تحقیق کی دنیا میں پایا جانے والا ایک اچھا رجحان یہ ہے کہ اب انسان کو بخش دیا گیا ہے اور حیوانات پر زیادہ سے زیادہ توجہ دی جارہی ہے۔ دنیا بھر میں احساسات، جذبات اور رویّوں کے حوالے سے جو تحقیق کی جاتی ہے وہ کچھ اِس قسم کی ہے کہ اللہ دے اور بندہ لے! غالبؔ نے غالباً ایسی ہی تحقیق کے لیے کہا تھا ع
تو مشقِ ناز کر، خونِ دو عالم میری گردن پر!
ایک زمانے سے انسان محققین کا تختۂ مشق تھا۔ اب خیر سے حیوانات کو عزت بخشی جارہی ہے۔ اِس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تحقیق کی دنیا میں رجحانات کس قدر تبدیل ہوچکے ہیں اور مہم جوئی کا جذبہ کس حد تک پروان چڑھ چکا ہے۔
کئی عشروں سے انسان کو تحقیق کے معاملے میں تختۂ مشق بنایا جارہا تھا تب کسی بھی محقق نے کسی انسان سے اجازت لینا ضروری نہیں سمجھا تھا۔ اور ہم یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ حیوانات سے بھی اجازت لینے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی ہوگی۔ یہ بات ہم اس لیے کہہ رہے ہیں کہ انسان تو تحقیق کے وار سہہ کر بھی خاموش رہتے ہیں کہ اب اپنوں سے کیا شِکوہ کریں! تحقیق کے لیے حیوانات سے اجازت طلب کی جائے تو وہ یقیناً انکار کریں گے کیونکہ انسانوں پر ہونے والی تحقیق کے اثرات و نتائج دیکھ کر اُنہوں نے کچھ نہ کچھ ضرور سیکھا ہوگا!
برطانیہ کی ایک جامعہ کے محققین نے بتایا ہے کہ گھوڑے اور کتے بھی انسانی جذبات کو سمجھتے ہیں۔ یعنی اگر کوئی انسان غصے میں ہو تو اسے دیکھ کر گھوڑوں اور کتوں کے تاثرات بھی ویسے ہی ہوجاتے ہیں۔ اسی طور ماحول میں ہر طرف مسرّت ہو تو گھوڑے اور کتے بھی جھومنے لگتے ہیں۔
ہمیں اِس بات پر حیرت ہے کہ گھوڑے اور کتے اگر انسانی جذبات سمجھتے ہیں تو حیرت کیسی؟ انسان کا ان دونوں جانوروں سے جنم جنم کا تعلق ہے۔ اور تعلق کیا ہے، اِن دونوں بے زبانوں کے لیے تو یہ ''مجبوری کا نام شکریہ‘‘ والا معاملہ ہے! یہ انسانوں کے درمیان ہزاروں سال سے ہیں۔ مگر سچ یہ ہے کہ یہ ساتھ اِن کی مرضی کا آئینہ دار نہیں۔ انسان اب تک گھوڑوں اور کتوں کو ان کی مرضی کے بغیر اپنے ساتھ رکھتا آیا ہے۔ انسانوں کے جذبات کو جس حد تک ان دونوں جانوروں نے سمجھا ہے اُس کی روشنی میں پورے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ مرضی معلوم کی جائے اور اُس مرضی کا احترام بھی کیا جائے تو یہ دونوں کسی بھی حال میں انسان کے ساتھ رہنا پسند نہیں کریں گے!
گھوڑوں کی دانش کے حوالے سے تحقیق میں مصروف ایمی اسمتھ کہتی ہیں کہ گھوڑے ایک طویل مدت سے انسانوں کے ساتھ رہتے آئے ہیں اِس لیے ان میں انسانوں کو سمجھنے کی صلاحیت کا پیدا ہو جانا حیرت انگیز نہیں۔ یقیناً، ایمی اسمتھ بالکل درست کہتی ہیں۔ یہ بات ذرا بھی حیرت انگیز نہیں کہ گھوڑے انسانوں کے جذبات کو سمجھ لیتے ہیں۔ حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ انسانوں کے بارے میں بہت کچھ جان لینے کے باوجود گھوڑے اب بھی انسانوں کے درمیان رہ لیتے ہیں! سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ اُن کی شرافت ہے یا مجبوری۔ یا کوئی موہوم سی اُمید کہ شاید کبھی انسان اُن سے کچھ سیکھ لے، اپنی اصلاح پر مائل ہو!
آپ نے پورس کے ہاتھیوں کے بارے میں سُنا ہی ہوگا جو جنگ کے میدان میں دشمن کے بھرپور حملے سے گھبراکر یُوں پلٹے تھے کہ اپنے ہی سپاہیوں کو کچل ڈالا۔ کبھی آپ نے گھوڑوں کے بارے میں سُنا ہے کہ انہوں نے معرکہ آرائی کے دوران پیٹھ دکھائی ہو، دھوکا دیا ہو؟ ہمیں (گھوڑوں پر) پورا یقین ہے کہ آپ نے ایسی کوئی بات کبھی نہیں سُنی ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ جنگ کے میدان سمیت گھوڑوں نے انسانوں کا ہر میدان میں بھرپور ساتھ دیا ہے۔ اب یہی دیکھیے کہ جس جانور کو لمبی ریس کے لیے خلق کیا گیا ہے وہ ٹانگے اور وکٹوریہ میں جُت کر انسانوں کو چھوٹے چھوٹے فاصلوں تک پہنچانے کا کام بھی بخوشی کرتا رہتا ہے۔ اور تو اور، بار برداری کے لیے بھی گھوڑے کو انتہائی ذِلّت آمیز طریقے سے استعمال کیا جاتا ہے۔ کہاں طویل فاصلوں تک دوڑتے رہنے کا عادی گھوڑا ... اور کہاں برف کی سِلیں، پھل اور سبزیاں کھینچنے کی مشقّت!
ایک زمانے تک گھوڑوں نے کھیتی باڑی میں بھی انسان کا بھرپور ساتھ دیا ہے مگر ہائے رے انسان کہ اُس نے کچھ نہ سیکھا۔ گھوڑوں میں انسانی جذبات سمجھنے کی صلاحیت کو تحقیق کا موضوع قرار دینے پر حیرت کیوں ہو؟ تحقیق تو اِس نکتے پر ہونی چاہیے کہ ہزاروں سال سے گھوڑوں کے ساتھ زندگی بسر کرنے پر بھی انسان نے اب تک گھوڑوں کی صفات اپنے اندر کیوں پیدا نہیں کیں؟ مثلاً گھوڑوں کے ساتھ ہزاروں سال گزار لینے پر بھی انسان اب تک گھوڑے اور گدھے کا فرق سمجھنے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا نہیں کرسکا! آج بھی بہت سے گدھوں کو گھوڑا سمجھ کر اپنالیا جاتا ہے اور بعد میں اُن پر لعنت بھیجی جاتی ہے! اس معاملے میں بڑے کاروباری اداروں کے ایچ آر والے خاص طور پر قابلِ ذکر و مذمّت ہیں! محض سی وی دیکھ کر جنہیں گھوڑے سمجھ لیا جاتا ہے وہ کچھ ہی مدت کے بعد ایسے گھامڑ ثابت ہوتے ہیں کہ اصلی گدھے بھی دیکھیں تو اپنی صلاحیتوں اور افادیت پر رشک کریں!
ایک زمانے سے انسان اس بات کا رونا روتا آیا ہے کہ اس دنیا میں وفا یا تو ہے ہی نہیں یا اگر ہے تو سلیمانی ٹوپی اوڑھے ہوئے ہے یعنی کسی کو دکھائی نہیں دیتی۔ اب آپ ہی بتائیے کہ اس شِکوے پر کیا تبصرہ کیا جائے۔ جب کتے اور گھوڑے انسانی ماحول کا حصہ ہیں تو کیسے کہا جاسکتا ہے کہ کہیں وفا نہیں! ہاں، بات یوں کہی جانی چاہیے کہ انسانی کی دنیا میں وفا عنقا ہوچکی ہے یا معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔ دیہی زندگی میں گھوڑے انسانی ماحول کا لازمی جُز سمجھے جاتے ہیں اور شہری ماحول میں کتے انسانوں کو بہت کچھ سکھانے کے لیے موجود ہیں۔ جب تک اس دنیا میں گھوڑے اور کتے موجود ہیں، انسان کو وفا کے اٹھ جانے کا رونا کسی حال میں نہیں رونا چاہیے!
کتوں میں صرف وفاداری پائی جاتی ہے، گھوڑا تو محنت اور وفا دونوں ہی معاملات میں پیش پیش ہے۔ شدید بحرانی کیفیت میں گھوڑا کبھی بے وفائی نہیں کرتا، پارٹی نہیں بدلتا۔ اور محنت سے بھی جی نہیں چُراتا۔ انسان اور اس کے سامان کو خوش خوشی ڈھوتا اور کھینچتا ہے۔ اور پھر اِس کے عوض وہ چارے کے ساتھ ساتھ انسان کے ہاتھ سے چابک بھی کھاتا ہے! اب تو آپ گھوڑوں کی وفا اور انسانوں کی بے وفائی کا فرق سمجھ ہی گئے ہوں گے۔
محققین کسی بھی حیوان پر تحقیق کرسکتے ہیں۔ حیوانات پر یہ ستم ڈھانے سے انہیں کون روک سکتا ہے مگر ہم اتنا ضرور عرض کریں گے کہ گھوڑوں، گدھوں اور کتوں سمیت انسانی ماحول میں پائے جانے والے کسی بھی جانور پر تحقیق کا ڈول ڈالتے وقت محققین کو اس نکتے پر بھی تحقیق کرنی چاہیے کہ انسان نے اب تک حیوانات سے کیا سیکھا ہے! بندر فخریہ بتاسکتا ہے کہ انسان نے قلا بازی اور خطرہ بھانپ کر ایک بلند شاخ سے دوسری شاخ پر جا بیٹھنے کا کا ہنر اُس سے سیکھا ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اب بہت سے انسان چاہیں تو بندروں کو قلا بازی کھانا اور کسی ایک بلند شاخ سے دوسری پر جا بیٹھنا سکھا سکتے ہیں!
کتے بھی کبھی کبھی تو شرمندگی محسوس کرتے ہوں گے کہ ہزاروں سال ساتھ رہنے پر بھی وہ اب تک انسان کو حقیقی وفا اور مالک پر مَر مِٹنے کا وصف نہیں سِکھا سکے! انسانی جذبات کو سمجھنے والے حیوانات میں گدھے بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ مگر یہ بات اُن کے لیے بھی حیرت انگیز ہوگی کہ انسان اُن سے وفا سیکھتا ہے نہ محنت کرنے کی سرشت مگر جب بھی کسی کو ذلیل کرنا مقصود ہو تو اُسے جھٹ سے گدھا قرار دے دیا جاتا ہے!
گھوڑوں اور کتوں نے انسانی جذبات کو سمجھنے میں مہارت حاصل کرلی تو خوش ہوکر مطمئن ہو رہنا کافی نہیں۔ گھوڑوں، کتوں اور دیگر پالتو جانوروں کے رویّے سمجھنے کی کوشش کی جانی چاہیے تاکہ آج کے انسان کی زندگی میں کچھ تو معنویت پیدا ہو، کسی حد تک تو یہ احساس پروان چڑھے کہ ہم کام کی زندگی بسر کر رہے ہیں!