کراچی کے دو کروڑ سے زائد باشندوں کو انتہائی بنیادی چیز یعنی پانی کی فراہمی پر مامور افراد نے اب تک جو کچھ کیا ہے اُسے دیکھتے ہوئے پورے اطمینان سے اور بلا خوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ اُن کی آنکھوں کا پانی یا تو مرچکا ہے یا پھر گہری نیند سو رہا ہے! شہر بھر میں پانی کی تقسیم پر مامور ادارے کے ملازمین اور بالخصوص متعلقہ عملہ گھوڑے بیچ کر سویا رہتا ہے اور پانی کے انتظار میں سُوکھنے والے خون کے گھونٹ پیتے رہتے ہیں! اور ایک اُن کی نیند پر کیا موقوف ہے، اہل کراچی کا مقدر تو ایسا ہے کہ بھری برسات میں اُن کے حصے کا پانی بھی سویا رہتا ہے یعنی بادل شہر پر چھائے رہتے ہیں مگر برسنے کا نام نہیں لیتے!
کراچی کے بعض علاقوں میں بجلی کی ترسیل اور تقسیم کا نظام ایسا الجھا ہوا ہے کہ اُسے سلجھانے کے لیے شاید البرٹ آئن سٹائن کو قبر سے نکال کر لانا پڑے گا ... اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کراچی میں بجلی کا نظام درست کرنے کے ٹاسک کو آئنسٹائن بعد از مرگ سزا سے تعبیر کرے!
بجلی نہیں ہوتی تو پانی بھی نہیں ہوتا۔ قدرت کا بھی یہی نظام ہے۔ وہ پانی برساتے ہوئے بجلی کڑکاتی ہے اور بجلی کی کڑک کے ساتھ ساتھ پانی برستا ہے۔ پانی و بجلی ایک دوسرے کے لیے ''سپلیمنٹری اینگل‘‘ کا درجہ رکھتے ہیں! ہمارے ہاں پانی و بجلی کی وزارت بظاہر قدرت کا کام آسان بنانے کے لیے معرض وجود میں لائی گئی ہے مگر لگتا یہ ہے کہ یہ شہریوں سے انتقام لینے کی ایک تسلیم شدہ اور باضابطہ صورت ہے! قدرت پانی و بجلی دیتی ہے اور پانی و بجلی کی وزارت ان دونوں نعمتوں سے شہریوں کو محروم رکھنے کا فریضہ بخوبی انجام دے رہی ہے!
پانی انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ ہزاروں سال قبل انسان جھیل، دریا اور سمندر کے کناروں کو آباد کیا کرتا تھا۔ یعنی نچلی سطح کے شعور کا حامل انسان بھی اچھی طرح جانتا اور سمجھتا تھا کہ پانی کے بغیر جینا انتہائی دشوار ہے مگر اکیسویں صدی میں اہلِ کراچی نے ثابت کردیا ہے کہ پانی جیسی بنیادی چیز بھی خاصی کم ملے تو کوئی مر نہیں جاتا، زندہ رہتا ہے اور کسی نہ کسی طور انسانی برادری کا حصہ ہی رہتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ دوسرے معاشروں کے انسان یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ پانی کے بغیر جینے والے انسان ہیں بھی یا نہیں! مگر ایک بات تو طے ہے کہ اہلِ کراچی نے پانی اور بجلی جیسی انتہائی ضروری اور بنیادی نعمتوں سے کبھی کبھار مستفید ہونے پر بھی زندہ رہ کر دنیا کے لیے انوکھی مثال قائم کردی ہے۔ اور معاملہ پانی و بجلی تک محدود نہیں، کراچی کے بعض علاقوں میں ہوا بھی کم کم آتی ہے۔ شہر کے پرانے علاقوں میں عمارتیں اِس طور بنی ہوئی ہیں کہ اُن میں داخل ہوتے شاید ہوا کا بھی دم گھٹتا ہوگا! ایسے میں آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اُن میں سکونت رکھنے والوں کا کیا حال ہوتا ہوگا۔ مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہ نہ صرف زندہ ہیں بلکہ کچھ بہتر ہی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ وہ ایسے کہ کراچی کے قدیم علاقوں میں کاروباری برادری رہتی ہے جو خوش حال ہے اور پھل پُھول رہی ہے!
کراچی کے مکینوں کی بڑی تعداد اب تک بنیادی سہولتوں سے کماحقہ مستفید ہوئے بغیر اِس طور زندگی بسر کر رہی ہے کہ دنیا دیکھ کر حیران ہوئے بغیر نہیں رہتی۔ بات پانی سے شروع ہوئی تھی اس لیے ہم کالم میں پانی کو فوکس کرنا چاہتے ہیں۔ اور کیوں نہ کریں کہ پانی ہی کے دم سے تو سارا میلہ ہے۔
ایمان داری کی بات یہ ہے کہ کراچی کے بعض علاقے تو ایسے ہیں کہ جب وہاں پانی آتا ہے تو میلے کا سماں ہوتا ہے، لوگ یوں خوشی مناتے ہیں جیسے علاقے کے ہر فرد کی لاٹری نکل آئی ہو! ہمیں یقین ہے کہ اپنی آمد پر لوگوں میں انتہائے مسرّت کا عالم دیکھ کر پانی بھی اپنے مقدّر پر رشک کرتا ہوگا کہ اتنے بہت سے لوگوں کے لیے اتنی بہت سی خوشی کا سامان کر رہا ہے! ایسے میں بس اتنی سی کسر رہ جاتی ہے کہ علاقے کے داخلی راستے پر سیڑھیوں اور کھجور کی ٹہنیوں والے گیٹ لگاکر ان پر لکھ دیا جائے ''بھلی کرے پانی آیا!‘‘
مرزا تنقید بیگ نے چونکہ ہر معاملے میں کسی انوکھے نقطۂ نظر کے اظہار کی ٹھان رکھی ہے اس لیے کراچی میں پانی کے معاملے کو بھی کسی اور ہی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اُن کا استدلال ہے کہ بنیادی سہولتوں سے محروم رکھ کر قدرت یا تو اہل کراچی کے گناہوں کا بوجھ کم کر رہی ہے یا پھر اُنہیں کسی بڑے مقصد کے لیے تیار کر رہی ہے۔ جس طرح فورسز میں رنگروٹوں کو مختلف جاں گسل مراحل سے گزار کر عظیم تر دفاعی کردار کے لیے تیار کیا جاتا ہے بالکل اُسی طرح اہل کراچی کو بھی پانی کی انتہائی معمولی یومیہ مقدار کے ساتھ
آلودہ فضاء میں سانس لینے پر مجبور کرتے ہوئے قدرت شاید اُنہیں کسی سخت تر مرحلے کے لیے تیار کر رہی ہے۔ ہمارے لیے کبھی ضروری نہیں رہا کہ اُن کی ہر بات پر آنکھ بند کرکے یقین کرلیں۔ جب ہم نے مرزا سے کسی عظیم مقصد کے لیے تیار کیے جانے کی وضاحت چاہی تو اُنہوں نے کہا: ''بات کچھ یُوں ہے کہ جس طور ہزاروں سال کے عمل میں اونٹ اِس قابل ہوگیا ہے کہ پانی پیے بغیر صحرا میں اچھا خاصا وقت گزار لے اِسی طور اہل کراچی بھی اب پانی پر انحصار کم کرتے جارہے ہیں تاکہ اُس کے بغیر زیادہ سے زیادہ دیر تک رہ سکیں اور کوئی اُنہیں پانی کی قِلّت سے ڈراکر بلیک میل نہ کرسکے! کسی ناگہانی صورتِ حال میں کراچی کے باشندے سرکار سے ملنے والے (یعنی نہ ملنے والے) پانی کے بغیر ایک ایک مہینہ گزار لیتے ہیں! کراچی کے بعض علاقوں میں تو پانی طویل وقفے کے بعد عطا کیا جاتا ہے کہ جب پانی آتا ہے کو بچوں کو سمجھانا پڑتا ہے کہ پانی کیا ہوتا ہے، کیسا دکھائی دیتا ہے، اُس کا ذائقہ کیسا ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ! بعض بچوں کے ذہن میں یہ بات راسخ ہوچکی ہے کہ اُن کے گھروں میں لگے ہوئے پائپ اور ٹونٹیاں دراصل ہوا کے اخراج کے لیے ہیں یا پھر سُریلی سی سیٹی بجانے کے لیے! بچوں کو تفصیل سے بتانا اور سمجھانا پڑتا ہے کہ ٹونٹیاں پانی استعمال کرنے کے لیے ہوتی ہیں، اِنہیں میوزیکل سسٹم نہ سمجھا جائے!‘‘
مرزا کا اضافی استدلال یہ ہے کہ اہلِ کراچی نے بنیادی سہولتیں بہت معمولی سطح پر استعمال کرکے دنیا کو پیغام دیا ہے کہ وہ سہولتوں کے محتاج ہوکر نہ رہ جائیں بلکہ قوتِ برداشت کے بل پر یُوں جئیں کہ ایک زمانہ دیکھ کر حیران اور پریشان ہو!
ملک بھر میں مون سُون نے لوگوں کے ارمان پورے کیے ہیں اور یہاں کراچی میں حالت یہ ہے کہ بادلوں نے آ آکر اور برسے بغیر رخصت ہوکر ارمانوں پر پانی پھیر دیا ہے! کئی بار گھٹائیں یُوں چھائی ہیں کہ لوگ سہم سہم گئے ہیں۔ بہت سے دور اندیش اِس کیفیت کو بھی اللہ کے کرم سے تعبیر کرتے ہیں۔ اُن کا استدلال یہ ہے کہ اہل کراچی کو شاید، اپنے ارمانوں کی موجوں میں بہتے ہوئے، اندازہ نہ ہو مگر اللہ کو تو اچھی طرح معلوم ہے کہ بادل ذرا ڈھنگ سے چار پانچ گھنٹے بھی برس گئے تو شہر کا تیا پانچا ہوجائے گا! پانی میں ڈوبا ہوا شہر اپنے مکینوں کو انتہائے وحشت کی چوکھٹ تک پہنچادے گا۔ اور آپ نے بھی سُنا تو ہوگا ؎
وحشت میں ہر اِک نقشہ اُلٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے، لیلیٰ نظر آتا ہے!
ڈیڑھ ماہ کے دوران ایک ڈیڑھ گھنٹہ بھی بارش ہوئی ہے تو شہر میں ہر طرف پریشانیاں اور دشواریاں بہتی ہوئی پائی گئی ہیں!
مرزا تنقید بیگ کہتے ہیں کہ اہل کراچی بارش کے نہ ہونے پر دل برداشتہ ہوجاتے ہیں مگر اللہ کا شکر ادا نہیں کرتے۔ شہر پر ایک نظر دوڑائیے تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ اپنا کرم نہ برساکر اللہ ہم پر کتنا بڑا کرم کرتا ہے! اگر کبھی تین چار گھنٹے کے لیے ساون کی جھڑی لگ گئی تو ہم بانس کی سیڑھیوں پر کھجور کے پتے سجاکر یہ لکھنے کے لیے نہیں پائے جائیں گے کہ بھلی کرے پانی آیا!