"MIK" (space) message & send to 7575

’’کیمسٹری‘‘ کی تلاش

ایک پیج پر ہونے یا نہ ہونے کی اصطلاح نے ایسا زور پکڑا ہے کہ بچے کو کچھ خریدنے کے لیے ماں باپ سے معقول رقم نہ ملے تو وہ فوراً اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ وہ اور والدین ایک پیج پر نہیں ہیں! 
اصطلاحات تو اور بھی بہت سی ہیں جن پر گھنٹوں بحث کی جاسکتی ہے مگر اہلِ جہاں کا زور مطابقت، ہم آہنگی اور تال میل کو اچھی طرح بیان کرنے والی اصطلاحات پر ہے۔ اور ہمارے ہاں تو تال میل کے ذریعے انتہائی گرما گرم معاملات کو بھی ٹھنڈا ٹھار بنانے کا رجحان ایسا پروان چڑھا ہے کہ بہت کچھ تباہ ہوچکا ہے اور جو کچھ باقی رہا ہے اس کا بڑا حصہ بھی داؤ پر لگا ہوا ہے۔ 
دنیا بھر میں کوشش کی جاتی ہے کہ معاملات کو زیادہ سے زیادہ ہم آہنگی سے نمٹایا جائے، درست کیا جائے۔ ہمارے ہاں ہم آہنگی اور مفاہمت کی طرف بڑھنے کی روش نے قیامت ڈھائی ہے، ملک ہی کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔ بیشتر معاملات میں سب کو خوش کرنے اور خوش رکھنے کی روش نے اصولوں کو سُولی پر لٹکادیا ہے۔ ہم آہنگی، مفاہمت اور مصالحت یقینی بنانے کا جنون بیشتر سَروں میں یوں بھر گیا ہے کہ نکلنے کا نام نہیں لے رہا۔ 
ایک زمانہ تھا کہ تال میل کی جستجو بس وہیں تک محدود رہتی تھی جہاں تک محدود رہنی چاہیے۔ پھر وقت نے عجیب پلٹا کھایا اور زندگی کو نئے انداز سے گزارنے اور برتنے کا چلن عام ہوا۔ اور سب کو ہر معاملے میں کچھ نیا کرنے کے کیڑے نے کاٹ لیا۔ نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ہر معاملہ کچھ کا کچھ ہوتا گیا۔ ایک پیج پر آنے کی خواہش انسان کو سارے اصول، تمام اقدار ... یعنی سبھی اچھائیاں تجنے پر مجبور کردیتی ہے۔ 
ایک پیج پر آنا یعنی مکمل مفاہمت کے ساتھ ''نہ تم ہارے نہ ہم ہارے‘‘ والی زندگی بسر کرنے کے قابل ہونا ہر اُس انسان کی خواہش ہے جو اچھی طرح جانتا ہے کہ ایسا ممکن نہ ہو پانے کی صورت میں اُس کے لیے صرف تباہی رہ جائے گی۔ مفاہمت کی راہ پر گامزن ہونے یا ایک پیج پر آنے کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ بے جا تصادم سے بچا جائے، مکمل تباہی کو ٹالا جائے۔ اور دوسرا، زیادہ پریکٹیکل اور مفید، مفہوم یہ ہے کہ آپس میں لڑنے کے بجائے مل بانٹ کر کیوں نہ کھایا جائے! 
فطری علوم و فنون میں مہارت حاصل کرنے کی خواہش رکھنے والوں کو طبیعیات، حیاتیات، علم الابدان، علم الافلاک اور خدا جانے کیا کیا پڑھنا پڑتا ہے۔ اور ہاں، کیمسٹری بھی۔ بعد میں صرف کیمسٹری ہی زندگی کا حصہ رہ جاتی ہے کیونکہ خوش حال اور پرسکون زندگی بسر کرنے کے لیے ''کیمسٹری‘‘ یعنی تال میل کا ہونا لازم ہے۔ 
ڈیڑھ عشرے سے پاکستانی سیاست بھی کیمسٹری ہی کی گرویدہ ہوکر رہ گئی ہے۔ جس طور فلم کے ہیرو اور ہیروئن میں کیمسٹری اچھی ہو تو فلم ہٹ ہوجاتی ہے بالکل اُسی طور سیاست میں بھی یار لوگ کیمسٹری کی تلاش میں لگے رہتے ہیں۔ زمانے کا دستور ہے کہ جن کے دل، دماغ اور مزاج ملتے ہوں وہ مل کر قیامت ڈھاتے ہیں۔ سب کو اپنے جیسوں ہی کی تو تلاش رہتی ہے۔ ؎ 
کند ہم جنس با ہم جنس پرواز 
کبوتر با کبوتر، باز با باز 
دل مل گئے تو ویرانہ بھی گلزار۔ دل نہ مل پائیں تو تازہ پھولوں میں بھی رنگ نہ باس۔ اور سیاست میں تو ویسے بھی دیگر علوم و فنون کے مقابلے میں کیمسٹری کی زیادہ ضرورت پڑتی ہے کیونکہ ایک ددوسرے کے اعمال کی پردہ پوشی قابل رشک کیمسٹری ہی کے ذریعے ممکن ہے! 
ممبئی کی عام بھاشا یعنی ''ٹپوری لینگویج‘‘ میں کہیں تو ہماری سیاست میں ہر طرف ''کیمیکل لوچا‘‘ جلوہ فرما ہے یعنی یہ کہ کہنے کو تو ہر طرف ہم خیال افراد ایک پلیٹ فارم، ایک پیج پر دکھائی دیتے ہیں مگر یہ در حقیقت مفادات کا ایک مقام پر ہونا ہے جس کے نتیجے میں وطن اور اہلِ وطن کے لیے محض خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ ہر معاملے میں کیمسٹری تلاش کرنے کی عادت نے بیشتر معاملات میں کیمیکل ری ایکشن کا چلن عام کردیا ہے اور پھر یہی کیمیکل ری ایکشن ایک قدم آگے بڑھ کر لوچا بن جاتا ہے! 
جنہیں اقتدار مل جاتا ہے اُن سے بہت سے لوگ آ ملتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن اس معاملے میں بہترین کیمیکل ایکسپرٹ کہے جاسکتے ہیں! اُن کی کیمسٹری مسندِ اقتدار پر جلوہ افروز ہونے والوں سے خوب جمتی ہے۔ پاناما لیکس کے حوالے سے جب ملک بھر کے سیاست دان وزیر اعظم کے خلاف صف آرا ہوئے تب فضل الرحمن نے ''کیمسٹری‘‘ کا حق ادا کرتے ہوئے وزیر اعظم کا ساتھ (مسندِ اقتدار پر اُن کے) آخری لمحے تک نبھانے کا اعلان کیا۔ بہت سوں کی نظر میں یہ فضل الرحمن کی ''اصول پسندی‘‘ ہوگی کہ وہ مشکل میں نواز شریف کے ساتھ کھڑے رہے، ہم جیسے کوتاہ بین تو اِسے ''اقتدار شناسی‘‘ کی ایک اعلیٰ منزل کے سِوا کچھ قرار نہیں دے سکتے! 
عمران خان نے بہت سوں کے ساتھ کیمسٹری بنانے کی کوشش کی ہے مگر ہر بار اچھا خاصا ''کیمیکل لوچا‘‘ ہی ابھر کر سامنے آیا ہے۔ ازدواجی زندگی سے سیاسی میدان تک، عمران خان ہر معاملے میں کچھ نہ کچھ ایسا کرتے آئے ہیں کہ اچھی خاصی بنی ہوئی بات بھی حتمی تجزیے میں اندر سے بگڑی ہوئی ہی ثابت نکلتی ہے۔ ''بڑوں‘‘ سے کیمسٹری بنائے رکھنے کی کوشش میں اُنہوں نے نیچے بہت سوں کو اس قدر ناراض کیا ہے کہ اب اُن کے لیے جمہوری طریقے سے اقتدار میں آنے کا امکان انتہائی مخدوش ہوچلا ہے۔ عمران خان کے معاملے میں وقت اتنی تیزی سے گزر رہا ہے کہ اِس کا اندازہ خود اُن سے زیادہ اہلِ وطن کو ہے! وہ (خان صاحب) حواس پر قابو پانے کی صلاحیت سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ جلد از جلد مسندِ اقتدار پر بیٹھنے کی خواہش نے اُنہیں قدم قدم پر مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے۔ اب تو وہ عمومی سے خطاب یا میڈیا سے گفتگو میں بھی اپنے حواس اور جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتے اور بات بات پر وزیر اعظم سے مستعفی ہونے کا ''معصومانہ‘‘ مطالبہ کر بیٹھتے ہیں! وہ خود کو وزیر اعظم بنتا دیکھنے کے معاملے میں اتنے مغلوب الجذبات ہیں کہ ''پری ایمپٹیوسٹرائک‘‘ کی مد میں سرکاری ٹی وی پر قوم سے خطاب کرنے کی خواہش بھی زبان پر لانے سے نہیں چُوکے! یہ موقع اُنہوں نے خود ہی ہاتھ سے جانے دیا۔ ڈی چوک کے مشہور زمانہ دھرنے کے دوران جب کارکنوں نے پی ٹی وی کی عمارت پر قبضہ کیا تھا تب عمران خان لگے ہاتھوں قوم سے خطاب کا شوق بھی پورا کرسکتے تھے۔ اب ایسی کسی بھی خواہش کو ''کیمیکل لوچا'' ہی تصور کیا جائے گا! 
کیمسٹری کی تلاش نے یعنی تال میل بنانے، ایک پیج پر آنے کی خواہش اور کوشش نے تو ملک کو کہیں کا نہیں رہنے دیا۔ دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ جنہیں قدرت نے قوم کی رہنمائی کا موقع عطا کیا ہے انہیں بھی ایسا کرنے کا حقیقی شعور بھی عطا فرمائے تاکہ ہماری رہبری کرنے والے محض ہم خیال لوگوں کو تلاش کرنے اور آپس میں جُڑے رہنے تک محدود نہ رہیں بلکہ عملاً کچھ ایسا کرکے بھی دکھائیں جو تمام معاملات کو کیمیکل ری ایکشن کی منزل تک نہ پہنچنے دے۔ قوم چاہتی ہے کہ وہ جنہیں رہنمائی کے منتخب کرتی ہے وہ مفادات کے تحفظ کے لیے کیمسٹری بنانے میں خود کو کھپانے کے بجائے اپنے ارد گرد کی دنیا یعنی وطن کے فزیکل وجود کو بھی کچھ اہمیت دیں۔ کیمسٹری بنائے رکھنے کے لیے خود کو طرح طرح کے تجربوں کی نذر کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ پہلے سے موجود دنیا کے اصولوں یعنی فزکس پر خاطر خواہ توجہ دی جائے۔ ایسا ہوا تو علم الافلاک میں بھی مہارت دور کی بات نہیں رہے گی یعنی تارے توڑ لانے کے دعوے خواب کی بات نہیں لگیں گے! 
تو پھر ... کیا قوم امید رکھے کہ ہر معاملے میں کیمسٹری بنانے کے خواہش مند رہبرانِ مِلّت اپنی خواہشاتِ بے جا پر قابو پاکر بیشتر معاملات کو ''کیمیکل لوچا‘‘ کی منزل تک پہنچنے سے روکیں گے؟ ع 
اُمّید تو نہیں ہے مگر ہاں خدا کرے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں