"MIK" (space) message & send to 7575

نیلے فیتے کا زہر

ڈاکٹر شکیل فاروقی نے ایک بار پھر یاد کیا‘ اور ہم ایک بار پھر اُن کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ موقع تھا فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک سٹاف ایسو سی ایشنز (فاپواسا) کی پریس کانفرنس کا۔ یہ پریس کانفرنس جامعہ کراچی میں فیکلٹی آف مینجمنٹ سائنسز کے ڈین کے دفتر میں رکھی گئی۔ ''فاپواسا‘‘ نے پریس کانفرنس سے قبل اجلاس منعقد کیا جس میں جامعات کے اساتذہ کو درپیش مسائل کا جائزہ لیا گیا۔ 
ہم رپورٹر ہیں نہ تعلیم ہماری ''بیٹ‘‘ ہے مگر پھر بھی ڈاکٹر شکیل فاروق کے خلوص کا احترام کرتے ہوئے ''فاپواسا‘‘ سندھ چیپٹر کی صدر عرفانہ ملاح کے بیان کردہ مسائل سُنے۔ اُن کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ ملک بھر کی جامعات کے لیے قانون کچھ اور ہے اور سندھ کے لیے قانون کچھ اور۔ امتیازی سلوک کی کئی مثالیں اُنہوں نے گِنوائیں۔ مثلاً ملک بھر میں جامعہ کے کسی بھی استاد کو (اعلیٰ تعلیم کی غرض سے) بیرون ملک جانے کے لیے شیخ الجامعہ سے این او سی لینا ہوتا ہے، سندھ میں یہ معاملہ گورنر کی صوابدید پر چھوڑا گیا ہے۔ کیوں؟ اِس کی صراحت کرنے کی حکومت نے اب تک زحمت گوارا نہیں کی۔ 
ابتدائی کلمات ''فاپواسا‘‘ کے صدر نعمت اللہ لغاری صاحب نے ادا کیے۔ ان کے بعد عرفانہ ملاح نے سندھ کی جامعات کے اساتذہ کو درپیش مسائل بیان کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے معاملات تھوپے جا رہے ہیں۔ صوبوں کو خود مختاری دی گئی ہے مگر جامعات کی خود مختاری داؤ پر لگا دی گئی ہے۔ جو لیکچرر بنائے جانے کا بھی اہل نہ ہو اُسے پرو وائس چانسلر لگا دیا جاتا ہے! انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت تمام معاملات وائس چانسلرز سے طے کرتی ہے جبکہ وائس چانسلرز محض انتظامی امور کے سربراہ ہوتے ہیں، اکیڈمک اسٹاف کے نمائندے نہیں ہوتے‘ یعنی اکیڈمک معاملات میں وائس چانسلرز سے حتمی بات نہیں کی جا سکتی‘ مگر یہی ہو رہا ہے۔ 
عرفانہ ملاح نے حکومت پر جامعات کے معاملات میں خطرناک حد تک مداخلت کا الزام عائد کیا تو ہمیں حیرت ہوئی۔ ان کا شکوہ تھا کہ جامعات کے اساتذہ سے امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ یہ شکوہ بھی ہماری حیرت میں اضافے کا سبب بنا۔ عرفانہ ملاح کی سادگی پر ہنسی آئی۔ انہوں نے جو کچھ کہا اُس کا خلاصہ یہ تھا کہ جامعات کی سطح پر اکیڈمک معاملات میں بھی آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ یہ بھی کوئی انوکھی بات نہ تھی کہ ہمیں اچنبھا ہوتا۔ 
عرفانہ ملاح کو شاید یاد نہیں کہ ہم ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جو انتہائی روایت پسند ہے۔ روایت پسندی کی ڈگر سے ہٹنا کسی کو بھی پسند نہیں۔ کرپشن کیوں بڑھتی جا رہی ہے؟ سیدھی سی بات ہے، کرپشن اب محض خصلتِ بد نہیں، ہمارے معاشرے کی ''درخشاں‘‘ اور پختہ روایت ہے! لوگ جب دیکھتے ہیں کہ کرپشن کی روایت کا کھونٹا گڑا ہوا ہے تو وہ بھی موقع ملنے پر اِس روایت کو آگے بڑھاتے ہیں! 
عرفانہ ملاح نے پریس کانفرنس میں جو کچھ کہا اُس کا ماحصل یہ تھا کہ ہمارے ہاں کوئی بھی اپنا کام تو ڈھنگ سے کر نہیں رہا مگر دوسروں کے کام میں ضرور مداخلت کر رہا ہے۔ اِدراک کے اس محاذ پر بھی عرفانہ صاحبہ اپنی سادگی کے ہاتھوں مات کھا گئیں۔ معاشرے میں اگر کوئی اپنا کام نہیں کر رہا تو حیرت کیوں اور تاسّف کیسا؟ ہمارے ہاں یہی تو اب اصل کام ہے! بے اصولی عام ہے۔ ایسے میں کوئی اگر پیٹ بھر کر یعنی سراسر بے اصول ہو تو ہم اُسے اصول پسند نہ کہیں گے تو اور کیا کہیں گے؟ جس بازار میں بے ایمانی عام ہو وہاں ایمان دار کو بے ایمان ہی کہا جائے گا! 
سمندر میں چھوٹے بڑے تمام جزائر پر ماحول یکساں اثر انداز ہوتا ہے۔ معاشرہ بھی ایک سمندر ہے اور جامعات اس کے جزائر میں سے ہے۔ جو حال معاشرے کا ہی وہی جامعات کا ہے۔ اپنے فرائض سے غفلت کا مرتکب ہونا اب ڈھٹائی اور فیشن کا مرکّب ہے۔ ایک دور تھا کہ لوگ اپنا کام نہ کر پاتے تھے تو شرمندہ ہوتے تھے اور بعض تو خجالت کے مارے زمین میں گڑ جاتے تھے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ لوگ اپنا کام پس پشت ڈال کر دوسروں کے معاملات میں مداخلت کو پیدائشی حق اور جدّی پشتی فریضہ گردانتے ہیں‘ اور اگر کوئی اپنے فرائض سے غفلت برتنے پر شرمندہ دکھائی دے تو ''ایلین‘‘ سمجھ کر اُس سے کنارہ کشی اختیار کی جاتی ہے! عرفانہ ملاح نے وفاقی اور صوبائی حکومت پر من پسند افراد کو نوازنے کا الزام بھی عائد کیا۔ ہمارے صحافتی کولیگ نے یاد دلایا کہ وزیر اعلیٰ کے داماد بھی اہم عہدے پر لامحدود اختیارات کے جلوے بکھیر رہے ہیں۔ عرفانہ شاید بھول رہی ہیں کہ جس معاشرے میں ہم زندہ ہیں اُس میں سب سے اہم بات ہے اپنے مفاد کو زیادہ سے زیادہ تقویت بہم پہنچانا‘ یعنی اپنوں کو زیادہ سے زیادہ نوازنا۔ جب ہر شعبہ اِس روش پر گامزن ہے تو تعلیم کو بھلا کیوں ''استثنا‘‘ دیا جائے! جن کے ہاتھ میں اختیار ہے انہیں اور کچھ یاد ہو نہ ہو، اتنا ضرور یاد رہتا ہے کہ ''صلہ رحمی‘‘ کے کھاتے میں اقربا پروری کے مرحلے سے گزرتے رہنے ہی میں کامیابی اور ترقی کا راز مضمر ہے۔ 
عرفانہ ملاح یہ بھی بھول رہی ہیں کہ کسی زمانے میں سُرخ فیتے کی بڑی دھوم تھی۔ بیوروکریسی کے ہتھکنڈوں کو سُرخ فیتہ کہا جاتا تھا۔ اب سُرخ فیتے کی نوعیت بدل چکی ہے۔ کسی اہم منصب پر رشتہ دار کو فائز کرنا بھی سُرخ فیتہ ہی ہے کہ خون کا رنگ سُرخ ہوتا ہے! 
نئے سُرخ فیتے یعنی رشتہ داروں کو نوازنے کی روش اتنی پختہ ہو چکی ہے کہ اب اِس کے ترک کیے جانے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ اور سچ یہ ہے کہ اِس سُرخ فیتے کے ہاتھوں انتظامیہ کی رگوں میں زہر پھیل گیا ہے۔ زہر کی نیلاہٹ صاف دکھائی دے رہی ہے۔ گویا سُرخ فیتے کے ہاتھوں زہر اتنا پھیل چکا ہے کہ اب اِسے نیلا فیتہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ملک کے نظم و نسق کی رگوں میں نیلے فیتے کا زہر اتنا اتر چکا ہے کہ معاشرے کی انتظامی موت زیادہ دور کا معاملہ نہیں لگتی۔ 
رپورٹرز نے جب مطالبات منوانے کے لیے اپنائی جانے والی حکمت عملی سے متعلق استفسار کیا تو عرفانہ ملاح نے کہا کہ تدریس ترک نہیں کی جا سکتی کیونکہ ایسا کرنے سے طلبا کا نقصان ہو گا۔ اور عدالت سے رجوع کرنے کا بھی کچھ خاص اثر دکھائی نہیں دیتا۔ لاڑکانہ کی شہید بے نظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی میں بدانتظامی کے حوالے سے عدالت میں 80 درخواستیں زیر التوا ہیں! ایسے میں وفاقی یا صوبائی حکومت کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا بہتر آپشن دکھائی نہیں دیتا۔ عرفانہ ملاح نے کہا کہ احتجاج کے لیے کوئی مہذب آپشن ہی اختیار کیا جا سکتا ہے۔ اُن کی یہ بات بھی ہمارے حلق سے اتر نہ سکی۔ اساتذہ تہذیب سکھانے کے لیے ہوتے ہیں۔ اور ''فاپواسا‘‘ کے عہدیدار بھی یقیناً اپنا منصب جانتے ہیں مگر اِسی معاشرے میں نچلی سطح کے اساتذہ بھی تو احتجاج کرتے ہیں اور اپنی بات منوا کر دم لیتے ہیں۔ سکول ٹیچرز نے تو ہر بار یہی طریقہ اپنایا ہے اور خود کو منوایا ہے۔ چند رپورٹرز نے عرفانہ ملاح کو یاد دلایا کہ دو سال سے وہ مہذب آپشن کی بات کر رہی ہیں اور معاملات جوں کے توں ہیں۔ حکومت کی طرف سے کوئی لولی پاپ ملتا ہے اور ''فاپواسا‘‘ والے مان جاتے ہیں! 
ہم سمجھ گئے کہ ہماری برادری کے لوگ عرفانہ ملاح کو کسی خطرناک اعلان کے لیے اکسا رہے ہیں مگر محترمہ نے بھی کچّی گولیاں نہیں کھیل رکّھیں! یہاں بھی انہوں نے مہذب آپشن ہی اختیار کیا اور بات کو ہنستے مسکراتے ٹال گئیں۔ 
''فاپواسا‘‘ کی پریس کانفرنس سے ہم نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ سُرخ فیتے کے بعد اب نیلے فیتے سے چھٹکارا پانا بھی ناگزیر ہے۔ پی آئی اے اور سٹیل مل کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اوور سٹافنگ کے نتیجے میں یہ دونوں ادارے تباہ ہو چکے ہیں۔ جامعہ کراچی جیسے ادارے بھی کل کو اوور سٹافنگ اور تھوپے جانے والے فیصلوں کے نتیجے میں یکسر ناکارہ ہو سکتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے سرکاری جامعات کے اساتذہ کو مہذب آپشن کے چکر میں یکسر بے عمل نہیں ہو رہنا چاہیے۔ یہ نئی نسل کو بہتر زندگی کے لیے تیار کرنے والوں کا معاملہ ہے۔ اس معاملے میں تساہل رَوا ہے نہ بے جا تہذیب! یہ فیصلے کی گھڑی ہے۔ شرافت کے دائرے میں غیر ضروری طور پر مقید رہنے والے پھر اِسی دائرے میں گھومتے رہتے ہیں! عرفانہ ''ملاح‘‘ صاحبہ کو تو معلوم ہی ہونا چاہیے کہ جامعات کے اساتذہ کی کشتی کو گرداب سے کیسے نکالا جا سکتا ہے! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں