امریکہ سے خبر آئی ہے کہ ماہرین ایسیمچھر ''تیار‘‘ کر رہے ہیں جو ملیریا کو روکنے میں مرکزی کردار ادا کریں گے۔ ہمیں یقین ہے کہ امریکی ماہرین ایسا کرنے میں ضرور کامیاب ہوں گے۔ کیوں نہ ہوں؟ جس نے کوئی خرابی پیدا کی ہو اُسے اچھی طرح اندازہ ہوتا ہے کہ اُس خرابی کو دور کیسے کیا جاسکتا ہے! کسی بھی جادو کا توڑ اگر جادوگر کے پاس نہ ہوگا تو کس کے پاس ہوگا؟
ترکیب یا ''طریقِ واردات‘‘ یہ ہوگا کہ لیب میں تجربات کے ذریعے مچھروں میں ملیریا سے لڑنے والی خصوصیت پیدا کی جائے گی۔ یہ مچھر جب انسانوں کو کاٹیں گے تو جسم میں اینٹی ملیریا مواد داخل ہوگا اور یوں ملیریا کے خلاف قوتِ مدافعت پیدا ہوگی۔ ملیریا سے لڑنے والے مچّھروں کو آپ اڑتے ہوئے انجکشن بھی قرار دے سکتے ہیں! چلیے، ہم یہ دہائی دینے کی زحمت سے بچ گئے کہ ؎
غریب جان کے ہم کو نہ تم بھلا دینا
تمہی نے درد دیا ہے، تمہی دوا دینا!
ویسے تو اعلیٰ اخلاقی اقدار سے مغربی دنیا والوں کا کچھ زیادہ اور خاص تعلق نہیں رہا مگر پھر وہ خود کو باقی دنیا سے الگ تھلگ نہیں رکھ سکتے۔ امریکہ اور یورپ نے مل کر دنیا میں جو خرابیاں پیدا کی ہیں اُن تمام خرابیوں کے تدارک کی تدبیر کرنا بھی اُن کا اخلاقی فرض ہے! ایڈز جیسے خطرناک امراض سے دنیا کی جان چھڑانا مغربی دنیا کے سَر پر قرض کی مانند ہے کیوںکہ یہ سارا ٹنٹا اُسی کا تو پیدا کردہ ہے!
اڑنے والے انجکشن یعنی ملیریا کے خلاف لڑنے والے مچھر سے متعلق خبر پڑھ کر ہمیں خیال آیا کہ ترقی پذیر یا پس ماندہ دنیا بھی انجانے میں ایسا بہت کچھ کر رہی ہے جو ترقی یافتہ دنیا کا خاصہ ہے۔ اب یہی دیکھیے کہ لوہے کو لوہے سے کاٹنے کا خیال مغربی دُنیا کو اب آیا ہے جبکہ ہم بہت پہلے سے جانتے ہیں۔ یہ ''طریقِ واردات‘‘ ہم ایک زمانے سے اپنائے ہوئے ہیں۔
من حیث القوم ہمارا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ ہم بھی ایک زمانے سے لوہے کو لوہے سے کاٹتے آئے ہیں۔ اِس اصول یا فلسفے پر عمل کی واضح مثالیں معاشرے میں جہاں تہاں بکھری پڑی ہیں۔ اِسی بات پر غور کیجیے کہ ایک زمانے سے دہائی دی جارہی ہے کہ ہمارے ہاں بیڈ گورننس ہے، کوئی کام ڈھنگ سے ہوتا نہیں۔ یعنی عوام کے لیے کسی بھی معاملے میں ریلیف کا اہتمام نہیں ہو پاتا۔ یہ شِکوہ عام ہے کہ حکومتی مشینری کے پُرزے ٹھیک سے کام نہیں کرتے۔ بات یہ ہے کہ بیڈ گورننس کو بیڈ گورننس سے ٹکرایا جارہا ہے! یعنی ایک خرابی کو دوسری خرابی سے ''ضرب‘‘ دی جارہی ہے اور حاصل ضرب عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ بے چاری ریاستی مشینری کا کیا قصور؟ ع
اِس طرح تو ہوتا ہے اِس طرح کے کاموں میں!
یہ ''کند ہم جنس، با ہم جنس پرواز‘‘ والا ہی معاملہ ہے۔ آپ ہی سوچیے، جہاں ہر طرف نا اہل اور کاہل براجمان ہوں وہاں کسی اہل، محنتی اور دیانت دار شخص کو بٹھاکر آپ کیسے نتائج حاصل کریں گے؟ جہاں لوگ کام جانتے ہی نہ ہوں اور کچھ کرنے کے خواہش مند ہی نہ ہوں وہاں دو چار اہل اور کام کرنے کی لگن سے سرشار افراد کو براجمان کرکے محض خرابی ہی پیدا کی جاسکتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ لوہے کو لوہے سے کاٹنے کے لیے یا پھر ہم مزاج لوگوں کو ساتھ ساتھ رہنے کی سہولت فراہم کرنے کی خاطر ہمارے بیشتر سرکاری دفاتر میں نا اہل ہی بھرتی کیے جاتے ہیں اور اُن کی کاہلی سونے پر سہاگے کا فریضہ انجام دیتی ہے!
ملیریا مچھر سے پھیلتا ہے اور اب مچھر ہی کے ذریعے ملیریا سے نجات کی راہ ہموار کی جارہی ہے تو دنیا واہ واہ کر رہی ہے، امریکی ماہرین پر ستائش کے ڈونگرے برسا رہی ہے۔ ایسے میں بُرا کیا ہے اگر ہم بھی لوہے کو لوہے سے کاٹنے کے اصول کی بنیاد پر جہالت کے گلے پر جہالت ہی کی چُھری پھیریں! ہمارے بیشتر سرکاری اسکول جہالت کے فروغ میں مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔ جہالت سے جب جہالت ٹکرائے گی تو جہالت ہی میں اضافے کا سبب بنے گی، علم کی جاگیر میں تو ہرگز توسیع نہیں کرے گی!
کراچی سمیت سندھ بھر میں کے سرکاری اداروں، بالخصوص سکولز میں ہمیں ایک عجیب معاملہ دکھائی دیا ہے۔ یہ معاملہ گھوسٹ ملازمین کا۔ سو ڈیڑھ سو سال پہلے جب آبادیاں زیادہ نہیں تھیں یعنی ویرانے بہت تھے تب بہت سے مقامات پر بھوتوں کے بیسرے ہوا کرتے تھے۔ انسانوں کے آباد ہونے سے بھوت کم ہوتے چلے گئے۔ بھوتوں کی شدید کمی نے جب ہمارے ''ضمیر‘‘ پر بوجھ کی شکل اختیار کی تو ہم نے گھوسٹ ملازمین کا آئیڈیا متعارف کرایا تاکہ بھوتوں سے ہمارا تعلق بالکل ختم ہوکر نہ رہ جائے! اور یہاں بھی وہی لوہے کو لوہے سے کاٹنے والا ''فلسفہ‘‘ کام کر رہا ہے یعنی جب کبھی گھوسٹ ملازمین سے نجات پانے کی بات کی جاتی ہے تو ایسے ہی ملازمین کو آگے بڑھاکر بازی جیتنے کی کوشش کی جاتی ہے! یُوں ایسے ملازمین کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جن کے بارے میں غالبؔ نے کہا ہے ع
ہرچند کہیں کہ ہے، نہیں ہے!
ملک میں ہر طرف کرپشن ہے۔ ایسے میں کرپشن کے تدارک کی فکر کیوں لاحق ہو؟ جمہوریت یہی تو ہے کہ زیادہ لوگ جس طرح جھک رہے ہوں اُسی طرف جھک جائیے۔ امریکہ ملیریا کے خاتمے کی کوشش میں مچّھروں کے ذریعے جو کمال دکھانا چاہتا ہے وہ ہم بہت پہلے سے جانتے ہیں اور اس کے عملی مظاہرے بھی کر رہے ہیں۔ خارجہ پالیسی وہ تجربہ گاہ ہے جس میں ملک چُوہے کا درجہ رکھتا ہے اور ہمارے سیاہ و سفید کے مالک اپنی مرضی اور مفاد سے مطابقت رکھنے والے تجربات کرتے رہتے ہیں۔ جب بھی کوئی چوائس ناکام ہوتی ہے، ہم اُس سے بُری چوائس کو واحد آپشن کی حیثیت سے استعمال کر بیٹھتے ہیں! اہلِ وطن کو پالیسی آپشن کی طرح دوستوں کے انتخاب کے معاملے میں بھی رُسوائیاں ہی ملی ہیں۔ گویا اہلِ وطن اور مرزا غالبؔ ایک ہی پیج پر ہوئے!
کسی بھی چیز کو اُس جیسی چیز ہی سے ختم کرنے کا نُسخہ امریکی ماہرین کو تاخیر سے سُوجھا ہے۔ خیر، دیر آید درست آید۔ اِس دنیا کو خرابیوں سے دوچار کرنے میں امریکیوں نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ اب اگر وہ تدارک کا اہتمام کر رہے ہیں تو ستائش کی جانی چاہیے۔ بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی!