کہتے ہیں جب اِنسان کو کسی معاملے میں کوئی فکر لاحق ہو جاتی ہے تو وہ اُسی فکر میں دُبلا ہوتا جاتا ہے۔ آپ نے یہ محاورہ بھی سُنا ہی ہو گا کہ قاضی جی دُبلے کیوں، اندیشہ پورے شہر کا۔ ویسے دُبلا کرنے والے اور بھی بہت سے معاملات ہیں۔ اگر کسی کو پوری قوم کی فکر لاحق رہتی ہو تو اُسے بھی دُبلا ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اللہ ہمارے قائدین کو سلامت رکھے جو ہر وقت ہشّاش بشّاش رہتے ہیں، ورنہ دنیا بھر میں اُن کے چہروں سے رونق غائب ہو جاتی ہے جو اپنی قوم کی رہبری کے منصب پر فائز ہوتے ہیں!
ایک زمانے سے ہم بھی بڑھے ہوئے وزن اور اُس سے کہیں زیادہ بڑھے ہوئے پیٹ سے پریشان ہیں۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے، ہم سُنتے آئے ہیں کہ نظر نہ صرف یہ کہ لگتی ہے بلکہ کبھی کبھی تو ایسی لگتی ہے کہ پتّھر کو بھی چیر دیتی ہے۔ دینی تعلیمات میں بھی نظر سے بچنے کی دعائیں ملتی ہیں۔ ہمیں اِس سے انکار نہیں کہ نظر لگتی ہے مگر صاحب جب شمعِ محفل ہمارے سامنے آتی ہے تب نظر کو کیا ہو جاتا ہے، وہ کیوں اپنا اثر نہیں دکھاتی؟ رات دن، بلاناغہ لوگ بڑھتے ہوئے وزن اور بے ہنگم ہوتے ہوئے جسم کی طرف ہمیں متوجہ کرتے رہتے ہیں مگر کبھی ایک بار بھی کسی کی نظر ہمارے پیٹ کو نہیں لگی اور اُس کی ''تابانی‘‘ ذرّہ بھر بھی ماند نہیں پڑی!
اللہ بھلا کرے ماہرین کا جو کھانے پینے کی عادات کے حوالے سے عجیب و غریب نوعیت کی تحقیق کے ذریعے انوکھے حقائق سے باخبر رکھ کر ہمیں ہشّاش بشّاش رکھنے کا سامان کرتے رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم کھانے پینے سے اُتنی توانائی نہیں پاتے جتنی توانائی ہمیں کھانے پینے سے متعلق عجیب و غریب تحقیق کے نتائج پڑھ کر ملتی ہے! کبھی کبھی تو یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم بہت کچھ کھا رہے ہوتے ہیں اور اس خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ توانائی مل رہی ہے مگر ماہرین بتاتے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں ہے یعنی سارا کھایا پیا ضائع ہو رہا ہے۔ ماہرین کے مشورے پر ہم خوراک بدلتے ہیں تو ماہرین کا ایک اور گروپ سامنے آکر دعوٰی کرتا ہے جو کچھ ہم نے ترک کر دیا ہے وہی کھاتے رہنے سے توانائی ملتی ہے! ماہرین کے دو گروپوں کی تضاد بیانی کا نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ لوگ اپنے کھائے پیے ہی کو ڈھنگ سے ہضم نہیں کر پاتے، خون جل کر رہ جاتا ہے! اور جب ایسا ہو گا تو جسم پر کچھ نہ کچھ تو منفی اثر مرتب ہوکر رہے گا یعنی تھوڑا بہت دُبلاپا وارد ہوکر رہتا ہے۔ دیکھا آپ نے؟ ماہرین کتنی خوبصورتی سے موٹاپے کو کسی اور راستے سے چلتا کر دیتے ہیں!
اِنسان موٹا کب ہوتا ہے؟ جب ورزش نہیں کرتا یا بہت کھاتا ہے۔ اور ورزش کا ذکر تو ہم نے یوں ہی روانی کر دیا، اصل معاملہ تو کھاتے رہنے کا ہے۔ قصوں کہانیوں اور خبروں میں ہم دو وقت کی روٹی کے اہتمام کا ذکر بہت سنتے ہیں۔ صبح کے ناشتے کو ملائیے تو معاملہ تین وقت کی روٹی کا ہے۔ اگر شام کی چائے (بشمول سموسہ، بسکٹ) کو بھی شمار میں رکھیے تو معاملہ یک نہ شُد، چار شُد والا ٹھہرتا ہے! اور ہر ڈھائی تین گھنٹے بعد معدے میں اُنڈیلی جانے والی چائے کو گِنتی سے باہر نہ رکھیے تو معاملہ پانچ وقت کے کھانوں تک پہنچ کر دم لیتا ہے!
ہم جس کائنات کا حصہ ہیں اُس میں کوئی بھی چیز سُکون کی حالت میں نہیں۔ ہر شے گردش کر رہی ہے۔ ستارے اور سیّارے رات دن محوِ سفر رہتے ہیں۔ اِسی طور کائنات کے دیگر مظاہر بھی متحرّک ہی پائے گئے ہیں۔ ہم نے کائنات کا اصول اپنے معدے پر بھی منطبق کر دیا ہے۔ ہمارا معدہ رات دن متحرّک رہتا ہے۔ جو کچھ ہم تواتر سے معدے میں انڈیلتے رہتے ہیں اُسے ہضم کرنے اور اُس سے توانائی کشید کرکے جسم کے پورے نظام میں داخل کرنے کے لیے ہمارے معدے کو غیر معمولی محنت کرنا پڑتی ہے۔ اب بے چارا معدہ کہاں تک اپنا کام کرے، اُسے بھی تو آرام درکار ہوتا ہے۔ جب معدے کے نظام پر زیادہ زور پڑتا ہے تو وہ تھوڑا بہت ''ان کِیا‘‘ بھی چھوڑ دیتا ہے۔ اِسی کے نتیجے میں موٹاپا ہماری طرف لپکتا ہے۔ یعنی درحقیقت موٹاپے کو ہم خود مدعو کرتے ہیں۔ اور موٹاپے کی یہ عادت تسلیم شدہ ہے کہ وہ کبھی کوئی دعوت رد نہیں کرتا، پوری آب و تاب کے ساتھ تشریف لاتا ہے!
خوراک اور موٹاپے کا تعلق ثابت کرنے کے پیدائشی منصب پر فائز ماہرین کہتے ہیں کہ باورچی خانہ اگر بے ہنگم ہو تو موٹاپے میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ دلیل یہ دی گئی ہے کہ باورچی خانے کی میز پر سامان پڑا ہو، چولھے کے پاس پلیٹوں میں سالن رکھا ہو، سِنک میں گندے برتن دھوئے جانے کے منتظر ہوں تو یہ سب دیکھ کر ذہن الجھتا ہے اور کچھ نہ کچھ کھانے کی شدید خواہش پیدا ہوتی ہے۔ ایسے میں لوگ کوکیز کی طرف زیادہ لپکتے ہیں۔ یعنی ماہرین یہ کہنا چاہتے ہیں کہ بے ترتیبی سے پیدا ہونے والی ذہنی الجھن کو انسان کچھ نہ کچھ کھا کر رفع کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اِسے کہتے ہیں ماروں گھٹنا، پھوٹے آنکھ۔ گویا بے ترتیبی ہماری اپنی پیدا کردہ ہو اور اُس کی سزا بھگتے بے چارہ معدہ!
آسٹریلیا کی ساؤتھ ویلز یونیورسٹی کی محقق لینی وارٹینین کہتی ہیں کہ موٹاپے سے بچنے کا ایک اچھا طریقہ یہ ہے کہ خواتین باورچی خانے کو بالکل صاف ستھرا اور منظّم رکھیں۔ اگر باورچی خانہ منظّم ہو تو کچھ بھی اضافی کھانے کی خواہش پیدا نہیں ہوتی۔ کارنیل فوڈ اینڈ بریڈ لیب کے تحت کرائی جانے والی تحقیق کے نتائج معروف جریدے ''انوائرنمنٹ اینڈ بیہیویئر‘‘ میں شائع کیے گئے ہیں۔ اِس تحقیق کے حوالے سے لینی وارٹینین مزید کہتی ہیں یہی معاملہ مردوں کا بھی ہے۔ بہت سے لوگ مراقبے کے ذریعے بھی ''ضبطِ اشتہا‘‘ کی کوشش کرتے ہیں۔ لینی وارٹینین کہتی ہیں کہ باورچی خانے کے ساتھ ساتھ اپنے کمرے کو بھی پوری طرح منظّم اور صاف رکھ کر مرد بھی اپنی بے جا اور بے مصرف یعنی اضافی بھوک پر قابو پا سکتے ہیں۔
ہم سمجھ گئے کہ اضافی کوکیز کھانے سے بچنے کا طریقہ سُجھانے کے نام پر آسٹریلین محقق دراصل لوگوں کو کام پر لگانا چاہتی ہیں یعنی لوگ اگر ورزش کے نام پر گھر سے باہر قدم رکھنے کے لیے تیار نہ ہوں تو اُنہیں باورچی خانے اور کمرے کی صفائی میں ہی الجھا دیا جائے! ماہرین کا یہ پُرانا طریقِ واردات ہے، وہ ایک تیر سے تین چار نشانے لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کسی ایک آدھ تیر کو تو نشانے پر لگ ہی جانا ہے! فرض کیجیے لوگ باورچی خانے کو صاف رکھنے پر مائل ہوں اور کمرے میں بھی سب کچھ منظّم اور باترتیب رکھیں تو اپنا بیشتر وقت گھر کے اِن دو حصوں پر صرف کریں گے۔ اور جب وہ ایسا کریں گے تو دوسری بہت سے سرگرمیوں کے لیے وقت نہیں نکال پائیں گے، بالخصوص سوشل میڈیا کے لیے۔ اور جب سوشل میڈیا کو وقت نہیں دے پائیں گے تو نہ رات دن سٹیٹس کو اپ ڈیٹ کر سکیں گے اور نہ کسی کے کمنٹس کا بھرپور جواب دے پائیں گے۔ سب کے ساتھ نہ چل پانے کا دُکھ اُنہیں اندر ہی اندر چاٹنے لگے گا اور یہی دکھ دُبلاپے کو نازل کرنے کا سبب بنے گا! یعنی باورچی خانے سمیت گھر کی صفائی میں مصروف رہنے سے بھوک تو خیر کم لگے گی ہی، ان سوشل ہو جانے کا غم بھی تو جسم کو نچوڑنے لگے گا اور یوں موٹاپا زائل ہوتا جائے گا! دیکھا آپ نے؟ ماہرین کتنی خوبصورتی ہمارے ذہن اور جسم دونوں کو دھوکے میں رکھ کر اپنی تحقیق کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں کامیاب رہتے ہیں! یہ خالص سیاسی طریقِ واردات ہے۔ یعنی قانونی طور پر موزوں اور مروّج طریقے سے اقتدار ہاتھ نہ آرہا ہو تو بے فکر ہوکر چور دروازے کا رخ کیجیے اور پورے اطمینانِ قلب کے ساتھ اپنا اُلّو سیدھا کرلیجیے!