"MIK" (space) message & send to 7575

ہمیں تو لگ پتا گیا!

ویسے تو خیر پورا ملک ہی اب ہنسنے ہنسانے کی چیز ہوکر رہ گیا ہے مگر ہم نے ہمیشہ یہ بات شدت سے محسوس کی ہے کہ اہل سیاست جب ہنسانے پر آتے ہیں تو پیشہ ور فنکاروں کے پیٹ پر لات مارنے سے بھی گریز نہیں کرتے! ملک کے ہر حصے کے سیاسی شعبدہ باز زبانی کلامی شعبدوں کے ذریعے قوم کو ہنسانے کے معاملے میں اپنا حصہ ملانے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیتے۔ جو لوگ یہ الزام عائد کرتے نہیں تھکتے کہ ہمارے اربابِ سیاست کچھ نہیں کرتے اُنہیں یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے اپنی رائے سے رجوع کرنا چاہیے! 
گُن تو اوروں میں بھی ہیں اور بہت ہیں مگر عوام کو خوش رکھنے کے معاملے میں سندھ کے سیاسی قائدین کا کوئی ثانی نہیں۔ سوال گڈ یا بیڈ گورننس کا نہیں، عوام کو دریائے مسرّت میں غوطے دینے کا ہے۔ سندھ کے بیشتر سیاسی قائدین عوام کو کماحقہ مسرّت سے ہم کنار کرتے رہے ہیں۔ سندھ کابینہ میں ہمیشہ ایسی شخصیات رہی ہیں جن کے دم سے سیاسی میلے کی رونق میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا ہی کو یاد کیجیے۔ وہ جب سندھ کے وزیر داخلہ تھے تو اپنے ''حسنِ کلام‘‘ سے سیاست کے چہرے کی تابندگی میں حسبِ توفیق اضافہ فرماتے رہتے تھے! اور کابینہ سے نکلنے (یعنی نکالے جانے) کے بعد تو اُن کے دَم سے سیاست کی دکان مزید چمک گئی۔ 
منظور وسان کا دَم بھی غنیمت تھا۔ وہ خواب بیان کرکے ہمیں تعبیر کے بارے میں سوچتے رہنے کے لیے زندہ چھوڑ دیتے تھے! اُن کے خوابوں کو تو کیا شرمندۂ تعبیر ہونا تھا، تھک ہار کر ہم یعنی عوام ہی کچھ ہنس لیتے تھے! ؎ 
اپنی ناکامیوں پہ آخرِکار 
مسکرانا تو اختیار میں ہے! 
کچھ دن مولا بخش چانڈیو نے بھی طوفانی قسم کے بیانات سے سیاسی درجۂ حرارت بلند کرنے کی کوشش کی مگر پھر اُن کی باتوں سے بھی چمک رخصت ہوگئی کہ وزیر اعلیٰ نے خود ہی عوام کو ہنسانے کا منصب سنبھال لیا۔ سید قائم علی شاہ نے سندھ کے ایسے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے خدمات انجام دی ہیں جن پر عوام کو خوش رکھنے کا خاصا مبارک اور خوشگوار الزام عائد کیا جاتا رہا ہے! 
شاہ سائیں نے متعدد مواقع پر زبان کے پھسل جانے کا ایسا شاندار مظاہرہ کیا کہ دوست، دشمن سبھی انگشت بہ دنداں رہ گئے۔ جس عمر میں لوگ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ زندگی کچھ کرنے کے لیے عطا ہوئی ہے اُس عمر میں شاہ سائیں نے تیسری بار سندھ کے وزیر اعلیٰ کا منصب سنبھالا اور ایسا سنبھالا کہ اُن سے پھر اور کچھ سنبھالا نہ گیا ... بالخصوص زبان۔ شاہ سائیں کی زبان نے کئی بار پھسل کر ایسی صورتِ حال پیدا کی کہ لوگ ہنستے ہنستے بے حال ہوگئے اور ان کے لیے اپنے آپ کو سنبھالنا جُوئے شیر لانے جیسا ہوگیا! شاہ سائیں نے کچھ نہ کیا اور بہت کچھ کرگئے۔ شاید اُنہی کے لیے کہا گیا ہے ع 
جو لوگ کچھ نہیں کرتے، کمال کرتے ہیں! 
شاہ سائیں کی زبان جب بھی پھسلی، معاملات کچھ کے کچھ ہوگئے۔ ایک بار آصف زرداری کو شہید کہہ گئے! امجد صابری کے قتل کے بعد کی صورتِ حال میں میڈیا سے گفتگو کے دوران بار بار جنید جمشید کو دنیا سے رخصت کرتے رہے! قندیل بلوچ کے معاملے میں صنم بلوچ کو ناحق گھسیٹتے رہے! یہ شاہ سائیں ہی تھے جنہوں نے اہل کراچی کو گجر نالے کے طِبّی معائنے کی ''نوید‘‘ سُنائی! ایک بار بارش کے بعد شہر کا دورہ کرتے ہوئے انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ ایک علاقے میں 40 لٹر بارش ہوئی ہے! لوگ یہ سمجھ کر خوش ہولیے کہ اب محققین کو اپنے دماغ زیادہ نہیں پھوڑنے نہیں پڑیں گے کیونکہ شاہ سائیں نے نُوح علیہ السلام کے طوفان کی کیفیت بیان کردی ہے! 
ہم صرف زبان کے ہاتھوں خوشگوار پریشانیوں سے نبرد آزما تھے کہ شاہ سائیں کی عمر کا معاملہ بھی مارکیٹ میں آگیا اور اِس معاملے کے سامنے دیگر تمام معاملات کی دکان داری دم توڑ گئی۔ 
شاہ سائیں ویسے تو بہت نرم دل کے ہیں مگر عمر کے معاملے میں اُنہوں نے خاصی ''سنگ دِلی‘‘ کا مظاہرہ کیا ہے۔ اگر وہ خود وضاحت فرما دیتے تو یہ پورا معاملہ سمندر کے جھاگ کی طرح کب کا بیٹھ چکا ہوتا۔ مگر خیر، یہ بھی اچھا ہی ہوا کہ شاہ سائیں اپنی عمر کے حوالے سے خاموش رہے۔ اگر اس معاملے میں بھی زبان کوئی خطرناک ٹرن لیتے ہوئے پھسل جاتی تو لینے کے دینے پڑ جاتے! 
ایک ہفتہ قبل جب ہم نے شاہ سائیں کی عمر کا معاملہ کچھ کھنگالنے کی کوشش کی تب ہمیں اندازہ ہوا کہ بِھڑوں کے چَھتّے میں ہاتھ ڈالنا کیا ہوتا ہے! دفتر کے ایک ساتھی نے یاد دلایا کہ آن لائن انسائیکلو پیڈیا ''وکی پیڈیا‘‘ پر شاہ سائیں کا پیج اُن کی پیدائش کا سال 1900 شو کر رہا ہے! ہم متجسّس ہوکر جب اُس پیج پر پہنچے تو دیکھا کہ جہاں 1900 درج تھا وہاں کسی نے ایڈیٹنگ کی کوشش کی تو وکی پیڈیا کی انتظامیہ نے error notification لگادیا ہے! اِس سے پہلے کہ بات آئی گئی ہوجاتی، ہماری نظر اُسی پیج پر شاہ سائیں کی ذاتی یا نجی زندگی کے سیکشن پر پڑی۔ وہاں اُن کی تاریخ پیدائش 13 ستمبر اور پیدائش کا سال 1028 درج تھا! ہم تو یہ سوچ کر کچھ تحقیق کرنے نکلے تھے کہ 1900 کی مناسبت سے اگر شاہ سائیں 116 سال کے ہوچکے ہیں تو ان کا نام معمر ترین ورکنگ وزیر اعلٰی کی حیثیت سے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کرانے کی کوشش کریں۔ یہاں تو معاملہ کچھ اور نکلا ۔ ؎ 
مصحفیؔ! ہم تو یہ سمجھے کہ ہوگا کوئی زخم 
تیرے دل میں تو بہت کام رَفو کا نکلا! 
کوئی کہتا تھا کہ شاہ سائیں 85 سال کے ہیں اور کسی کے خیال میں وہ 90 کے ہوچکے ہیں۔ خیر، انہیں 90 کا ماننے کے لیے ہم بالکل تیار نہ تھے کیونکہ نائن زیرو سے اُن کی ان بن رہی ہے، بلکہ سیاسی اعتبار سے وہ ''نروس نائنٹی‘‘ کا شکار بھی ہوئے ہیں! پہلے ہمارا گمان تھا کہ شاہ سائیں شاید 100 کے ہوں گے۔ جب 116 کی ''نوید‘‘ سُنائی گئی تو ہم تھوڑے حیران ہوئے۔ مگر یہ کیا؟ ابھی ہم نے تحقیق کا ڈول ڈالا ہی تھا کہ شاہ سائیں کی عمر نے بھرپور جَست لگائی اور اُنہیں 988 سال کا قرار دے ڈالا! 
ہم نہیں جانتے کہ وکی پیڈیا کے پیج پر شاہ سائیں کی پیدائش کا سال 1028 غلطی سے درج ہوا، یہ کسی کی شرارت ہے یا پھر یہی حقیقت ہے! ذرا تماشا تو ملاحظہ فرمائیے کہ ابھی ہم نے شاہ سائیں کی عمر کا تعین کرنے کی طرف قدم بڑھایا ہی تھا کہ اُن کا سال پیدائش 1900 سے لڑھک کر 1028 تک آگیا۔ اور یہ سفر جاری ہے۔ ع 
بات چل نکلی ہے، اب دیکھیں کہاں تک پہنچے! 
وکی پیڈیا پر پیدائش کا جو سال درج ہے اُسے، ہماری طرف سے ایک کالم میں نشاندہی کے بعد، یکسر غلط ثابت کرنے کا بیڑا بہت سوں سے اٹھایا ہوگا مگر سب سے بڑا کلہاڑا خود شاہ سائیں نے چلا دیا ہے۔ وہ ایسے کہ انہوں نے انگریزی کے ایک جُملے پر مشتمل جو استعفٰی سندھ کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد خان کی خدمت میں پیش کیا ہے اُس پر تاریخ 27 جولائی اور سال 201 درج ہے! کچھ لوگوں کا اندازہ ہے کہ شاہ سائیں سال میں 6 لکھنا بھول گئے۔ مگر بعض منچلے یہ ماننے پر بضد ہیں کہ شاہ سائیں نے اپنی اصل عمر پر سے پردہ اُٹھانے کی کوشش کی ہے! استعفے پر درج سال کی رُو سے شاہ سائیں کی پیدائش کا سال کم و بیش 110 سال ٹھہرتا ہے اور عمر 1815سال بنتی ہے! ستم بالائے ستم یہ کہ شاہ سائیں نے 1 لکھ کر اُسے کاٹا اور 2 کیا ہے۔ یعنی ارادہ 101 لکھنے کا تھا مگر پھر قوم پر رحم فرماتے ہوئے 201 لکھا! 
ہماری سمجھ میں نہیں آرہا کہ شاہ سائیں کی عمر کے تعیّن کا بیڑا اٹھاکر ہم نے اپنے حواس کا بیڑا غرق کرنے کی کیوں ٹھانی! ہم خدا لگتی کہیں گے کہ ہمیں تو لگ پتا گیا، اوروں کی خیر ہو! شاہ سائیں کی عمر روشنی کی رفتار سے بڑھتی جارہی ہے۔ خدا کرے کہ یہ سلسلہ رک جائے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ہمیں ڈر ہے کہ کہیں مُراد علی شاہ کی حلف برداری کے وقت وہ تاریخ کے گڑھے میں مزید نہ لڑھک چکے ہوں! ہمیں اُمید ہے کہ شاہ سائیں اپنی اصل عمر خود ہی بتاکر احسان فرمائیں گے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو کئی محققین اُن کی عمر سے متعلق تحقیق کے گڑھے میں لڑھک کر جان سے جائیں گے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں