"MIK" (space) message & send to 7575

لتا جی سے معذرت کے ساتھ

سادگی کی انتہا یہ ہے کہ انسان اس بات پر یقین رکھے کہ رونا اور گانا تو سب کو آتا ہے۔ اور ستم ظریفی کا درجۂ کمال اِس کے سوا کیا ہے کہ رونے اور گانے میں فرق محسوس نہ کیا جائے یعنی دونوں کو یکساں نوعیت کا ''فن‘‘ تصوّر کیا جائے! 
ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے اپنے آپ کو موسیقی کا رسیا پایا ہے۔ لڑکپن میں فلمی گانے بہت اچھے لگتے تھے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ فلمی گانے سُننے کا جنون سا تھا۔ عہدِ شباب کی دہلیز پر قدم رکھا تو موسیقی کے حوالے سے شعور تھوڑا توانا ہوا اور ریڈیو پاکستان کی خالص غیر فلمی گائیکی بھی بھلی معلوم ہونے لگی۔ پھر ہم برسوں موسیقی کے اس بیش بہا خزانے سے محظوظ ہوتے رہے۔ جو آئٹم اُس دور میں سُنے وہ آج بھی حافظے کی دیوار پر میخوں کی طرح ٹُھنکے ہوئے ہیں۔ ریڈیو کی غیر فلمی گائیکی سُنتے سُنتے یہ ہوا کہ خالص پختہ یعنی کلاسیکی موسیقی بھی سماعت کے لیے گراں قدر اثاثے کی شکل اختیار کرتی گئی۔ 
تقریبا ساڑھے تین عشروں کے دوران کون ہے جسے ہم نے نہیں سُنا۔ بڑے بڑے استادوں سے چھوٹے موٹے گانے والوں تک سبھی کو خوب سُنا ہے اور جہاں تک ممکن ہو سکا، حِظ اٹھایا۔ مگر خیر، سب کچھ ویسا سُریلا نہیں ہے جیسا آپ کو دکھائی یا سُنائی دے رہا ہے۔ موسیقی سے شغف نے ہم پر کئی بار اذیت کے پہاڑ بھی توڑے ہیں۔ کہتے ہیں شوق کی کوئی قیمت نہیں ہوا کرتی۔ ہم یہ بات کبھی درست نہیں مان سکتے۔ موسیقی ہمارا شوق رہا ہے اور اِس شوق کی ہم نے بہت بھاری قیمت ادا کی ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اب جو ادا کرنا پڑ رہی ہے وہ قیمت انتہا سے زیادہ ہے! 
ہر معاشرے میں رونے اور گانے کو ایک درجے میں رکھنے والوں کی کمی نہیں ہوتی۔ انسان خواہ کسی معاشرے یا ماحول کا ہو، گانے کا شوق ضرور رکھتا ہے۔ کہتے ہیں کہ موسیقی یعنی سُروں کی ترتیب میں جادو کا سا اثر پایا جاتا ہے۔ اگر کوئی ڈھنگ سے گائے تو اُس کے فن کا اثر حیوانات پر بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ہم موسیقی کا اثر قبول کرتے ہیں تو آپ کہیں اِس حوالے سے کسی غلط فہمی میں مبتلا ہو کر ہمیں انسانوں کے زُمرے سے نکال مت دیجیے گا! 
قصہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں لوگ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ موسیقی سے محظوظ ہونا اور تھوڑا بہت گنگنا لینا کافی ہے۔ دوسروں کے صبر کو اِس سے زیادہ نہیں آزمانا چاہیے۔ ہمارے ہاں یاروں نے طے کر لیا ہے کہ اور کسی معاملے میں خود کو منوانا بھلے ہی ترجیحات کا حصہ نہ ہو، گانے کے معاملے میں تو اپنے ''ٹیلنٹ‘‘ کا لوہا منوا کر ہی دم لینا چاہیے! لوگوں نے شاید یہ بھی سُن رکھا ہے کہ انسان اگر دُھن کا پکّا ہو تو گاتے گاتے گویّا بن ہی جاتا ہے۔ اس معاملے میں اُن کی مثال دی جاتی ہے جو قوّالوں کے پیچھے بیٹھ کر تالیاں پیٹتے پیٹتے قوّال بن کر ستم ڈھانے یعنی گانے کے قابل ہو جاتے ہیں! ہم اس بات کو نہیں مانتے۔ اگر واقعی گاتے گاتے گویّا بن جانا ممکن ہوتا تو آج ہماری سماعتوں سے اتنا سارا بے سُرا پن کیوں ٹکرا رہا ہوتا! 
مشکل یہ ہے کہ کسی کو ''گانے‘‘ سے روکنے کے لیے تعذیراتِ پاکستان میں کوئی خصوصی اہتمام بھی موجود نہیں یعنی کوئی گانے پر بضد ہو تو کسی بھی عدالت سے اُس کے خلاف ''حکمِ امتناع‘‘ حاصل نہیں کیا جا سکتا! فرانس کے عظیم فلسفی والٹیئر نے کہا تھا کہ انسان آزاد پیدا ہوا ہے مگر وہ ہر جگہ (دیدہ و نادیدہ) زنجیروں میں بندھا دکھائی دیتا ہے۔ اگر آج والٹیئر ہوتا تو ہم اُس سے پوچھتے کہ بھائی! تم نے یہ بات کہنے سے پہلے پاکستانی معاشرے پر ایک اُچٹتی سی نظر ڈالنا کیوں گوارا نہ کیا؟ ہمارے ہاں اور کسی معاملے میں آزادی میسّر ہو نہ ہو، گانے کے معاملے میں تو کسی پر کوئی قدغن دکھائی نہیں دیتی۔ جس کے جی میں آئے وہ جی بھر کے شوق پورا کر سکتا ہے، اجازت لیے بغیر سماعتوں پر قیامت ڈھا سکتا ہے! کسی کے دل و جاں پر قیامت گزرتی ہے تو اُس کی بلا جانے۔ گانے پر کوئی باضابطہ قانونی و اخلاقی قدغن نہ ہونے کے باعث عالم یہ ہے کہ جسے ڈھنگ سے باتھ روم میں گنگنانے کا ہنر بھی نہیں آتا وہ بھری محفل میں مائیکروفون تھام کر آرکسٹرا کے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے اور پھر تادیر حاضرین کے حواس پر پہاڑ بن کر سوار رہتا ہے! بہت سے شوقین تو گاتے وقت ''فن‘‘ کے سمندر میں ایسے غرق ہو جاتے ہیں کہ اچھی خاصی محفل کا بیڑا ڈبو کر ہی سکون کا سانس لیتے ہیں! بے سُرے پن کا پامردی سے مظاہرہ کرتے وقت خوش فہمی کے میٹھے راگ میں اُن کے استغراق کا عالم یہ ہوتا ہے کہ ''نو مور‘‘ کی صدا بھی اُنہیں ''ونس مور‘‘ سُنائی دیتی ہے! 
میوزیکل فنکشن کے نام پر جو شور برپا کیا جاتا ہے، جو دھماچوکڑی مچائی جاتی ہے اُسے برداشت کرنا بھی خاندانی روایات و شرافت اور کردار کی پختگی و بالیدگی کی علامت ہونے کے ساتھ ساتھ باضابطہ فن کا درجہ رکھتا ہے! بہت سوں کو ہم نے موسیقی کے نام پر برپا کی جانے والی ہنگامہ آرائی کو ماں کی بددعا کا نتیجہ یا پھر کسی گناہ کی سزا کے زُمرے میں رکھ کر برداشت کرتے بھی دیکھا ہے! 
میوزیکل فنکشن میں بہت سے گانے والے اس قدر ڈھٹائی... معاف کیجیے گا، ہمارا مطلب ہے مستقل مزاجی سے بے سُرے پن کا مظاہرہ کر رہے ہوتے ہیں کہ دو چار جملوں کی ہوٹنگ سے اُن کا کچھ نہیں بگڑتا۔ سٹیج سے اُنہیں اتارنے اور گانے سے باز رکھنے کے لیے ٹھیک ٹھاک ''کارروائی‘‘ کرنا پڑتی ہے اور اس کام کے لیے دو چار ''بھائی لوگ‘‘ ٹائپ کے نوجوان تعینات کرنا پڑتے ہیں! 
پاکستان میں کون ہے جو، کسی نہ کسی حد تک، گانے کے جُنون میں مبتلا نہیں؟ گانے کا شوق ویسے تو خیر سبھی پورا کر رہے ہیں مگر جنہیں گانا نہیں آتا وہ خالص پروفیشنل انداز اختیار کرکے اچھا خاصا مال بھی پیٹ رہے ہیں! یہ کمال سب کو نہیں آتا۔ اعجازؔ رحمانی نے خوب کہا ہے ع 
کسی کسی کو خدا یہ کمال دیتا ہے! 
یہ بات تو تسلیم کرنا ہی پڑے گی کہ فن پر برائے نام بھی دسترس نہ رکھتے ہوئے اپنے آپ کو فنکار منوا لینا واقعی بہت بڑی فنکاری ہے! یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی شیشے سے پتھر توڑ کر دکھائے! 
ایک زمانہ تھا کہ جو سُریلا ہوتا تھا وہ کسی نہ کسی طور اپنے آپ کو منوا لیتا تھا۔ گدھا گاڑی چلانے اور ریڑھی لگانے والوں نے بھی محنت کی اور فن کی دنیا میں نام کمایا۔ ہمیں ایسا لگتا ہے کہ کراچی کے ماسٹر اسلم نے ممکنہ طور پر گزرے ہوئے زمانوں سے متعلق ایسی ہی چند باتیں سُن کر اپنے گلے کا ہنر دنیا کے سامنے پیش کیا۔ ماسٹر اسلم رکشہ چلاتے تھے۔ انہوں نے اپنا آئٹم سوشل میڈیا پر پیش کیا تو ان کی خوب پذیرائی کی گئی۔ معاملہ سُروں کی ملکہ لتا منگیشکر تک جا پہنچا۔ انہیں ماسٹر اسلم کی آواز پسند آئی۔ خلوص کا مظاہرہ کرتے ہوئے لتا جی نے ماسٹر اسلم کو مشورہ دیا کہ وہ رکشہ چلانا چھوڑ دیں اور اپنے فن پر متوجہ ہوں۔ سُنا ہے کہ ماسٹر اسلم نے لتا جی کے مشورے کا احترام کرتے ہوئے رکشہ پر کپڑا چڑھا دیا ہے۔ 
گائیکی ایک اتھاہ ساگر ہے اور ہم نے اس کی شناوری کا دعویٰ کبھی نہیں کیا مگر اتنا ضرور جانتے ہیں کہ لتا جی جنوبی ایشیا کی گِنی چُنی بڑی گلوکاراؤں میں سے ہیں۔ وہ ابھرتی ہوئی صلاحیت کو شناخت کرنے اور پرکھنے کا ہنر جانتی ہیں۔ ماسٹر اسلم کو انہوں نے کچھ دیکھ اور سوچ کر ہی رکشہ نہ چلانے اور فن پر متوجہ ہونے کا مشورہ دیا ہو گا۔ مگر ہمیں لتا جی سے ایک شِکوہ ہے۔ اُنہوں نے ماسٹر اسلم کو تو گانے کا سلسلہ جاری رکھنے کا مشورہ دے دیا مگر کبھی اُن بے سُروں کو گانے سے باز رہنے کا مشورہ نہیں دیا جو دن رات ستم بالائے ستم پر تُلے ہوئے ہیں! حوصلہ افزائی بڑی بات ہے جس پر لتا جی کی اعلیٰ ظرفی کو سراہنا پڑے گا مگر اُنہیں یاد رکھنا چاہیے کہ کبھی کبھی حوصلہ شکنی بھی بڑی نیکیوں میں شمار ہوتی ہے! کاش لتا جی اِس معاملے میں بھی لب کُشا ہوں اور گائیکی کے نام پر ستم ظریفی فرمانے والے کسی اور شعبے کا انتخاب کریں! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں