"MIK" (space) message & send to 7575

دو چار ’’ہٹلر‘‘ درکار ہیں !

زندگی دن بہ دن بے سُری ہوتی جارہی ہے۔ اور ایک سُر کو کیا روئیے، تال کا بھی کال ہے۔ جتنے بھی بے سُرے اور بے تالے ہیں وہ کھل کر، ڈٹ کر گا رہے ہیں اور جو سُر اور تال کو کسی حد تک سمجھتے ہیں وہ من ہی من ''اپنی عزت اپنے ہاتھ‘‘ کی گردان کرتے ہوئے خاموش رہتے ہیں۔ قصہ مختصر، ہر گزرتا ہوا دن زندگی کے سازینے کو سُر اور تال سے محروم کرکے سازوں کے بے ہنگم شور میں تبدیل کرتا جارہا ہے! 
ایک زمانہ تھا کہ ہم بھی سُر پسند اور سُریلے تھے۔ گزارش ہے کہ عجلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سمجھنے میں غلطی مت کیجیے۔ اِس سے پہلے کہ آپ کسی مغالطے میں غلطاں ہوں، ہم عرض کیے دیتے ہیں کہ ہم اپنے سُریلے پن کی بات نہیں کر رہے ہیں کہ ہم سے مُراد پوری قوم ہے! ایک پورا عہد تھا جو سُروں سے عبارت تھا یعنی سُریلوں کو سَر آنکھوں پر بٹھایا جاتا تھا۔ کسی کی مجال نہ تھی کہ باضابطہ سیکھے اور مشق کیے بغیر گانے کھڑا ہوجائے۔ تقریباً ڈھائی عشروں پر محیط وہ دور ملکۂ ترنم نور جہاں، شہنشاہِ غزل مہدی حسن، منیر حسین، سلیم رضا، مسعود رانا، احمد رشدی اور غلام عباس جیسے باکمال فنکاروں کی شبانہ روز محنت سے مُزیّن تھا۔ نغمہ سَرائی کے آستانے پر نو گزے پیروں کی حکمرانی تھی۔ مُبتدی اِن ہستیوں کے پیر چُھوکر گاتے تھے تو کچھ بات بن جاتی تھی، بھرم رہ جاتا تھا۔ اِن کی جُھوٹن سے مُبتدی اپنے فن کا پیٹ بھرلیا کرتے تھے۔ 
گانے والوں کو گانے میں جان کھپانے اور سُننے والوں کو پورے انہماک سے سُننے کا شوق تھا اِس لیے موسیقار بھی اپنے کام میں کوئی کسر رہنے دیتے تھے نہ کوئی جھول چھوڑتے تھے۔ لاجواب دُھنیں ترتیب دینے کی دُھن میں موسیقار اپنی پوری صلاحیت اور مکمل وجود کو بروئے کار لایا کرتے تھے۔ اور بھرپور لگن کے ساتھ کام کرنے کے نتائج اب تک ہمارے سامنے ہیں۔ 
ہر شعبے کی عظیم ہستیوں سے ہم محروم ہوتے جارہے ہیں۔ گزشتہ دنوں بنگلہ دیش سے نامور موسیقار روبن گھوش کے انتقال کی خبر آئی تو ماحول کچھ دیر کے لیے بے سُرا سا لگا۔ ذہن کے پردے پر ایک انتہائی سُریلا عہد جلوہ گر ہوگیا۔ کانوں میں رس گھولنے والے گیت یاد آئے تو آتے چلے گئے۔ 76 سالہ روبن گھوش ہمارے اُن موسیقاروں میں سے تھے جنہوں نے ہمیشہ انفرادیت کے ساتھ کام کرنے کو ترجیح دی اور اِس روش پر گامزن رہ کر ایسے گیت دیئے کہ آج بھی سُنائی دیتے ہیں تو سُننے والے گنگنائے بغیر نہیں رہ سکتے۔ 
پاکستان کی فلم انڈسٹری میں نثار بزمی اور روبن گھوش ایسے موسیقار تھے جو نوٹیشن جانتے تھے یعنی اپنی ترتیب دی ہوئی دُھنوں کو مخصوص علامات کی شکل میں لِکھ بھی سکتے تھے۔ علامتی انداز سے لِکھی ہوئی دُھن کو کہیں بھی، کوئی بھی گاسکتا ہے، پیش کرسکتا ہے۔ 
روبن گھوش مغربی سازوں کے شیدائی تھے۔ اُنہوں نے پیانو، سیگزوفون اور وائلن کو بہت عمدگی سے استعمال کیا۔ اُن کی دُھنوں میں بانسری اور ستار کا معیاری استعمال ملتا ہے۔ آرکسٹرا کے ذریعے سماں باندھنے میں روبن گھوش واقعی باکمال تھے۔ ''امنگ‘‘ اور ''چاہت‘‘ کے علاوہ ''آئینہ‘‘ کی موسیقی بھی اس معاملے میں مثال کا درجہ رکھتی ہے۔ چکوری، چاہت، امبر اور دُوریاں میں مقبول ترین نغمات تخلیق کرنے پر اُنہیں نگار ایوارڈز سے نوازا گیا۔ 
ریڈیو ڈھاکا سے فنی زندگی کا آغاز کرنے والے روبن گھوش کو سابق مشرقی پاکستان میں معروف فلم میکر احتشام نے بنگالی فلم ''دھبیر بھوکے‘‘ کے ذریعے سلور اسکرین پر بریک دیا۔ روبن گھوش نے 34 سال کام کیا اور اس طویل کیریئر میں غیر معمولی حد تک محتاط رہتے ہوئے مہدی حسن، مسعود رانا، احمد رشدی، سلیم رضا، بشیر احمد، قاضی انور حسین، اخلاق احمد، اے نیّر، محمد علی شہکی، مرزا نذیر بیگ (اداکار ندیم)، فردوسی بیگم، ناہید نیازی، یاسمین نیازی، انجمن آراء، فریدہ یاسمین، آئرین پروین، سبینہ یاسمین، مالا، رونا لیلیٰ، نیرہ نور اور مہناز کو گوایا۔ 
روبن گھوش کی ترتیب دی ہوئی دُھنوں کی ایک کہکشاں ہے جس کی تابانی ماند نہیں پڑتی۔ کبھی تو تم کو یاد آئیں گی، وہ مِرے سامنے تصویر بنے بیٹھے ہیں، مجھے تلاش تھی جس کی، ساون آئے ساون جائے، پیار بھرے دو شرمیلے نین، تِرے بھیگے بدن کی خوشبو سے، میرے سنگ چلا اِک خوبصورت ساتھی، دیکھو یہ کون آگیا، سونا نہ چاندی نہ کوئی محل، سماں وہ خواب سا سماں، ایک تھی گڑیا بڑی بھولی بھالی، ایسے وہ شرمائے جیسے میگھا چھائے، روٹھے ہو تم، ہمیں کھوکر بہت پچھتاؤگے، آپ کا حُسن جو دیکھا تو خدا یاد آیا، ہوں اداس غم کی راہوں میں، آج دلدار سج دھج کے آیا ہے، رات بھر سجنا کو یاد کیا ہوگا، ٹھہرا ہے سماں، مجھے دل سے نہ بھلانا، جس دن سے دیکھا ہے تم کو صنم، یہ راستے یہ وادیاں چُومیں تیرے قدم ... کون کون سے نغمات کو یاد کیجیے گا؟ ہر کمپوزیشن سدابہار ہے، یادگار ہے۔ سُنیے جائیے، بیزاری چُھوکر نہیں گزرے گی اور طبیعت سَیر نہ ہوگی۔ 
میرزا نوشہ نے کہا تھا ؎ 
پرتوِ خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم 
میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہونے تک 
یعنی خورشید (سورج) کا پوری آب و تاب کے ساتھ نمودار ہونا شبنم کے لیے موت کا پیغام ہوا کرتا ہے مگر پاکستان کے فلمی افق پر خورشید اور شبنم دونوں ساتھ ساتھ رہے! حقیقت یہ ہے کہ روبن اور شبنم نے ایک دوسرے کی چاہت میں ڈوب کر یُوں زندگی بسر کی جیسے دو محبوب سُر مل گئے ہوں! اِن کی دوستی اُس وقت شروع ہوئی تھی جب شبنم محض ایکسٹرا گرل تھیں یعنی اُنہیں کوئی بڑا بریک نہیں ملا تھا۔ فلمی دُنیا میں شادیاں زیادہ دیر نہیں چلتیں مگر یہ دو محبوب سُر پانچ عشروں سے بھی زیادہ مدت تک ساتھ رہے اور ایک دوسرے کے لیے اِن کے دِلوں میں محبت کم نہ ہوئی۔ 
1983ء میں روبن گھوش اور اداکارہ شبنم نے پی ٹی وی کے یادگار پروگرام سلور جوبلی میں شرکت کی تھی۔ میزبان انور مقصود نے شبنم سے پوچھا کہ گھر میں روبن گھوش کو پیار سے کیا کہتی ہیں تو اُنہوں نے بتایا کہ روبن کی گھریلو عرفیت ''ہٹلر‘‘ ہے۔ 
یہ بھی خوب رہی۔ بھرپور مٹھاس سے مُزیّن دُھنیں ترتیب دینے والے کو گھر میں ''ہٹلر‘‘ کہا جاتا تھا! ہوسکتا ہے کام کے معاملے میں روبن گھوش واقعی ہٹلر واقع ہوئے ہوں۔ اِس میں حیرت کی کیا بات ہے؟ ہر جینیس بہت حد تک بدمزاج ہوتا ہے اور اگر بدمزاج نہ بھی ہو تو عجیب المزاج ضرور ہوتا ہے۔ جو لوگ ڈوب کر کام کرتے ہیں وہ ہر سطح پر جامعیت چاہتے ہیں۔ اور اس معاملے میں وہ پریشان کن حد تک غیر لچکدار بھی ہوتے ہیں۔ یعنی معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے۔ 
ہمارے ہاں ایسے کئی موسیقار اور ہدایت کار گزرے ہیں جو معیار پر کوئی سمجھوتہ کرنے عادی تھے نہ قائل۔ روبن گھوش کی باضابطہ آمد سے قبل فلم انڈسٹری کو لازوال نغمات دینے والے خواجہ خورشید انور، رشید عطرے، ماسٹر عنایت حسین، نثار بزمی، سہیل رعنا، اے حمید، کمال احمد اور خلیل احمد بھی جب کسی کو گواتے تھے تو دُھن کی ایک ایک باریکی کا حق ادا کرواتے تھے۔ اِن میں سے بیشتر کا مزاج ''ہٹلرانہ‘‘ تھا۔ خواجہ خورشید انور، رشید عطرے اور ماسٹر عنایت حسین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے گیتوں میں ہر اعتبار سے جامعیت چاہتے تھے اور اِس کے لیے گلوکاروں سے محنت بہت کرواتے تھے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ غیر لچکدار رویّے نے ماسٹر عنایت حسین کو نقصان بھی بہت پہنچایا۔ معیار پر سمجھوتہ نہ کرنے کے معاملے میں انتہائی سخت مزاج کے حامل ہونے کے باعث فلم میکرز اُنہیں سائن کرنے اور گلوکار اُن کے لیے گانے سے اجتناب برتنے لگے۔ 
ہمارے ہاں جس قدر بے سُرا پن رواج پاگیا ہے اور لوگ سُر اور تال کے بغیر ہی گانے پر جس طور بضد ہیں اُسے دیکھتے ہوئے دُعا کی جانی چاہیے کہ روبن گھوش اور جن اُستادوں کا ذکر ہم نے کیا ہے ویسے دو چار ''ہٹلر‘‘ اور آجائیں! جو سیکھے بغیر گانے پر بضد ہیں اور نہیں جانتے کہ گانے کا حق کس طور ادا کیا جاتا ہے ایسے ''بے پیر‘‘ آسانی سے سُدھرنے والے نہیں۔ اُنہیں سُدھارنے کے لیے ہٹلرانہ مزاج ہی ٹھیک رہے گا! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں