زمانے کا چلن کب بدلا ہے؟ انگلی پکڑائیے تو لوگ پہنچا تھامنے پر کمر بستہ ہو جاتے ہیں۔ اپنائیت اِس دنیا میں ایسی کمیاب ہوئی ہے کہ اب ہر طرف بیگانگی کا راج سا ہے۔ عمومی اور خصوصی ہر دو طرح کے تعلقات میں خلوص کا گراف اتنا گر گیا ہے کہ اگر ذرا سی اپنائیت کا مظاہرہ کیجیے تو لوگ ازخود نوٹس کے تحت طرح طرح کی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں۔ ایسے میں کسی سے محبت کے دو بول بولتے بھی ڈر لگتا ہے۔ نفرت کے ڈسے اور محبت کو ترسے ہوئے لوگ اپنی اپنی توقعات کے ساتھ بلائے جان ہونے میں دیر نہیں لگاتے!
سیاسی جماعتیں عوام کی نفسی کمزوریوں پر نظر رکھتی ہیں۔ جذبات کو اپیل کرنا انہیں خوب آتا ہے۔ سیاسی قائدین اچھی طرح جانتے ہیں کہ عوام کی دکھتی رگ کون سی ہے اور اس پر کب، کس حد تک ہاتھ رکھنا ہے۔ سیاسی جلسوں میں عوام سے خطاب کے دوران وہی کچھ کہا جاتا ہے جو عوام سننا چاہتے ہیں۔ تقریر شروع ہوتے ہی دعووں کا دریا بہتا ہے اور کچھ ہی دیر میں وعدوں کا سونامی سا آ جاتا ہے!
جلسوں میں اپنی مرضی کی بات سن کر عوام تصور کا سہارا لے کر کہیں سے کہیں جا نکلتے ہیں۔ عوام کے مُوڈ، مزاج اور ڈیمانڈ کا خیال رکھنے کی کوشش میں سیاسی جماعتوں نے جلسوں کو میلوں کے مماثل کر دیا ہے۔ اب کون سا آئٹم ہے جو سیاسی جلسوں کی بنیادی ساخت کا حصہ نہیں؟ احتجاج کے لیے منعقد کیے جانے والے جلسے بھی ایسا لطیف انداز اختیار کیے ہوتے ہیں کہ مذمتی نعرے لگاتے وقت دل پر ذرا بھی بوجھ نہیں پڑتا، لوگ سسٹم کے خلاف مظاہرے بھی خوشی خوشی کرتے ہیں!
بات ہو رہی ہے محبت کو ترسے ہوئے لوگوں کی۔ جب ہر طرف گُھپ اندھیرا ہو تو معمولی سی کرن بھی انسان کو نُور کا ہالہ محسوس ہوتی ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ گزشتہ دنوں پشاور میں منعقد کیے گئے ایک یوتھ فیسٹیول میں بھی رہا۔ میلہ چونکہ نوجوانوں کا تھا اس لیے اس میں شریک ہونے والوں کے جذبوں کا جوش مارنا کچھ حیرت انگیز نہ تھا۔ نوجوان جھوم رہے تھے، لہک رہے تھے۔ جماعت اسلامی کے تین روزہ یوتھ فیسٹیول کے تیسرے اور آخری دن پشاور کے طہماس خان سٹیڈیم میں فیسٹیول کے شرکا سے جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے خطاب کیا۔ جماعت اسلامی نے اس فیسٹیول کو اپنی یوتھ پالیسی منظر عام پر لانے کے لیے بخوبی استعمال کیا۔
فیسٹیول کے شرکا سے سراج الحق کے خطاب کے موقع پر ایک بزرگ بھی موجود تھے۔ نوجوانی سے بھرا ماحول اُن پر اثر کر گیا اور اُنہوں نے اشرافیہ کے خلاف تحریک کا اعلان اَن سُنا کرتے ہوئے سراج الحق صاحب سے فرمائش کر دی کہ اُن کی شادی کرا دیں! سراج الحق یہ سن کر حیران رہ گئے۔ وہ اپنے دل کا مدعا بیان کرنے مائکروفون کے سامنے کھڑے ہوئے تھے کہ بزرگ نے اظہار بیان کر دیا۔
ڈھلی ہوئی عمر میں شادی کی فرمائش سن کر سٹیڈیم قہقہوں سے گونج اٹھا۔ چند لمحوں تک تو سراج الحق صاحب کی سمجھ ہی میں نہ آیا کہ کیا جواب دیں، کیا یقین دہانی کرائیں۔ یوتھ فیسٹیول، ظاہر ہے، نوجوانوں کے لیے تھا۔ ایسے میں ایک بزرگ کی طرف سے شادی کی فرمائش! ویسے جماعت اسلامی کی کامیابی پر سراج الحق صاحب یقیناً خوشی سے پھولے نہ سمائے ہوں گے۔ نوجوانوں کے لیے سجائے جانے والے جس میلے کے ماحول نے ایک معمر شخص کو شدتِ جذبات کے دریا میں غوطہ خوری پر مجبور کر دیا اُس میلے میں نوجوانوں کے دِلوں میں کیسی کیسی امنگوں نے انگڑائیاں لی ہوں گی!
ہم پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ شادی کی فرمائش غلط فہمی کا نتیجہ تھی۔ اُن بزرگ کو شاید یاد نہیں رہا کہ جماعت اسلامی کی زمامِ امارت اب سراج الحق کے ہاتھ میں ہے۔ ہو سکتا ہے کسی نے اُن کے سامنے جماعت اسلامی کے امرا کا ذکر کیا ہو اور وہ بے دھیانی میں یہ سمجھ بیٹھے ہوں کہ جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد ہیں! بس، اِس ایک لفظ ''قاضی‘‘ نے بزرگ کو دھوکا دے دیا! اس مقام پر یقین سے کچھ کہنے کی ہماری صلاحیت ڈگمگا رہی ہے۔ ہم پورے یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ فرمائش قاضی حسین احمد مرحوم کے سامنے کی گئی ہوتی تو پوری ہو پاتی یا نہیں۔ بات یہ ہے کہ قاضی حسین احمد مرحوم پنڈال سجانے کے شوقین اور ماہر ضرور تھے مگر نکاح کا نہیں، احتجاج کا۔ قاضی حسین احمد ہی نے اپنے ولولہ انگیز اندازِ قیادت سے جماعت اسلامی میں وہ جوش و جذبہ پیدا کیا جسے دیکھتے ہوئے آج لوگ جماعت اسلامی کے مرکزی امیر سے شادی کرانے کی فرمائش بھی کر بیٹھتے۔
شادی کرانے کی فرمائش پر چند لمحوں کی خاموشی کے بعد سراج الحق صاحب نے بھی ماحول میں رنگ جانے کو ترجیح دی یعنی اِس فرمائش سے لطف اندوز ہوئے۔ سیدھی سی بات ہے۔ جیسی روح ویسے فرشتے اور جیسی فرمائش ویسا ردعمل! چند لمحوں کے ''انجوائمنٹ سیشن‘‘ کے بعد سراج الحق صاحب نے بزرگ سے مخاطب ہوتے ہوئے سوال داغا کہ وہ (سراج الحق صاحب) اُن کی شادی کرائیں یا نوجوانوں کی! یہ بات سن کر بزرگ خاموش ہو گئے۔ ہمارے خیال میں بزرگ کو یہ کہنا چاہیے کہ فی الحال میری شادی کرا دیجیے اور نوجوانوں کو بخش دیجیے کیونکہ اُن کی بھی شادی کرا دی گئی تو اشرافیہ کے خلاف تحریک کون چلائے گا! جماعت اسلامی کتنی ہی مذہبی سہی، یہ تحریک ''فرشتوں‘‘ کی مدد سے نہیں چلا سکتی۔ بھلا کوئی اپنے خلاف بھی تحریک چلاتا ہے!
بھرے جلسے میں کسی بزرگ کی طرف سے شادی کرانے کی فرمائش ہمارے نزدیک زیادہ حیرت انگیز نہیں۔ جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی سیاسی جماعتیں باتوں ہی باتوں اور وعدوں ہی وعدوں میں جلسے کے شرکا کو جنت کی تصوّراتی سیر کرانے لگتی ہیں۔ آن کی آن میں لوگ ''چشمِ تصوّر کی آنکھ‘‘ سے خود کو حُوروں کے جِلو میں دیکھنے لگتے ہیں! برسرِ اقتدار آ کر جو کچھ کر گزرنے کے دعوے ہماری سیاسی مذہبی جماعتیں کرتی ہیں اُنہیں سن کر لوگ یہی سوچتے ہیں کہ جب یہ جماعتیں اتنے بڑے کام کر سکتی ہیں تو پھر شادی تو اِن کے نزدیک کوئی کام ہی نہ ہوا! جب مذہبی سیاسی جماعتیں وعدوں اور دعووں کی پتنگیں اونچی اڑائیں گی تو جواباً فریقِ ثانی (عوام) بھی توقعات اور فرمائشوں کا گراف بلند کرے گا!
جماعت اسلامی کے امیر سے آج اگر کسی بزرگ نے شادی کرانے کی فرمائش کی‘ تو حیران ہونے کے بجائے ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جماعت اسلامی نے ہر دور میں خدمتِ خلق کی ہے۔ کسی بھی افتاد کے نازل ہونے پر لوگ جماعت اسلامی اور اسی قبیل کی دیگر جماعتوں کی طرف دیکھتے ہیں۔ جب لوگ سیلابی صورت حال میں جماعت اسلامی سے ریلیف پانے کی توقع رکھتے ہیں تو دل کے دریا میں سیلابی کیفیت پیدا ہونے پر جماعت اسلامی کے امیر کی طرف کیوں نہ دیکھیں! ویسے اُن بزرگ کی فرمائش سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ اب مصیبت نازل ہونے پر ہی نہیں بلکہ مصیبت کو اپنے پر نازل کرنے کے لیے جماعت اسلامی کی طرف دیکھتے ہیں!
تمسخر برطرف، جماعت اسلامی کے قائدین کو بھی سوچنا چاہیے کہ اُن کی پالیسیوں میں ایسا کیا ہے کہ اب لوگ ذاتی نوعیت کی فرمائشیں بھی کرنے لگے ہیں! عوامی اجتماعات میں سسٹم کے خلاف باتیں کرتے وقت وعدوں اور دعووں کے معاملے میں احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ عوام کو خوش فہمی کے صحرا میں بھٹکتا چھوڑ وعدوں اور دعووں کا قافلہ آگے بڑھانا اچھی بات نہیں۔ اگر انہوں نے ریڈیو سیلون کی طرز پر لوگوں کو ان کی پسند کے گانے سنانے کا پروگرام بند نہ کیا تو لوگ بھی فرمائشیں کرنے سے باز نہ آئیں گے۔