"MIK" (space) message & send to 7575

’’پارٹی تو اب شروع ہوئی ہے!‘‘

کئی ہُنر ہیں جو شوبز والوں پر ختم ہیں، بالخصوص خبروں میں رہنے کا ہُنر۔ سچ تو یہ ہے کہ اِس ہُنر یا فن کو شوبز والوں نے اب باضابطہ ٹیکنالوجی کا درجہ دے دیا ہے! اور اگر معاملہ میرا کا ہو تو یوں کہیے کہ بات ٹیکنالوجی سے بڑھ کر اب ''ٹیکٹالوجی‘‘ تک جا پہنچی ہے! میرا اچھی طرح جان گئی ہے کہ کس tactic کو کب کس طرح بروئے کار لانا ہے! میرا نے قوم کو خوب باتوں میں لگایا ہے۔ لوگ اُس کی غلط انگریزی سے محظوظ ہوتے رہتے ہیں اور وہ اِس بہانے خبروں میں رہ کر مطلب کی باتیں بیان کرتی جاتی ہے۔ 
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میرا کی میڈیا ٹاک میں نکھار آتا جارہا ہے اور وہ اب ایسی باتیں بھی کرنے لگی ہے جو اُس میں سیاسی سُوجھ بوجھ کے پیدا ہونے کا عندیہ دیتی ہیں۔ میڈیا والوں سے بتیاتے ہوئے میرا نے کہا ہے کہ عمران خان سے شادی کرنے کا تو سوچا بھی نہیں جاسکتا کیونکہ وہ اُس کے والد کی طرح ہیں! ساتھ ہی اُس نے تحریک انصاف میں شمولیت پر آمادگی بھی ظاہر کی ہے مگر شرط یہ رکھی ہے کہ عمران خان اُسے بیٹی کی حیثیت سے اپنائیں! 
میرا کا یہ یُو ٹرن ثابت کرتا ہے کہ اُس میں محض سیاست دان ہی نہیں بلکہ سفارت کار بننے کی بھی بھرپور صلاحیت موجود ہے! سفارت کاری میں ایسے یُو ٹرن ہی کارگر ثابت ہوتے ہیں۔ کسی بھی شعبے میں کامیابی اُسی کو ملتی ہے جو بدلتے وقت کے تقاضوں کو نبھاتے ہوئے تبدیل ہوتا رہے۔ میرا یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ شوبز ہو یا سیاست، فائدے کا سودا تو بس موقف تبدیل کرتے رہنا ہے، باقی سب تو مایا ہے! 
عمران خان کو باپ کا درجہ دے کر میرا نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ''ہر کامیاب انسان‘‘ را حافطہ نہ باشد! اِس دنیا میں کامیابی کی ایک بڑی کلید یہ بھی ہے کہ انسان حالات کے تقاضے نبھاتے ہوئے اپنی کہی ہوئی بات بھی بُھولتا جائے یعنی اپنی باتوں میں سے صرف وہی کچھ یاد رکھنا ہے جو کام کا ہو۔ 
قارئین اگر بُھول گئے ہوں تو ہم یاد دلادیں کہ سال سوا سال قبل میرا نے عمران خان کو شادی کی پیشکش کی تھی! بیوی بننے کی پیشکش بھی حالات کے تابع تھی اور اب بیٹی بننے پر آمادگی بھی حالات ہی کی ''مرہونِ مِنّت‘‘ ہے! معاملہ ایک مقدس رشتے کا ہے اِس لیے ہم نہ تو لنگوٹی والا محاورہ اپنے کالم میں ٹانکیں گے اور نہ ہی وقت پڑنے پر باپ بنانے والی کہاوت استعمال کریں گے! 
یہ کم بخت حالات انسان کو کہیں کا نہیں رہنے دیتے۔ میرا کی طرف سے شادی کی پیشکش عمران خان نے شاید اِس لیے قبول نہیں کی تھی کہ وہ ریحام خان کے ہاتھوں پریشان ہونا طے کرچکے تھے! تب میرا تھوڑی بہت بے حواس ضرور ہوئی تھی مگر پھر سنبھل گئی تھی۔ اُس نے ہوا میں تیر چلایا تھا۔ خالی گیا تو گیا۔ نشانے پر لگ جاتا تو کامیابی کا جشن مناتی۔ 
آپ سوچیں گے اب ایسا کیا ہوگیا ہے کہ وہ عمران خان کو والد کا درجہ دینے پر تُل گئی ہے۔ کہاں شریکِ حیات بننے کی پیشکش اور کہاں بیٹی بننے پر آمادگی! گمان کہتا ہے کہ عمران خان اور ریحام کی ازدواجی زندگی کا حشر دیکھ کر میرا نے عبرت پکڑنے میں عافیت جانی ہے، وگرنہ ایک سال میں ایسی کون سی قیامت آگئی کہ عمران خان شادی کی منزل سے گزر کر باپ کی منزل تک آپہنچے۔ میرا نے عمران خان اور ریحام کی نام نہاد ازدواجی زندگی کا تجزیہ کرکے بیوی کا ٹرمنل چھوڑ کر بیٹی کے پلیٹ فارم پر آنا بہتر سمجھا۔ 
ویسے تو میرا خود بھی کم خوبصورت نہیں مگر اپنی سے بھی زیادہ خوبصورتی سے اُنہوں نے عمران خان کے معاملے میں یُو ٹرن لیا ہے۔ اِس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اُنہوں نے اپنی میڈیا ٹاک اور پیشہ ورانہ طریقِ واردات میں اداکاری کے ساتھ ساتھ سیاست اور سفارت کا مرکب بھی ملادیا ہے۔ بہت سوں کے لیے اب یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ میرا کی شخصیت میں اداکاری زیادہ ہے یا سیاست۔ وہ یہ سیکھ گئی ہے کہ سیاست صرف ایک بنیادی اصول کے گرد گھومتی ہے ... یہ کہ جان جاتی ہے تو جائے مگر ہاتھ سے کچھ نہ جائے! میرا نے بھی سوچا عمران خان سے تعلق جوڑنا ٹھہرا تو کسی بھی رشتے کو آزمائش کے گڑھے میں دھکیلا جاسکتا ہے اور یوں وہ بیوی نہ سہی، بیٹی بننے پر آمادہ ہوگئی! 
عمران خان نے اچھے خاصے کھیل کُود کے بعد سیاست کی دنیا میں قدم رکھا۔ اور اِس میدان میں بھی کم و بیش 20 سال گزار چکے ہیں مگر افسوس کہ وہ سیاست نہیں سیکھ سکے۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ میرا کی پیشکش قبول کرتے ہوئے عمران خان اُنہیں اپنی پارٹی میں قبول کرلیں تو فائدے میں رہیں گے۔ وہ اب تک سیاست اور سفارت کے اصول و آداب سے واقف نہیں۔ میرا بخوبی آگاہ ہے۔ ایسے میں وہ میرا سے بہت کچھ سیکھنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ میڈیا ٹاک کا بنیادی اصول بھی سیکھ لیں گے ... یہ کہ کب کب کیا کیا بھول جانا ہے اور کیا یاد رکھنا ہے! عمران خان کے زمانے تک کرکٹ میں سیاست زیادہ نہیں گُھسی تھی ورنہ تھوڑی بہت سیاسی کاری گری سیکھ لیتے۔ کرکٹ کی دنیا میں رہتے ہوئے عمران خان اُتنی اداکاری بھی نہ سیکھ پائے جتنی محسن حسن خان نے سیکھی اور بالی وڈ میں انٹری بھی دی! عمران خان شاید اِسی میں خوش تھے کہ بالی وڈ کی حسینائیں اُن کی زندگی میں انٹریاں دیتی رہیں! 
اب مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان کی شخصیت میں بہت کچھ الجھ گیا ہے۔ اسلام آباد کے ریڈ زون میں دھرنے کے دوران اُنہوں نے اداکاری کی کوشش کی تو لوگ اُسے سیاست سمجھے اور جب سیاست فرمانے کی کوشش کی تو لوگوں نے اُسے اداکاری سمجھتے ہوئے انجوائے کیا! اور جب کبھی وہ اِن تینوں معاملات کو ایک پلیٹ فارم پر لانے میں کامیاب ہوتے ہیں تو سبھی محسوس کرنے لگتے ہیں کہ آرڈر پر مال تیار کیا جارہا ہے! 
میرا کا معاملہ یہ ہے کہ جہاں سیاست کرنی ہو وہاں اداکاری بھی کر گزرتی ہے اور جہاں محض اداکاری سے کام چل سکتا ہو وہاں سیاسی کاری گری کو بھی بروئے کار لے آتی ہے! یعنی معاملہ ایک ٹکٹ میں دو مزے لینے کا ہے۔ عمران خان نے بھی ہمیشہ ایک ٹکٹ میں دو مزے لینے کی کوشش کی ہے مگر معاملہ اُن کے ہاتھ سے پھسل کر اب تھری اِن ون کے مرحلے میں داخل ہوگیا ہے! جب وہ سیاست میں اداکاری کی آمیزش کرتے ہیں تو اپنے اور پرائے سبھی اِسے کھیل کود کا حصہ سمجھ بیٹھتے ہیں! اور اگر وہ کھیل کود کی طرف آئیں تو لوگ اُس میں چُھپی ہوئی سیاسی اداکاری کو بھانپ لیتے ہیں۔ بنی گالہ والے گھر کے لان میں ریحام خان کے ساتھ کھیلے جانے والے میچ کا یہی معاملہ تھا۔ عمران خان نے ایک رنگ میں تین رنگ دکھانے کی کوشش کی جو دھرنے کی طرح بیک فائر کرگئی۔ 
عمران خان نے کھیل کود، سیاست اور اداکاری کو ایک دوسرے میںپیوست کرکے عجیب ملغوبہ بنا ڈالا ہے اور یہ ملغوبہ اُن کے سیاسی کیریئر کے ساتھ ساتھ ازواجی زندگی پر بھی بُری طرح اثر انداز ہوا ہے۔ 
گزشتہ دنوں عمران خان کے بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی میں انگوٹھی دیکھ کر میڈیا والے چونک پڑے تھے اور اُن کے کانوں میں تیسری شادی کی شہنائی گونجنے لگی تھی۔ بھلا ہو پیش گوئی کرنے والوں کا جنہوں نے ستمبر 2016 سے پہلے عمران خان کی تیسری شادی کا عدم امکان بیان کرکے میڈیا والوں کے ''غبارۂ قیاس‘‘ سے ہوا نکال دی۔ میرا نے بھی شاید ستمبر 2016 والی بات سُن کر ہمت ہار دی اور عمران خان کو والد کے درجے پر فائز کردیا۔ 
سرِ دست تحریک انصاف پر بھی جمود طاری ہے۔ بہت سے دن سے کوئی دھرنا نہیں دیا اِس لیے کارکن بھی پژمردہ سے ہیں۔ ایسے میں قرینِ عقل تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ عمران خان میرا کو اُس کی اپنی شرط پر اپنی پارٹی میں لائیں تاکہ مُردہ معاملات میں کچھ جان پڑے، کارکنوں میں کچھ تحرّک پیدا ہو، وہ میرا کی مہارت سے فیض یاب ہوکر اپنی سیاسی کاری گری کا گراف بلند کریں اور ہم بھی کہہ سکیں کہ ''پارٹی تو اب شروع ہوئی ہے!‘‘ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں