"MIK" (space) message & send to 7575

ہم کہ ٹھہرے ’’پس ماندہ‘‘ …

فطری علوم و فنون میں انسان خواہ کتنی ترقی کرلے، سماجی علوم و فنون کی دنیا پر اُس کا کچھ خاص اثر نہیں ہوتا۔ اور اگر کہیں ہوتا بھی ہے تو کچھ ایسا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، چکرا جاتی ہے۔ لیباریٹریز میں سائنس دان رات دن سَر پھوڑکر نئے نئے تجربات کے ذریعے دنیا کو بہت کچھ نیا دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں مگر انہیں اندازہ ہی نہیں کہ بہت سے معاشرے لیب کا درجہ رکھتے ہیں یعنی وہاں جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے وہ ساری دنیا کے لیے انوکھے تجربات سے کم نہیں ہوتا۔ سماجی سطح پر ''علوم و فنون‘‘ آج بھی ایسی بہار دکھا رہے ہیں کہ دیکھتے ہی بنتی ہے۔ 
سماجی سطح پر جدت اور ندرت کا بازار ویسے تو اور بھی بہت سے معاملات میں گرم رہتا ہے مگر جو بات شادی بیاہ کی رسموں میں ہے وہ کسی اور معاملے میں کہاں۔ بہت سے معاشروں میں قبائل کی شناخت شادی کی رسموں کے دم ہی سے قائم ہے۔ باقی تمام معاملات میں گدھے گھوڑے ایک ہوتے ہیں۔ ہندوستانی معاشرہ ہو یا افریقی، شادی کی رسموں کے معاملے میں دونوں ہی اتنے ''زرخیز‘‘ ہیں کہ اُن ذہنوں کو داد دینا ہی پڑتی ہے جن میں ان رسموں کے بنیادی خیال ابھرتے ہوں گے۔ خود ہمارے ہاں بعض برادریاں شادی کی رسموں کے معاملے میں ایسی عجیب واقع ہوئی ہیں کہ ان میں شادی کا مطلب ہے سالانہ فیسٹیول! جس گھر میں شادی ہو رہی ہوتی ہے وہ تفریحی مقام کا درجہ حاصل کرلیتا ہے۔ آج ایک رسم ادا کی جارہی ہے تو کل دوسری۔ اور پرسوں تیسری۔ شادی سے پندرہ دن قبل شروع ہونے والا یہ سلسلہ مایوں، مہندی، نکاح اور ولیمے سے ہوتا ہوا چوتھی کی رسم تک پہنچتا ہے اور اس کے بعد کھیر پکائی کی رسم پر باضابطہ اختتام پذیر ہوتا ہے! 
بعض قبائل اور برادریوں میں شادی کی رسمیں اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ شادی کی تقریب بھی ان رسموں میں جگہ پاکر اپنے مقدر پر ناز کرتی ہے! بعض برادریوں میں تو شادی کی رسمیں کمبھ کے میلے کی سی حیثیت رکھتی ہیں۔ لوگ آتے جاتے ہیں اور ڈبکیاں لگاکر دل و دماغ کے جسم سے ساری پریشانیوں اور الجھنوں کا میل اتارتے جاتے ہیں! لوگ قریبی رشتہ داروں میں شادی کا مہینوں انتظار کرتے رہتے ہیں۔ اور جیسے ہی موقع ملتا ہے، بھرپور انجوائے کرتے ہیں۔ جس گھر میں شادی ہو رہی ہوتی ہے وہ دو تین سال پہلے سے رقم جوڑ رہا ہوتا ہے اور شادی کے دو تین سال بعد تک ادھار چکاتا پھرتا ہے مگر صاحب، شادی کے پندرہ روزہ میلے کا مزا ہی کچھ ایسا ہوتا ہے کہ لوگ اپنے بجٹ کو تلپٹ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے! 
بھارت میں اور ہمارے ہاں شادی کی بیشتر رسمیں خاصی قابو میں ہیں۔ اس معاملے میں معاشرے نے ابھی خاطر خواہ ''ترقی‘‘ نہیں کی۔ دولھا اور دلھن کو اوٹ پٹانگ حرکتیں کرنا پڑتی ہیں اور لوگ انہیں دھوکا یا سرپرائز دینے کے لیے عجیب و غریب ہتھکنڈے ضرور اپناتے ہیں مگر معاملہ بگڑنے پر بھی شائستگی کی حدود میں رہتا ہے۔ افریقی معاشرہ شادی کی رسموں کے معاملے میں انتہائی پُرپیچ اور قدرے ناقابل فہم واقع ہوا ہے۔ بعض افریقی برادریوں اور قبائل میں تو شادی کی رسموں کے نام پر زمانے بھر کی اخلاق سوز حرکتیں گھر کی دہلیز تک لائی جاتی ہیں۔ شادی سے متعلق تقریبات کو زیادہ سے زیادہ رنگین اور تفریح کے عنصر سے بھرپور بنانے کے لیے ہر اوٹ پٹانگ معاملے کو رسم کا رنگ دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ 
افریقی معاشرے میں شادی کی بیشتر رسمیں دراصل جرأتِ رندانہ کی متقاضی ہوتی ہیں۔ دلھن کو منتخب کرنے سے زیادہ حاصل کرنے پر زور دیا جاتا ہے! جس طور قدیم دور کے ہندوؤں میں سوئمبر کی رسم ہوا کرتی تھی اُسی طور لڑکا اپنے لیے دلھن کا انتظام خود کرتا ہے۔ یہ تو خیر کسی حد تک ہمارے ہاں بھی ہوتا ہے کہ لڑکا اپنی محبت کو بھگا لے جاتا ہے یا پھر لڑکی ''ہمتِ مرداں، مددِ خدا‘‘ کی عملی تصویر بن کر لڑکے کو رفو چکّر ہونے کی تحریک دیتی ہوئی پتلی گلی سے نکل لیتی ہے! مگر خیر، ہمارے ہاں یہ معاملہ ابھی خاصا ''پس ماندہ‘‘ اور ابتدائی مراحل میں ہے! 
افریقی معاشرے میں پائی جانے والی وودابے برادری میں بھی شادی کی ایسی عجیب رسمیں پائی جاتی ہیں کہ کوئی دیکھے تو پہلے دنگ رہ جائے اور پھر کفِ افسوس مَلے! وودابے برادری ہر سال گیریوال فیسٹیول کا اہتمام کرتی ہے۔ یہ میلہ زمانے بھر کی رنگینیاں اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہوتا ہے۔ اِسی میلے میں جوڑے بھی بنتے ہیں۔ اور جوڑے کس طرح بنتے ہیں، یہ جان کر آپ بھی دنگ رہ جائیں گے۔ 
وودابے برادری میں دو شادیاں عام ہیں۔ اور دونوں شادیوں میں اس امر کا پورا اہتمام ہے کہ مرد کی مرضی پوری ہو۔ کسی بھی معاشرے میں شادی کے حوالے سے سارا جھگڑا صرف اس بات کا ہوتا ہے کہ مرضی کس کی ہوگی۔ گھر والے چاہتے ہیں کہ لڑکا یا لڑکی اُن کی مرضی سے شادی کرے۔ دوسری طرف لڑکی یا لڑکے کی بنیادی خواہش یہ ہوتی ہے کہ شادی اُس کی مرضی سے ہو یعنی اُسے جیون ساتھی منتخب کرنے کا اختیار دیا جائے۔ 
دنیا بھر کے معاشروں کو نوید ہو کہ وودابے برادری نے یہ جھگڑا ہی ختم کردیا ہے۔ اِس برادری میں لڑکا پہلی شادی گھر والوں کی مرضی یا پسند سے کرتا ہے۔ اور دوسری شادی؟ اس معاملے میں اُسے مکمل اختیار بخش دیا جاتا ہے۔ دوسری شادی کے لیے لڑکے کو کسی لڑکی کا دل نہیں چُرانا پڑتا بلکہ پوری لڑکی چُرانا پڑتی ہے! جی ہاں، وودابے برادری کی رسم یہ ہے کہ دوسری شادی کسی کی بیوی کو چُراکر کی جاتی ہے! اور اِسی مقصد کی تکمیل کے لیے گیریوال فیسٹیول منعقد کیا جاتا ہے۔ 
طریقہ یہ ہے کہ گیریوال فیسٹیول میں مرد و زن بن ٹھن کر آتے ہیں۔ جو دوسری شادی کا خواہش مند ہو وہ کئی سہاگنوں پر ڈورے ڈالتا ہے۔ اور جس کے ساتھ سیٹنگ ہوجائے اُسے لے اُڑتا ہے۔ بعد میں یہ جوڑا اپنے گھر والوں میں واپس آتا ہے اور اِن کی باضابطہ شادی کرادی جاتی ہے۔ اِسی کو وودابے برادری میں محبت کی شادی کہا جاتا ہے۔ برادری کے بزرگ کہتے ہیں کہ اس طور یہ بات بھی طے ہوجاتی ہے کہ کوئی لڑکی اپنے شوہر کے ساتھ رہنا چاہتی ہے یا نہیں۔ مرد کے لیے اصل امتحان یہ ہے کہ وہ اپنی بیوی کو اتنا خوش رکھے کہ وہ کسی کے ساتھ بھاگ نکلنے کا سوچنے سے بھی گریز کرے۔ یعنی لڑکی کو یہ آپشن دیا گیا ہے کہ وہ اگر شوہر سے خوش نہیں تو بھرے میلے میں کسی کا ہاتھ پکڑ کر بھاگ نکلے اور ایک بار پھر گھر بسالے! 
یہ بات ہم نے مرزا تنقید بیگ کو بتائی تو انہوں نے پہلے تو خبر کے خوب مزے لیے۔ پھر ہمیں نشانے پر لیتے ہوئے طنز کے تیر برسانے لگے۔ بولے : ''ہمیں تو لگتا ہے تم وودابے برادری کے ایجنڈے پر ہو۔ میاں! اِس معاشرے میں ایسی خبریں نہ پھیلاؤ۔ ہمارے ہاں بعض چینلز ویسے ہی واضح طور پر ایجنڈے کے تحت کام کر رہے ہیں۔ بعض اشتہارات میں بھی لڑکیوں کو 'جرأتِ رندانہ‘ سے کام لینے کی ترغیب دی جارہی ہے تاکہ 'پس ماندگی‘ کچھ دور ہو اور 'روشن خیالی‘ سے کام لینے کا چلن عام ہو! الجھنوں سے اٹے ہوئے ماحول میں اگر ایسی خبریں تیزی سے پھیل گئیں تو یہاں شادی کی تقریبات 'گیریوال فیسٹیول‘ کی حیثیت اختیار کرلیں گی! اور وہی کیفیت پیدا ہوجائے گی جو عبیداللہ علیمؔ نے بیان کی ہے۔‘‘ 
ہم نے پوچھا کون سی کیفیت تو مرزا نے شعر ٹانک دیا۔ ؎ 
محبتوں میں عجب ہے دلوں کو دھڑکا سا 
نہ جانے کون کہاں راستہ بدل جائے! 
اللہ کا شکر ادا کیجیے کہ ہمارے ہاں رشتے اب تک سلامت ہیں۔ گھر بسانے کے نام پر کسی کی بیوی کو لے بھاگنے کا سیاسی طریقہ وودابے برادری ہی کو مبارک ہو۔ ہم لِنڈورے ہی بھلے۔ شادی کی رسموں کے حوالے سے ہماری ''پس ماندگی‘‘ برقرار ہی رہے تو اچھا۔ پتلی گلی سے نکل بھاگنے کا رواج زور پکڑ گیا تو سبھی کچھ تلپٹ ہوکر رہ جائے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں