں اور کیا خریدنا ابھی رہتا ہے۔
ہم نے کتابیں جانچنے اور پرکھنے کا عمل ترک کیا اور اُن صاحب سے مخاطب ہوتے ہوئے عرض کیا کہ جب انسان کو یاد ہی نہ ہو کہ کیا کیا خریدا اور پڑھا ہے تب تو اُسے مزید کتابیں خریداری سے گریز ہی کرنا چاہیے۔ ہمارا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ گھر میں کتابوں کا ڈھیر لگانے سے کچھ حاصل نہیں اگر انہیں پڑھنے کے لیے وقت نہ نکل پاتا ہو۔
ابھی ہماری بات مکمل بھی نہ ہوئی تھی کہ اُن صاحب نے وضاحت بدوش انداز سے کہا : ''آپ غلط فہمی کا شکار ہو رہے ہیں۔ میں یہاں سے کتابیں خریدتا ضرور ہوں، پڑھتا نہیں۔ کتب بینی کا شوق میری اہلیہ کو ہے۔ یہ سب کچھ میں اُنہی کے لیے لے جاتا ہوں۔‘‘ ابھی ہم ان کی اس وضاحت کو ہضم کرنے کی کوشش ہی کر رہے تھے کہ کتب فروش نے وضاحت کے تابوت میں آخری کی ٹھونکنے کے سے انداز سے لقمہ دیا : ''جی ہاں، کتابیں تو یہ بھابی کے لیے لے جاتے ہیں۔ خود نہیں پڑھتے، یہ تو شریف آدمی ہیں!‘‘
''شریف آدمی‘‘ کی یہ تعریف سن کر ہم تلملاکر رہ گئے۔ اور اس سے بڑا ستم یہ تھا کہ اہلیہ کے لیے کتابیں خریدنے والے صاحب بھی شرافت کے معیار یا پیمانے سے قدرے مطمئن دکھائی دے رہے تھے۔ ہم نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، ان صاحب کو اپنی طرف بلایا تاکہ شرافت سے متعلق اپنا معیار یا پیمانہ بیان کرسکیں۔ ہم نے اپنا تعارف کرایا تو انہوں نے خوش دِلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا اسمِ گرمی عرفان بتایا۔ موصوف وکیل ہیں اور نچلی عدالتوں میں پریکٹس کرتے ہیں۔
جب ہم نے دیکھا کہ اہلیہ کی خدمت پر مامور صاحب وکیل ہیں تو ہم نے شرافت کے بارے میں اپنا نظریہ بیان کرنے سے اجتناب برتتے ہوئے چند رسمی جملوں کے ذریعے ملاقات کو ختم کرنے میں عافیت جانی۔
ہمارے احباب اور ''پہچان‘‘ والوں میں ایسے کئی اساتذہ اور وکلاء ہیں جو زندگی بھر ''شرافت‘‘ کو گلے لگائے رہتے ہیں! شرافت کا جو معیار عرفان ایڈووکیٹ کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے وہی معیار دوسرے بہت سے وکلاء، اسکول ٹیچرز اور ہماری (صحافی) برادری کے بعض اصحاب کے معاملے میں بھی بالکل درست اور حسبِ حال ہے! اور جب کبھی ہم نے اس حوالے سے بات کی ہے تو ہر بار عجیب و غریب جواب ملا ہے۔ بعض احباب اس خوش فہمی میں مبتلا پائے گئے کہ اگر انہوں نے مطالعے کی عادت اپنائی تو ان کا حاصلِ مطالعہ لوگوں کو پریشانی سے دوچار کردے گا!
پڑھانے والوں کو ہم نے جب بھی مزید پڑھنے یعنی مطالعہ کرنے کا مشورہ دیا ہے تو ان کی طرف سے یہ دلیل تراشی گئی ہے کہ مطالعے سے اسباق خاصے وزنی ہوجاتے ہیں جنہیں ڈھونا طلباء کے بس میں نہیں ہوتا! ساتھ ہی یہ شکایت بھی کی جاتی ہے کہ مطالعہ جاری رکھا جائے تو پڑھانے کا عمل تھوڑا سا ''ہینگ‘‘ کرنے لگتا ہے یعنی سوچ سمجھ کر پڑھانے سے پڑھانے والے کے ساتھ ساتھ پڑھنے والے بھی تھوڑے سے کنفیوز ہو جاتے ہیں! اس کیفیت سے بچنے کے لیے ہم نے کالج کی سطح کے بعض اساتذہ کو بھی مطالعے کو زحمت دینے سے گریز کی راہ پر پایا ہے!
اور اب مطالعے کے حوالے سے کچھ اہل صحافت کی بھی بات ہوجائے۔ بہت سے صحافی دوستوں اور کالم نگاروں کو ہم نے مطالعے سے بچنے کی باضابطہ کوشش کرتا پایا ہے! جس طور کراچی میں کلفٹن اور اس سے ملحق علاقوں میں سمندر پیچھے ہٹ رہا ہے بالکل اُسی طور صحافت سے وابستہ بہت سے احباب کو ہم نے مطالعے سے دور ہٹتے دیکھا ہے۔ حد یہ ہے کہ اخبارات پڑھنے سے بھی گریز کرتے ہیں کہ کوئی مطالعے کا شوقین نہ سمجھ لے! صحافی دوستوں کا بھی یہی کہنا ہے کہ زیادہ پڑھنے سے وہ لکھنا مشکل ہو جاتا ہے جو عوام کو پسند آئے! اپنے کام کا عوامی انداز برقرار رکھنے کے لیے بیشتر صحافی رفتہ رفتہ عوام ہی کی سطح پر آکر سُکون کا سانس لیتے ہیں۔ یہی حال بعض کالم نگاروں کا ہے جو بُھولے بھٹکے بھی کچھ پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ مبادا پڑھتے وقت قارئین کا ذہن الجھن محسوس کرے!
عرفان ایڈووکیٹ صاحب کو جس معیار کے تحت ''شریف آدمی‘‘ ٹھہرایا گیا ہے اُس کی مناسبت سے ہم تو پرلے درجے کے ''بدمعاش‘‘ واقع ہوئے ہیں! مگر سوال یہ ہے کہ اب کریں کیا؟ مطالعے کی عادت جی کا روگ ہوچکی ہے۔ ع
چُھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی!
دُعا کیجیے کہ عرفان صاحب کی طرح ہم بھی نئے معیار کے مطابق جلد از جلد ''شریف آدمی‘‘ کی مسند پر بٹھائے جانے کے قابل ہوں اور ''بدمعاشی‘‘ کا طوق اپنی گردن سے اتار پھینکیں!