1952 ء میں ریلیز ہونے والی فلم ''بے وفا‘‘ کے لیے طلعت محمود مرحوم نے ایک بہت ہی پُرتاثیر گیت گایا تھا۔ آں جہانی راج کپور پر فلمائے جانے والے اِس گیت کے بول تھے ؎
تم کو فرصت ہو مِری جاں! تو اِدھر دیکھ تو لو
حالِ دل پوچھ تو لو، زخمِ جگر دیکھ تو لو
یہ گیت ہمیں خیبر پختونخوا کی حکومت نے یاد دلایا ہے۔ بہت سے معاملات اب تک توجہ کے محتاج ہیں مگر اُن پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جارہی۔ ہاں، پشاور میں صفائی کے ناقص انتظام کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ایک مسئلے کو سب سے بڑا اِشو قرار دے کر اُس طرف یوں توجہ دی گئی ہے کہ لوگ حیران رہ گئے ہیں۔ صوبائی حکومت نے ایک بڑا چوہا مارنے پر 25 روپے انعام مقرر کیا ہے!
واضح رہے کہ جسے چوہا کہا جارہا ہے وہ دراصل بلی کے بچے کی جسامت کا rodent ہے جسے عرفِ عام میں ''گُھونس‘‘ کہا جاتا ہے۔ کراچی، ممبئی، نیو یارک اور دوسرے بہت سے بڑے شہروں میں ایسے لاکھوں چُوہے نکاسیٔ آب کے نظام کا حصہ ہیں۔ جہاں کچرے کا ڈھیر ہو وہاں بھی یہ چوہے عام ہیں۔ ان کے کاٹے سے ہر سال دنیا بھر میں ہزاروں بچے ہلاک ہوتے ہیں اور لاکھوں بیمار پڑتے ہیں۔ یہ چوہے خاصے سخت جان (گویا اچھے خاصے ''سیاسی‘‘ نوعیت کے) ہوتے ہیں یعنی سخت حالات میں بھی نہیں مرتے! اور ان کے دانت بھی اتنے مضبوط ہوتے ہیں کہ پلاسٹ کے موٹے پائپ تک کو کتر ڈالتے ہیں۔ اناج اور کھانے پینے کی دوسری بہت سی اشیاء کے گودام میں اِن چوہوں کا پایا جانا انتہائی خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ یہ بوریوں کو کتر کر کھانے پینے کی اشیاء کو آلودہ کردیتے ہیں۔ اور جہاں یہ کسی چیز کو کتر نہ سکیں وہاں اِن کا کسی چیز سے چُھو جانا ہی بہت سی بیماریوں کے پھیلنے کا سبب بن جاتا ہے۔
ایک دور تھا جب بے نظیر بھٹو نے ''چوہوں‘‘ کا ذکر کرکے ہنگامہ برپا کردیا تھا۔ بات یہ تھی کہ وہ چند چوہوں کو ان کے بل سے نکالنا چاہتی تھیں۔ یہ کام متعلقہ ریاستی مشینری ٹھیک سے کر نہیں پارہی تھی اس لیے بے نظیر بھٹو کو خود میدان میں آنا پڑا۔ بے نظیر بھٹو نے ریاستی مشینری سے ٹکرانے والوں کو چوہے قرار دے کر کوئی غلطی نہیں کی تھی۔ یہ سخت جان، عسکریت پسند قسم کے چوہے ریاستی مشینری کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے تھے اور اپنے حصے کا کام مکمل کرکے یعنی اپنی ضرورت کے مطابق شَر پھیلاکر اپنے اپنے بل میں ایسے گھس جاتے تھے کہ لاکھ ڈھونڈے سے نشان نہ ملتا تھا! للکارے جانے پر رونما ہونے والے ردعمل سے اِن کے ٹھکانوں کا پتا چل پایا!
اب خیبر پختونخوا کی حکومت نے بے نظیر بھٹو کی تقلید کی ہے یعنی چوہوں کے خلاف کمر کس کر میدان میں آئی ہے۔ جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گردوں کے سَر کی قیمت تو متعین ہوتی ہی تھی، اب چوہوں کے سَر کی قیمت بھی طے کردی گئی ہے۔ پشاور کے شہری اِس اعلان سے خوش ہیں۔ ایک مشہور جملہ تو آپ نے بھی سُنا یا پڑھا ہوگا کہ بیکار مباش، کچھ کیا کر۔ ہمارے ہاں وقت اور فرصت کی کون سی کمی ہے؟ خیبر پختونخوا حکومت کی ستائش کی جانی چاہیے کہ اُس نے فارغ بیٹھے ہوئے لوگوں کو دھندے سے لگادیا ہے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ فارغ وقت میں لوگ فضول کی گپ شپ پر چوہے مارنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ بچے پارک جانے کی ضد کریں تو باپ کہتا ہے پارک جانا ہے اور وہاں آلو چھولے کی چاٹ کھانی ہے تو آؤ، میرے ساتھ مل کر چوہے مارو۔ یعنی مل کر آٹھ دس چوہے مارو تو چاٹ اور گول گپوں کے پیسے جیب میں آئیں گے۔ گویا ع
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے!
جدید ترین معاشی زبان میں اِسے ''سیلف ایمپلائمنٹ‘‘ بھی کہا جاتا ہے! گویا کسی کی نوکری کیے بغیر کام بھی کرو اور مال بھی بناؤ۔ خیبر پختونخوا حکومت لاکھوں افراد کو نوکری کہاں سے دے؟ ایسے میں بہتر ہے کہ لوگوں کو سیلف ایمپلائمنٹ کے انداز سے کام پر لگادیا جائے تاکہ وہ مصروف بھی رہیں اور کچھ نہ کچھ معاوضہ بھی پائیں۔ ایسی rewarding حکومت کہیں ہے تو بتائیے!
خیبر پختونخوا حکومت کی طرف سے ایک چوہا مارنے پر پچیس روپے کے انعام کا اعلان سن کر ہم بھی چونک پڑے کیونکہ خیر سے ہم بھی شادی شدہ ہیں! ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں ہر شادی شدہ مرد شیر ہوتے ہوئے بھی چوہوں جیسی زندگی بسر کرتا دکھائی دیتا ہے۔ بائے دی وے، شادی شدہ چوہے ہوتے بہت سخت جان ہیں۔ بہت کچھ سہتے ہیں مگر اپنے فرض سے غافل نہیں رہتے۔ جو کچھ مقدر میں لکھ دیا گیا ہے وہ کرتے ہی رہتے ہیں، راہ سے ہٹنے یا مرنے کا نام نہیں لیتے۔ گویا ع
زندگی نام ہے مَر مَرکے جیے جانے کا
ہاں، ایک بات کا ملال رہتا ہے۔ خیبر پختونخوا نے ایک چوہا مارنے پر پچیس روپے کا اعلان کرکے شادی شدہ چوہوں کو اُن کی اپنی نظر میں گِرادیا ہے۔ غلاظت کے ڈھیر پر اور گٹروں میں پنپنے والے چوہوں کی بہرحال کوئی قیمت تو طے ہوئی، بے چارے شادی شدہ چوہے پل پل مرتے ہیں اور اُن کے سَر بے قیمت ہی تن سے جدا ہوتے رہتے ہیں!
خیر، شادی شدہ چوہوں کے مسائل پر بحث پھر کبھی سہی۔ کسے کہاں جانا ہے؟ وہ بھی یہیں ہیں اور ہم بھی یہیں ہیں۔ اللہ انہیں سلامت رکھے کہ وہ ہمارے کالموں کا سدا بہار موضوع ہیں!
چوہے مارنے پر انعام کا اعلان کرنے والی خیبر پختونخوا حکومت تحریکِ انصاف کی ہے۔ تحریکِ انصاف کو اور کسی معاملے میں داد دیں نہ دیں، ایک بات پر تو داد دینا ہی پڑے گی کہ اُس نے کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ سیاست کے رونق میلے میں اضافے کے لیے وہ متحرّک رہتی ہے۔ خود بھی کام پر لگتی ہے اور دوسروں کو بھی لگاتی ہے۔ 2014ء کے وسط میں تحریکِ انصاف نے اسلام آباد کے قلب میں جو میلہ لگایا تھا اُس کی رونق نے قوم کو دہلاکر رکھ دیا تھا۔ چار ماہ سے زائد مدت تک ریڈ زون میں جو کچھ ہوا وہ ہماری سیاسی تاریخ کا ایک ''زرّیں‘‘ باب ہے۔ اس ''کارنامے‘‘ پر تحریکِ انصاف کو جتنا بھی سراہا جائے، کم ہے۔ اُس کے کیے کی بدولت اُس کا اپنا اور نہ جانے کتنوں کے گھروں کا چولھا جلا۔ یہ الگ بات کہ حکومت کا چولھا ٹھنڈا ہوتے ہوتے رہ گیا! ویسے اب یہ ایک اچھا چلن عام ہوا ہے کہ بہت سے سیاسی چوہے میدان میں لاکر منتخب حکومت کو چوہا بننے پر مجبور کرنے کی کوشش کر دیکھیے۔ کام ہوگیا تو ٹھیک، ورنہ دامن جھاڑ کر اپنی راہ لیجیے!
خیبر پختونخوا حکومت نے تو چوہے مارنے پر انعام کا اعلان کردیا۔ اب سوال یہ ہے کہ انعام کی رقم ادا کرنے کے لیے فنڈز آئیں گے کہاں سے؟ شکر ہے کہ دوسرے صوبوں یا وفاق کو ایسا کوئی اعلان کرنے کی نہ سُوجھی۔ اگر لوگ چوہے مارنے پر تُل گئے تو قومی خزانہ انعام کی رقم بانٹنے پر صرف ہوجائے گا۔ یہاں کون سا شعبہ ہے جو چوہوں کی زد میں نہیں؟ کون سا معاملہ ہے جو اِن چوہوں کی دست بُرد سے محفوظ رہا ہے؟ ہر معاملے کو مفت خور، ہڈ حرام اور بدعنوان چوہے بُری طرح کتر رہے ہیں۔ معاشرے کے اِن ناسوروں نے کہاں کہاں منہ نہیں مارا، کس کس معاملے کو آلودہ نہیںکیا؟ سرکاری وسائل اور معاشرے کی اقدار کو کترنے والے اِن چوہوں کی جے جے کار ہے اور عوام اِن کے منہ مارنے سے پھیلنے والی بیماریوں کو بھگتنے پر مجبور ہیں!
ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ یہ چوہے ہمارے اپنے پیدا کردہ ہیں، ہماری اپنی کوتاہی اور نا اہلی کا نتیجہ ہیں! وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سماج مخالف اور ملک دشمن چوہوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا رہا ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ عوام اِنہیں مارتے مارتے اور انعام وصول کرتے کرتے تھک ہار کر ایک طرف بیٹھ جائیں گے، یہ کم بخت کم ہونے کا نام نہ لیں گے!
جن کی رگوں میں بدعنوانی، لاقانونیت، بد دیانتی، ہڈ حرامی اور مفت خوری کا خون دوڑ رہا ہے اُن چوہوں کو مارنے کے لیے عوام کو انعام کا لالچ دینے کے بجائے اُس نظام کی اوور ہالنگ کرنا ہوگی جس کی بدولت یہ چوہے پیدا ہو رہے ہیں۔ عوام کتنے چوہے ماریں گے؟ یہاں تو ہر سوراخ میں کوئی نہ کوئی چوہا چھپا بیٹھا ہے۔ معاشرے، معیشت اور ریاست کے تانے بانے کو کترنے والے اِن چوہوں کا شکار اندر کی طرف سے کیا جانا چاہیے۔