بہت مشہور مثل ہے۔ آپ نے بھی ضرور سُن رکھی ہوگی۔ مرے کو مارے شاہ مدار۔ خدا جانے کون سی کسر باقی رہی تھی کہ پنجاب حکومت نے خواتین کے حقوق کو تحفظ دینے کے نام پر مردوں کے لیے نیا تازیانہ تیار کیا ہے۔
کہتے ہیں یہ دنیا مَردوں کی ہے۔ جب تک ہمیں زیر زبر پیش کی اہمیت کا اندازہ نہیں تھا تب تک ہم یہ سمجھتے تھے کہ شاید یہ دنیا مُردوں کی ہے۔ اور ایسا کیوں نہ سمجھتے؟ انسان جیسے ہی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند کرکے اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے، اُس کی شان میں قصیدے پڑھے جانے لگتے ہیں۔ جو خوبیاں اِس دنیا میں کہیں بھی نہ پائی جاتی ہوں وہ مُردے میں پائی جانے لگتی ہیں۔ تو پھر کوئی کیوں نہ سمجھے کہ یہ دنیا مُردوں کی ہے! بہت بعد میں یہ عُقدہ کھلا کہ یہ دنیا قبرستان والے مُردوں کی نہیں بلکہ چلتے پھرتے، سانس لیتے اور زندگی کے نام پر مستقل یعنی لائف ٹائم گارنٹی والا عذاب سہتے جھیلتے مُردوں یعنی مَردوں کی ہے!
جب سے ہمیں یہ بتایا گیا ہے یا ہم پر یہ عُقدہ وا ہوا ہے کہ یہ دنیا مَردوں کی ہے تب سے بہت سے چھوٹے موٹے غم ہم سے دور ہوگئے ہیں کیونکہ ایک بہت بڑے لطیفے کی موجودگی میں کوئی ایسا ویسا غم قریب بھی نہیں پھٹک سکتا!
پنجاب اسمبلی کو تحفظِ حقوقِ نسواں بل منظور کرنے کی کیوں سُوجھی، ہم نہیں جانتے۔ خواتین پر ایسا کون سا ظلم ڈھایا جارہا ہے جس کی روک تھام کے لیے یہ بل لانے کی ضرورت پیش آئی؟ ہم نے تو جب سے ہوش سنبھالا ہے (یعنی زندگی اور توانائی سے بھرپور چہروں پر مرنے کی عمر کو پہنچے تب سے)، یہی دیکھا ہے کہ مرد بے چارے مظالم کی چکّی میں پِس رہے ہیں اور اُنہیں پیسنے والیاں خود کو مظلوم کہلوانے پر تُلی ہوئی ہیں! گویا
وہی قتل بھی کرے ہے، وہی لے ثواب اُلٹا
پنجاب میں خواتین کو مردوں کے مظالم سے بچانے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اس بل کی منظوری پر ملک بھر میں شور مچایا جارہا ہے۔ مذہبی طبقے کا ردعمل شدید ہے۔ مذہبی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اللہ نے مردوں کو خواتین پر ''قوّام‘‘ مقرر کیا ہے یعنی اُن کے معاملات کے نگران و سرپرست مرد ہیں۔ ایسے میں خواتین کے حقوق کو تحفظ دینے کے نام پر مَردوں کو اُن کے زیرِ نگیں کرنا اللہ کے احکام کی خلاف ورزی ہے!
کسی بھی طبقے کے مَردوں کا تحفظِ حقوقِ نسواں بل کی منظوری پر سیخ پا ہونا انتہائی فِطری امر ہے کیونکہ یہ بل بہت حد تک پیروں میں بیڑیاں ڈالنے کی کوشش پر مبنی ہے۔ بیڑیاں جب آئیں گی تب آئیں گی، فی الحال خواتین کے دِل کو قرار بخشنے کی غرض سے مَردوں کو کڑا پہنانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ شُنید ہے کہ جو مَرد اپنی بیوی یا گھر کی کسی اور خاتون کو تشدد کا نشانہ بنائے گا اُسے، شکایت کیے جانے پر، نگرانی میں رکھا جائے گا۔ نگرانی کے لیے اُسے ایک کڑا سا پہنایا جائے گا جس میں chip لگی ہوگی۔ یہ اہتمام اِس لیے ہوگا کہ ایک خاص مدت تک وہ گھر میں داخل نہ ہو پائے!
پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ خان نے خوب کہا ہے کہ تحفظ حقوق نسواں بل اگر پہلے منظور ہوجاتا تو عمران خان کو بھی کڑا پہننا پڑتا! یہ بیان انہوں نے عمران خان کی سابق منکوحہ ریحام خان کے چند انٹرویوز کے مندرجات کی بنیاد پر دیا ہے۔
پنجاب حکومت نے یہ تکلّف کیوںکیا؟ یعنی اپنے صوبے کو خواتین کی دنیا میں تبدیل کرنے کی کیوں ٹھانی جبکہ اب ہر معاملے میں خواتین ہی کی دنیا موجود ہے! کون سا معاملہ ہے جس میں اُن کی نہیں چلتی؟ مرد بے چارے کچھ خرچ کیے بغیر یعنی مفت میں بدنام ہیں یعنی خود مختاری کی ایک تہمت ہے جس کا بوجھ اُٹھائے پھرتے ہیں!
پنجاب کے وزراء اس بل کے مخالفین کو یہ کہتے ہوئے بھی تسلّی دے رہے ہیں کہ گھبرائیے مت، بل کا اطلاق پنجاب تک ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ دوسرے صوبوں میں خواتین کے حقوق کا تحفظ فی الحال خواب ہے۔ اِس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے لازم ہوگا کہ متعلقہ صوبائی اسمبلی متحرّک ہو۔
تحفظِ حقوقِ نسوں بل کے حوالے سے دوسرے صوبوں کے مَردوں کو تسلّی دیئے جانے پر ہمیں یاد آیا کہ یہ معاملہ ویسا ہی ہے جیسا صوفی بزرگوں کا ہے۔ صوفی بزرگوں کی برسی کے موقع پر تعطیل اب صوبائی بنیاد پر ہوتی ہے۔ یعنی لعل شہباز قلندرؒ، شاہ لطیفؒ اور سچل سرمستؒ سندھ کے بزرگ ہیں اِس لیے اُن کے عرس کی چھٹی صرف سندھ تک محدود ہے۔ اِسی طور سید علی ہجویریؒ اور بابا بلھے شاہؒ کے عرس کی چھٹی صرف پنجاب میں ہوتی ہے۔ یہی سلوک خیبر پختونخوا میں خوش حال خان خٹکؒ سے روا رکھا جاتا ہے!
ہمارے کالم پڑھ کر تبصرہ فرمانے والے چند کرم فرماؤں نے یہ کہتے ہوئے ہمیں ڈرانے کی کوشش کی ہے کہ وہ دن دور نہیں جب ہمیں بھی ''کڑا‘‘ پہنایا جاسکتا ہے! یہ بات سُن کر ہم سہم گئے۔ جاننا چاہا کہ ہم نے ایسا کیا کر ڈالا ہے کہ ہمیں بھی کڑا پہنایا جائے تو جواب ملا کہ تم آئے دن اپنے کالموں میں خواتین کا بینڈ بجاتے رہتے ہو تو کیوں نہ تمہاری ''کُڑکُڑی تے سَٹ وجانے‘‘ کا بندوبست کیا جائے! اور یہ کہ جن کالموں میں تم نے خواتین کی واٹ لگانے کی کوشش کی ہے اگر انہیں جمع کرکے پنجاب حکومت کو پیش کردیا جائے تو شاید تم پر بھی تحفظِ حقوقِ نسواں بل کے تحت مقدمہ قائم کرکے سخت نگرانی کے مرحلے سے گزارا جائے! بعض دل جلوں نے کہا کہ متعلقہ قانون کی زد میں آئے تو اتنے جوتے، بلکہ جوتیاں پڑیں گی کہ مزاج کی ساری شوخی ہوا ہوجائے گی اور دماغ ٹھکانے پر آجائے گا! یہ سُن کر ایک اور ستم ظریف نے کہا چلو، یہ بھی اچھا ہی ہوگا کیونکہ دماغی اسپتال کا خرچ بچ جائے گا!
ہم نے اپنے چاہنے والوں سے کہا کہ ہم تو کراچی میں رہتے ہیں اس لیے متعلقہ قانون کا اطلاق ہم پر نہیں ہوتا۔ جواب آیا کہ آپ کا کالم پنجاب کے چار پانچ شہروں سے شائع ہوتا اور وہیں زیادہ پڑھا جاتا ہے! بہر کیف، پنجاب میں تحفظِ حقوقِ نسواں بل کی منظوری اور اطلاق سے ہم اتنا ضرور جان گئے کہ کون کون ہمارے کیسے کیسے حشر کی آس لگائے بیٹھا ہے!
علامہ نے ہر دور میں زندہ رہنے والا مصرع کہا ہے ع
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
ہمیں صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ خواتین کے وجود سے کائنات کی تصویر میں جو رنگ ہے وہ اب بہت گہرا ہوچلا ہے۔ خواتین ہر شعبے میں تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں جس کے نتیجے میں حالات کے ستائے ہوئے مَردوں کا رنگ دن بہ دن پھیکا پڑتا جارہا ہے! چند ایک شعبے ہی رہ گئے ہیں جن میں مرد اب کچھ کر دکھانے کی پوزیشن میں ہیں۔ تعلیم ہو یا طِب، کھیل ہو یا ثقافت، ہر جگہ خواتین اپنا آپ منوا رہی ہیں۔ بیشتر شعبوں میں ناکامی نے مَردوں کو شدید احساسِ کمتری و محرومی سے دوچار کر رکھا ہے۔ ایسے میں اُن کے پاس جھنجھلاکر خواتین کو مارنے پیٹنے کا آپشن ہی رہ گیا ہے! مگر اب یہ آپشن بھی اُن سے چھینا جارہا ہے۔ خواتین زندگی بھر مَردوں کو دبوچ کر رکھتی ہیں، بات بات پر اُن کے کَس بل نکالتی رہتی ہیں مگر اُنہیں کوئی کچھ نہیں کہتا۔ اِس کے برعکس اُنہیں ترغیب دی جارہی ہے کہ دو چار ہاتھ پڑ جائیں تو کیس کرکے مَردوں کو سلاخوں کے پیچھے پہنچانے کا اہتمام کرو! یہ تو مرے کو مارے شاہ مدار والا معاملہ ہوا۔
تحفظِ حقوقِ نسواں بل پر تبصرہ کرتے ہوئے مرزا تنقید بیگ نے فرمایا کہ کچھ مدت کے بعد انتخابات کا غلغلہ اٹھنے والا ہے۔ خواتین آبادی کا نصف ہیں۔ ایسے میں تحفظِ حقوقِ نسواں بل کی منظوری ووٹ بینک مضبوط کرنے کی ایک اچھی کوشش کے سِوا کچھ نہیں۔ جس ملک میں، اللہ کے واضح حکم کے باوجود، خواتین کو باپ کے ترکے سے حصہ نہیں مل پاتا وہاں اُنہیں اور کیا مل جانا ہے!
مرزا نے پتے کی ایک بات اور کہی۔ یہ کہ ن لیگ نے انتخابی مہم میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ کئی ڈیڈ لائنز کے ناکام ہوجانے پر اپنے آنسو پونچھنے کے بعد سوچا گیا کہ لوڈ شیڈنگ کا جِن قابو میں نہیں آرہا تو کیا ہوا، جو کیا جاسکتا ہے وہی کرلیا جائے۔ یوں تحفظِ حقوقِ نسواں بل کے ذریعے ووٹرز کے ایک طبقے کا دل بہلایا گیا ہے۔ خواتین اِس بل کو بھاگتے چور کی لنگوٹی سمجھ کر خوش ہولیں۔