"MIK" (space) message & send to 7575

مُوڈ بحال کرنے کا نُسخہ

شدید گرم موسم میں کسی کو شدید پیاس لگی ہو تو وہ کیا کرے؟ گرم پانی پیے یا ٹھنڈا؟ ظاہر ہے، گرم پانی کون بے وقوف پینا پسند کرے گا؟ کڑاکے کی سردی میں گرما گرم سُوپ پیا جاتا ہے یا ٹھنڈا ٹھار شربت؟ سیدھی سی بات ہے، سردی کو بھگانے کے لیے سُوپ کو ڈنڈے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے! جس میں عقل پائی جاتی ہوگی وہ گرمی میں پیاس بجھانے کے لیے ٹھنڈا پانی یا کوئی اور مشروب پیے گا اور سردی میں گرم سُوپ سے مستفید ہوگا۔ 
مہارت کی بنیاد پر مشورے دینے والے کسی اور دنیا میں رہتے ہیں۔ وہ جو کچھ بھی کہتے ہیں، تحقیق کی بنیاد پر کہتے ہیں۔ اور تحقیق کا تازیانہ کب ہمارے اور آپ کے دل و دماغ پر نہیں برسا؟ جو کچھ ہمارے وہم و گمان اور خواب و خیال میں بھی نہیں ہوتا وہی کچھ ماہرین کی دکان پر بہ افراط دستیاب ہوتا ہے۔ ہمارا، آپ کا یعنی ہم سب کا سورج مشرق سے طلوع ہوتا ہے مگر ماہرین ہمیشہ سورج کو مغرب سے طلوع کرنے پر بضد رہتے ہیں! وہ معاشرتی اور معاشی معاملات کے ہر پہلو پر اِس قدر دادِ تحقیق دیتے ہیں کہ لوگ سوچتے ہی رہ جاتے ہیں کہ کس کس مشورے پر عمل کرکے اپنی عاقبت خراب کریں! ہر معاملے پر ماہرین کی رائے موجود ہے، جو چاہے ''مستفید‘‘ ہو۔ ؎ 
دل کے آئینے میں ہے تصویرِ یار 
جب ذرا گردن جھکائی، دیکھ لی! 
ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے حوالے سے شہرت پانے والے ملک ہالینڈ کے ماہرین نے ہوا میں تیر چلایا ہے۔ کہتے ہیں اگر کوئی خوش رہنا چاہتا ہے تو المیہ گیت سنے، المیہ فلمیں دیکھے۔ 
خوش رہنے کے لیے لوگ کیا کیا جتن کرتے ہیں۔ ہنستے ہنستاتے رہتے ہیں تاکہ مُوڈ اچھا رہے۔ کسی کو اندازہ ہی نہ تھا کہ خوش رہنے کے لیے ہنسنے ہنسانے اور قہقہے لگاکر دھماچوکڑی مچانے کی کچھ خاص ضرورت نہیں۔ سکون سے ایک طرف بیٹھیے، ایل ای ڈی اسکرین آن کیجیے اور فلم اسٹارٹ! جتنی رلانے والی فلم اُتنی ہی خوشی آپ کا مقدر! 
ولندیزی ماہرین نے شاید مائنس مائنس پلس کا فارمولا سُجھایا ہے۔ اِدھر آپ کا مُوڈ خراب اور اُدھر فلم کی کہانی کا مُوڈ خراب۔ اب دو خراب مُوڈ ملیں تو نیا یعنی شادمان و کامران مُوڈ معرضِ وجود میں آئے۔ اِسے کہتے ہیں ایک تیر میں دو نشانے۔ آپ المیہ فلمیں دیکھیں تو لوگ آپ کو سنجیدہ اور بردبار مزاج کا حامل سمجھیں اور آپ کا مقصد ہو مُوڈ اچھا کرنا! عام طور پر اُن لوگوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا جو ہلکی پھلکی فلمیں دیکھ کر اپنا مزاج ہلکا پھلکا رکھنا چاہتے ہیں۔ ماہرین کی مہربانی سے ایسے لوگوں کا مخمصہ ختم ہوا۔ اب وہ مُوڈ کی بحالی کے لیے المیہ فلمیں دیکھا کریں گے اور لوگوں کی نظر میں اُن کے لیے احترام بھی کم نہ ہوگا۔ ولندیزی ماہرین نے دراصل لوہے کو لوہے سے کاٹنے کا مشورہ دیا ہے۔ بات ذرا بھڑکیلے انداز سے بیان کرنی ہو تو یوں کہیں گے کہ آگ کو بھجانے کے لیے اُس پر تیل چھڑکنے کا مشورہ دیا جارہا ہے! 
ہم جب بھی کوئی بات سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں اور یقین ہو جاتا ہے کہ سیدھی عقل سے کام نہیں چلے گا تو مرزا تنقید بیگ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔ آپ یہ نہ سمجھیے گا کہ اپنی سیدھی عقل کی ناکامی کا ذکر کرکے ہم مرزا کی عقل کو ٹیڑھی ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں! بات یہ ہے کہ مرزا ہر بات کو عقل کے کسی اور، غیر روایتی زاویے سے دیکھتے اور سمجھ لیتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ بیشتر معاملات میں مرزا ہمیں جو مشورہ دیتے ہیں وہ ابتداء میں انتہائی قابلِ رشک محسوس ہوتا ہے مگر کچھ ہی دیر میں رشک سے ''ر‘‘ نکل جاتا ہے! 
مرزا نے جب لوہے کو لوہے سے کاٹنے والا اور گرمی کو گرمی سے مارنے جیسا مشورہ سُنا تو بولے : ''ولندیزی ماہرین نے کوئی نئی بات نہیں کہی۔ بات یہ ہے کہ ہم ہر معاملے میں گوروں سے مرعوب رہتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ان کی بیان کی ہوئی ہر بات کو حرزِ جاں بنالینے پر آمادہ بھی رہتے ہیں۔ بگڑے ہوئے مُوڈ کو المیہ فلم دیکھ کر بحال یا درست کرنے کا مشورہ اِس حقیقت کی بنیاد پر دیا گیا ہے کہ المیہ فلم دیکھ کر انسان کے جذبات میں ہلچل سی مچتی ہے اور بہت سے مقامات پر اُس کی آنکھیں بھی بھر آتی ہیں۔ یوں دل سے بوجھ اتر جاتا ہے اور دل و دماغ تازگی محسوس کرتے ہیں۔‘‘ 
مرزا نے بات تو سچ کہی۔ ایک سیدھی سی بات کو ماہرانہ رائے کی شکل دے کر دنیا کو مرعوب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ حیرت ہے اتنی سیدھی سی بات ہماری سمجھ میں نہ آئی۔ مُوڈ کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے ہم پتا نہیں کیا کیا جتن کرتے ہیں۔ المیہ فلموں کی جادوئی صفت سمجھ میں آگئی ہوتی تو ہم اب تک پاک و ہند کی تمام بڑی المیہ فلمیں دیکھ چکے ہوتے اور اِس کے نتیجے میں مزاج میں پیدا ہونے والی شگفتگی سے اوروں کو بھی مستفید کرتے! 
مرزا نے گورے ماہرین کی رائے پر تنقید کی سیاہی پھیرتے ہوئے کہا : ''منفی کو منفی سے ٹکراکر مثبت پیدا کرنے والی سمجھ ہم میں بہت پہلے سے پائی جاتی ہے۔ کبھی تم نے غور نہیں کیا کہ ہمارے ہاں جس کے اخراجات آمدن سے خاصے کم ہوتے ہیں وہ اخراجات کا گراف مزید بلند کرکے بجٹ کو قابو میں کرنے کی کوشش کرتا ہے! لوگ کسی بھی چیز کو بڑی مارکیٹ میں بلند نرخ پر خرید کر اپنے دل کے لیے اطمینان کا سامان کرتے ہیں! یہی فارمولا کم علمی سے نجات پانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی جو لوگ کسی وجہ سے پڑھ نہیں پاتے وہ مطالعے سے گریز کرکے کم علمی یا لاعلمی کو باضابطہ جہالت میں تبدیل کرتے ہیں! اور ظاہر ہے، اِس کے بعد تو راوی چَین ہی چَین لکھتا ہے۔‘‘ ہم نے عرض کیا کہ یہ فارمولا تو ہمارے ہاں 90 فیصد سے زائد معاملات پر منطبق دکھائی دیتا ہے۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ حکومت علم کے فروغ کے لیے اُنہیں بھرتی کرتی ہے جو خود علم سے خاصے نابلد ہوتے ہیں! طلباء بے چارے ویسے ہی کمزور ہوتے ہیں اور اُس پر ''مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ صفت اساتذہ! نتیجہ؟ پستی کی بلندی، اور کیا! 
مرزا نے ہم سے متفق ہوتے ہوئے کہا : ''جو حال علوم کا ہے وہی 
فنون کا بھی ہے۔ جسے عمر بھر گانا نہ آیا ہو وہ لوگوں کو گلوکاری کے اسرار و رموز سکھانے پر تُل جاتا ہے اور اِس کا نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ لوگوں کو جو تھوڑا بہت گانا آتا ہے وہ اُس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں! اور پھر گانے کے نام پر وہ جو بھی تماشا کرتے ہیں اُس میں لوگوں کو فن کی عجیب ہی 'بلندیاں‘ دکھائی دیتی ہیں! اِسی طور جو لاکھ کوشش کرنے پر اداکاری نہیں کر پاتے وہ شاندار اداکاری کرتے ہوئے اداکاری سکھانے پر کمر بستہ ہو جاتے ہیں! اور اُن سے تربیت پانے والے ایسی اداکاری فرماتے ہیں کہ ایک دنیا دیکھتی رہ جاتی ہے!‘‘ 
اب ہماری سمجھ میں آیا کہ ہم نے جب بھی دل بہلانے کے لیے پاکستان کی بہترین مزاحیہ فلمیں دیکھی ہیں تب ہماری طبیعت ہشاش بشاش کیوں ہوئی ہے۔ ہمارے ہاں جو فلمیں مزاح کے کھاتے میں بنائی جاتی ہیں وہ اپنی اصل میں المناک ہوتی ہیں! کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ فلم کا کوئی منظر خون کے آنسو نہ رُلا پائے تب یہ سوچ کر آنسو نکل آتے ہیں کہ بیٹھے بٹھائے اچھی خاصی رقم ڈوب گئی! 
ہمارے ہاں بیشتر لکھنے والے بھی دراصل مائنس مائنس پلس والے فارمولے ہی پر عمل کرتے ہیں۔ جس تحریر کو مزاحیہ قرار دیا گیا ہو اگر طبیعت بہلانے کے لیے اُسے پڑھیے تو دل و دماغ پر ایسی شاندار غمگینی طاری ہوتی ہے کہ پھر مُوڈ کے پاس بحال ہونے کے سوا کوئی آپشن نہیں بچتا! یہی حال رنج و غم میں ڈوبی ہوئی تحریروں کا ہے۔ کہیں کہیں تو ٹریجڈی کے نام پر ایسی سچویشن پیدا کردی جاتی ہے کہ پڑھنے والا رونے کی تیاری بھول کر ہنسنے لگتا ہے اور اپنا ہر غم بھول جاتا ہے! 
اوروں کا تو پتا نہیں مگر ہم آپ کو دھوکا نہیں دیتے۔ ہم مزاح کے نام پر مزاح ہی لکھتے ہیں، مزاح کے سوا کچھ نہیں لکھتے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں