"MIK" (space) message & send to 7575

لگے رہو طاہر بھائی!

دو سال قبل ایشیا کپ میں جب شاہد آفریدی نے میزبان بنگلہ دیش کی ٹیم کے خلاف بیٹ کو بُغدے کی طرح پکڑ کر قصائی کا کردار ادا کرنا شروع کیا تھا تب پورے اسٹیڈیم کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ بنگلہ دیش کی ٹیم میچ جیتنے کی پوزیشن میں تھی۔ ایسے میں شاہد آفریدی کا اچانک اپنی جَون میں آ جانا اور قیامت ڈھانے پر تُل جانا اِس قدر shocking تھا کہ بنگلہ دیشیوں کے لیے اپنے جذبات پر قابو پانا انتہائی ناممکن ہوگیا تھا۔ جس شاہد آفریدی کی وجاہت پر دنیا بھر میں لڑکیاں فِدا ہوتی ہیں اُسی شاہد آفریدی کے چوکوں اور چھکوں نے کئی بنگلہ دیشی لڑکیوں کو خون کے آنسو رونے پر مجبور کردیا! اُس میچ کی وڈیو کلپس دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شاہد آفریدی نے اپنے بیٹ کو کس سَفّاکی سے استعمال کیا اور کس طور بنگلہ دیش کی تمام امنگوں اور امیدوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ 
میچ پر رننگ کمنٹری کرنے والے بھی شاہد آفریدی کے سِحر میں مبتلا ہوئے۔ بیشتر چھکے اور چوکے اتنے بے ساختہ تھے کہ کمنٹیٹرز تعریف کرتے وقت جذباتی سے ہوگئے۔ ایک مرحلے پر شاہد آفریدی کے کسی چھکے پر خواتین روئیں تو ایک کمنٹیٹر نے کہا محترمہ! ابھی آنسو نہ بہائیں، ابھی تو بہت کچھ ہونا ہے کیونکہ شاہد آفریدی نے ابھی اپنا کام ختم نہیں کیا ہے! 
یہ تاریخی الفاظ ہمیں اِس لیے یاد آئے ہیں کہ طاہر شاہ نے ایک بار پھر اپنی پٹاری کھولی ہے۔ اور یہ کیا؟ اِس بار وہ پٹاری سے سانپ کے بجائے اژدہا نکال بیٹھے ہیں! 
طاہر شاہ کو آپ بھول گئے؟ یہ وہی طاہر شاہ ہیں جنہوں ڈیڑھ دو سال قبل ہمیں یاد دلایا تھا کہ ہمیں جو آنکھیں ملی ہیں وہ صرف دیکھنے کا کام نہیں کرتیں بلکہ انہیں گیت کی شکل میں پیش کرکے مفت کی شہرت بھی بٹوری جاسکتی ہے! جی ہاں، طاہر شاہ کے گائے ہوئے انگریزی گانے ''مائی آئیز، یور آئیز‘‘ نے ایسی دھوم مچائی تھی کہ ہر طرف اُنہی کی جے جے کار سنائی دے رہی تھی۔ مگر یہ چند روزہ معاملہ تھا۔ جیسے ہی لوگوں کو اپنی حماقت کا اندازہ ہوا، انہوں نے طاہر شاہ کے آئٹم پر غور کیا اور اپنے کیے پر نادم ہوئے یعنی یہ سوچ کر دل جلاتے رہے کہ طاہر شاہ کو کس بے ڈھنگے آئٹم پر کتنا کھل کر سراہا! 
لوگ جب جذبات کی رَو میں بہہ جاتے ہیں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ طاہر شاہ کو خود بھی اندازہ نہ تھا کہ اُن کا تیار کیا ہوا ایک عامیانہ سا آئٹم اس قدر ہٹ ہوجائے گا کہ ہر طرف آنکھیں ہی آنکھیں اور آنکھوں ہی کی باتیں ہوں گی! یہ چند روزہ غلغلہ تھا اور پھر لوگوں کو ہوش آگیا۔ جب اندازہ ہوا کہ آنکھوں والے گانے کا سراہنا حماقت کے اظہار کے سوا کچھ نہ تھا تو لوگ تائب ہوئے اور ''مائی آئیز، یور آئیز‘‘ کو آنکھیں دکھاتے ہوئے اپنے ذہنوں سے کھرچ کر پھینک دیا۔ 
مگر خیر، طاہر شاہ کے لیے عوام کے مزاج کا تبدیل ہونا کوئی خسارے کا سودا نہ تھا۔ جو کچھ ہونا تھا وہ ہوچکا تھا یعنی طاہر کو بھرپور شہرت مل چکی تھی۔ بحث اس امر پر نہیں کہ لوگ سراہ رہے تھے یا کوس رہے تھے، اصل نکتہ یہ ہے کہ چند روز تک دنیا بھر میں طاہر شاہ کا نام لاکھوں افراد کی زبان پر رہا! وہ اس پر بھی بہت خوش تھے۔ یعنی ع 
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا؟ 
طاہر شاہ ایک بار پھر میدان میں ہیں بلکہ اس بار تو وہ کچھ زیادہ ہی میدان میں ہیں یعنی لوگ بھی لنگوٹیں اور کمر کس کر میدان میں آگئے ہیں۔ ''مائی آئیز، یور آئیز‘‘ کے وقت لوگ زیادہ تیار نہ تھے۔ جب تک طاہر شاہ کو رگیدنے تک نوبت پہنچی، وہ شہرت بٹور کر ایک طرف ہٹ چکے تھے! 
طاہر نے پھر انٹری دی ہے۔ چند روز قبل انٹر نیٹ پر انہوں نے اپنا نیا ''آئٹم‘‘ پیش کیا ہے۔ بس یہ سمجھ لیجیے کہ ''اینجلز‘‘ پیش کرکے طاہر شاہ نے خود کو بھوکے شیروں کے آگے ڈال دیا ہے! پچھلی بار جو لوگ چُوک گئے تھے وہ اب کوئی رسک لینے یا تساہل برتنے کے لیے تیار نہ تھے۔ جیسے ہی طاہر شاہ نے اپنا آئٹم انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کیا، دنیا بھر میں اُن پر تنقید کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ہمیں یقین ہے کہ اتنی بھرپور تنقید دیکھ کر ''داعش‘‘ والے بھی کچھ دیر کو شرمندہ ہوگئے ہوں گے! سوشل میڈیا کی مشہور ویب سائٹ ''ٹوئٹر‘‘ پر طاہر شاہ کے آئٹم کو اس قدر تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ مزیدار جملے پڑھنے والوں کے تو مزے ہوگئے۔ اور جس طور شکر خوروں کو کسی نہ کسی شکر مل ہی جایا کرتی ہے، ہم جیسے کالم نویس بھی طاہر شاہ پر کی جانے والی تنقید سے مستفید ہوکر بہت کچھ پاگئے۔ کئی شاہکار جملے طاہر شاہ کو ہدف بناکر لکھے گئے مگر ہم جیسوں تک پہنچے اور طبیعت کو ہشّاش بشّاش کرگئے! 
گیہوں کے ساتھ گُھن کا پِس جانا تو آپ نے سُنا ہوگا۔ اب کے گُھن کے ساتھ گیہوں پِس گیا ہے۔ طاہر شاہ نے جب سے اپنا دوسرا آئٹم (یعنی گانا) اپ لوڈ کیا ہے، دنیا بھر میں لوگ اُن کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں! بھارت، امریکا اور دوسرے بہت سے ممالک سے لاکھوں افراد نے اپنے جلے کٹے کمنٹس میں طاہر شاہ کو رگیدنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی بھی دُھنائی کر ڈالی ہے! 
طاہر شاہ نے اب کے خیر سے ایسی اعلٰی درجے کی جَھک ماری ہے کہ لوگ اِسے پاکستان کی طرف سے متعارف کرائی جانے والی دہشت گردی کی کوئی قسم قرار دینے سے نہیں چُوک رہے! جس طور بہت سے گیت دلوں کے تار چھیڑتے ہوئے گزر جاتے ہیں، ''اینجلز‘‘ نے محض چُھونے پر اکتفا نہیں کیا۔ یہ تو لاکھوں، بلکہ کروڑوں دماغوں کے تاروں کو جھنجھوڑتا ہوا گزر رہا ہے!
بہت سے امریکیوں نے بھی موقع غنیمت جان کر پاکستان کو لتاڑنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ تبصرہ کیا ہے کہ پاکستانی ڈبل گیم کھیلنے سے باز نہیں آئیں گے یعنی میوزک کے بھیس میں بھی دھماکا ہی کریں گے! 
جس وڈیو سانگ نے پوری دنیا کو ہلاکر رکھ دیا ہے اور ذہن ماؤف کردیئے ہیں اُس میں طاہر شاہ فرشتے کے روپ میں ہیں۔ اور انہوں نے تنہا قیامت ڈھانے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ایک عدد ''فرشتی‘‘ کا بھی اہتمام کیا ہے! یہ صرف طاہر شاہ کا خاصہ ہے کہ انہوں نے ثابت کیا کہ فرشتے ہٹے کٹے بھی ہوسکتے ہیں! اور یہی نہیں، اُن کے ساتھ وڈیو میں جلوہ گر ہونے والی ''فرشتی‘‘ بھی چوہدریوں کے گھرانے کی معلوم ہوتی ہے! 
معاملہ یہیں ختم نہیں ہوتا۔ طاہر شاہ نے دو ننھے فرشتوں کو متعارف کراکے فرشتوں کے خاندانی نظام کا تصور بھی پیش کیا ہے! یہ بھی طاہر شاہ کی مہربانی اور ''کامیابی‘‘ ہے کہ اُن کے ''فن‘‘ کی بدولت ایک بار پھر پاکستان انتہائی خبروں میں ہے! 
ہم اکیسویں صدی کے انسان ہیں۔ اور اکیسویں صدی کے انسان کا بھی کیا نصیب ہے، کیا کیا دیکھنا اور جھیلنا پڑ رہا ہے! ایسا لگتا ہے کہ اب دنیا کے خاتمے تک سب کچھ اوٹ پٹانگ ہی چلتے رہنا ہے۔ ایک دور تھا کہ لوگ ذرا سی شہرت اور کامیابی کے لیے برسوں ریاضت کا حق ادا کرتے تھے۔ خون اور پسینہ ایک پیج پر آتا تھا تب کہیں جاکر ہنر مندی کی منزل تک پہنچنا نصیب ہوتا تھا۔ زمانے نے ایسی سنگ دلانہ کروٹ بدلی ہے کہ لوگ بے ڈھنگی چیز پر بھی شہرت بٹور لیتے ہیں، توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں! 
ہم یہ سطور لکھ ہی رہے تھے کہ مرزا تنقید بیگ لائے۔ ہم نے اپنا لکھا اُن کے گوش گزار کیا تو اُنہوں نے ایک ایسی بات کہی کہ ہم سُنّ رہ گئے۔ اُن کی ماہرانہ رائے یہ تھی : ''پہلے بھی کئی بار ایسا ہوچکا ہے۔ 'جینیس‘ جو کچھ کرتے ہیں وہ کم ہی لوگوں کی سمجھ میں آتا ہے۔ طاہر شاہ پر تنقید کرنے والے محتاط رہیں۔ ہوسکتا ہے کہ طاہر شاہ کی کاوش اپنے زمانے سے سو سال آگے کی ہو! کہیں ایسا نہ ہو کہ سو سال بعد کے لوگ ''اینجلز‘‘ کو دیکھ کر سو سال پہلے کے تم جیسے لوگوں کو جاہل قرار دیں!‘‘ 
مرزا جب بھی آتے ہیں کوئی نہ کوئی ایسی بات ضرور کہہ جاتے ہیں جو ہمیں خوفزدہ کردیتی ہے۔ مرزا کی بات سن پر ہم ''اینجلز‘‘ کے حوالے سے مخمصے کا شکار ہوگئے۔ ایسے میں ہم یہی کہتے ہیں کہ لگے رہو طاہر بھائی! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں