"MIK" (space) message & send to 7575

’’اُسترا‘‘ تو ہوتا ہے اِس طرح کے کاموں میں

آپ پورے یقین سے بتا سکتے ہیں کہ وہ کون سا زمانہ تھا جس میں خواتین نے مَردوں پر اپنی برتری نہیں منوائی؟ ہمیں یقین ہے کہ آپ سوچ سوچ کر تھک جائیں گے اور آخر میں ہار مان لیں گے۔ ہار مانتے ہی بنے گی کیونکہ رُوئے ارض کو اب تک وہ دور دیکھنا نصیب نہیں ہوا جس میں خواتین کے ہاتھوں مَردوں کو نیچا نہ دیکھنا پڑا ہو، درگت اور حجامت نہ بنی ہو! 
یہ سوچنا آپ کا حق ہے کہ اگر واقعی ایسا ہے کہ خواتین ہر دور میں مردوں کی درگت اور حجامت بناتی آئی ہیں تو پھر وہ حجامت کرتی دکھائی نہیں دیں؟ ہم نہایت احترام کے ساتھ عرض کریں گے کہ یہی تو خواتین کے فن کا درجۂ کمال ہے، مہارت کی انتہا ہے کہ ع 
وہ قتل بھی ''کرتی‘‘ ہیں تو چرچا نہیں ہوتا! 
آج کی دنیا میں گیسوؤں کی تراش خراش فن کا درجہ رکھتا ہے اور بہت سی خواتین اِس فن میں مہارت حاصل کرکے دام اور نام دونوں کو ایک ادا میں رضامند کر رہی ہیں! اور جو خواتین لاکھ کوشش کے باوجود ڈھنگ سے گیسو تراشنے کا ہنر سیکھ نہیں پاتیں وہ زیادہ کامیاب رہتی ہیں کیونکہ اُنہیں ٹی وی چینلز اُچک لیتے ہیں! یہ تماشا تو آپ نے بھی دیکھا ہوگا کہ جن کے اپنے بالوں کا ٹھکانہ نہیں وہ خواتین کو بالوں کی حفاظت سے متعلق مشوروں سے نوازتی رہتی ہیں! 
بھارت کی ریاست بہار سے ایک ایسی خبر آئی ہے جسے پڑھ کر ہمیں محترم اعجازؔ رحمانی کا مطلع یاد آگیا۔ ؎ 
وہ آئینے کو بھی حیرت میں ڈال دیتا ہے 
کسی کسی کو خدا یہ کمال دیتا ہے 
بہار کی شانتا بائی شری پتی یادو کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ محترمہ نے وہ کمال کر دکھایا ہے کہ آئینہ اور آئینے کے سامنے بیٹھا چہرہ دونوں ہی حیرت میں پڑ جاتے ہیں۔ شانتا بائی کو بھارت کی پہلی باضابطہ ہیئر ڈریسر کہا جاتا ہے۔ ان کی شادی بارہ سال کی عمر میں ہوئی تھی۔ بچے ابھی چھوٹے ہی تھے کہ شوہر شری پتی یادو چل بسے۔ یہ چالیس سال پہلے کی بات ہے۔ گھر میں ایسا کچھ بھی نہ تھا جسے بیچ کر گزر بسر کی جاسکتی۔ شری پتی یادو گاؤں کے اکلوتے حجام تھے۔ اُنہیں دیکھ دیکھ کر حجامت کا تھوڑا بہت فن شانتا بائی نے بھی سیکھ لیا تھا۔ کسی نے مدد نہ کی تو شانتا بائی نے گھر کا چولھا جلتا رکھنے کے لیے تلوار اٹھالی یعنی اُسترا سنبھال لیا! ایسا کرنا اُن تمام مَردوں کے منہ پر طمانچے کے مترادف تھا جو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ ؎ 
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار اِن سے 
یہ بازو مِرے آزمائے ہوئے ہیں! 
شانتا بائی کے گھر میں سونا تھا نہ چاندی مگر اُسترا تھامتے ہی اُس کی چاندی ہوگئی۔ واحد حجام شری پتی یادو کے انتقال سے گاؤں شدید ''احساسِ محرومی‘‘ کا شکار تھا۔ شری پتی کے انتقال سے شانتا بائی اور گاؤں دونوں کی زندگی میں خلاء پیدا ہوا تھا۔ شانتا بائی اپنی زندگی کا خلاء تو پُر نہ کرسکی مگر گاؤں کا خلاء پُر کرنے سے متعلق اُس کی کوشش کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ گاؤں والے یہ سوچ کر پریشان تھے کہ اب وہ شیو کہاں بنوایا کریں گے، اُن کے اور بچوں کے بال کون کاٹے گا۔ شانتا بائی نے اُسترا چلانے کی زنانہ روایت قائم ہی نہیں کی بلکہ اُسے ''مردانہ وار‘‘ برقرار بھی رکھ کر گاؤں والوں کی پریشانی دور کردی! 
شانتا بائی نے اپنے شوہر کے ٹِھیے پر کام شروع کیا تو ابتداء میں گاؤں کے لوگ بہت حیران ہوئے۔ عورت کے ہاتھوں حجامت؟ اِس تصوّر ہی سے بہت سے لوگ لرز اٹھے! کچھ لوگ یہ سوچ کر مزید پریشان ہوئے کہ گھر کے اندر تو عورت کے ہاتھوں حجامت بنا ہی کرتی ہے، اب کیا گھر کے باہر بھی عورت ہی حجامت بنائے گی! درونِ خانہ معاملہ یہ تھا کہ ؎ 
کھینچ کر تیغ یار آیا ہے 
اِس گھڑی سر جھکا دیئے ہی بنے! 
گھر (والی) سے نمٹ کر باہر جائیے اور شیو بنوانے کا سوچیے تو ایک محترمہ چوکی لیے بیٹھی ہیں۔ چوکی پر بیٹھ جائیے اور آئینہ تھام لیجیے۔ گویا ع 
اِک اور دریا کا سامنا تھا ... 
دیکھتے ہی دیکھتے شانتا بائی کا کام ایسا چل نکلا کہ لوگ آتے، خاصے مودبانہ انداز سے چوکی پر بیٹھتے اور آئینہ سنبھالتے۔ منہ پر چُپ کی مہر ہوتی مگر جسم کی زبان صاف کہہ رہی ہوتی ع 
سرِ تسلیم خم ہے، جو مزاجِ یار میں آئے! 
جب کام چل نکلا تو شانتا بائی نے اپنی خدمات کو وسعت دی۔ انسانوں کے ساتھ ساتھ وہ گاؤں کے مویشیوں کے بال بھی کاٹنے لگی! چالیس سال قبل شیو کا ایک روپیہ اور مویشی کے بال کاٹنے کے تین روپے ملتے تھے۔ اب ''ترقی‘‘ ہوگئی ہے۔ آج شیو کے پچاس روپے اور مویشی کے بال کاٹنے کے سو روپے ملتے ہیں۔ 
عجیب و غریب خبریں دینا بھارتی معاشرے کی روایت رہی ہے اور یہ روایت اُس نے بحسن و خوبی برقرار رکھی ہے۔ شانتا بائی نے جو کچھ کیا وہ کچھ زیادہ حیرت انگیز نہ تھا کہ بھارت میں جو کام مَردوں کے کرنے کے ہیں وہ عورتیں کیا کرتی ہیں اور جو کچھ عورتوں کے فرائض میں شامل ہے وہ مَردوں کے ہاتھوں پایۂ تکمیل کو پہنچتا رہا ہے۔ ایک اُسترا شانتا بائی کے پاس تھا جسے اُس نے عمدگی سے استعمال کیا اور معاشرے کے لیے قابلِ رشک حد تک کارگر ثابت ہوئیں۔ اور ایک اُسترا آں جہانی اندرا گاندھی کے ہاتھ میں بھی تو تھا۔ یہ تھا پالیسی اور اختیار کا اُسترا۔ اندرا گاندھی نے پالیسی اور اختیار کے اُسترے سے پڑوسیوں کا جو حشر کیا سو کیا، اپنے معاشرے کی بھی حجامت بنانے سے گریز نہ کیا! پہلے اُنہوں نے پاکستان پر اُسترا چلایا اور اُسے دو لخت کردیا۔ اِس کے بعد بنگلہ دیش کی باری آئی۔ بنگلہ دیشی قیادت اگرچہ ''اپنے‘‘ ہی لوگوں پر مشتمل تھی مگر اندرا گاندھی نے اُسے بھی نہ بخشا اور جب شیخ مجیب الرحمٰن قابو میں نہ آئے تو 1975 میں اُن کے اور اُن کے اہلِ خانہ کے گلے پر فوجیوں کے ایک گروپ کے ہاتھوں اُسترا پِھروا دیا! 
نیپال اور بُھوٹان بھی ہمیشہ ہی بھارت سے شاکی رہے ہیں کہ وہ دوستی کی آڑ میں اُسترا چلانے سے کبھی باز نہیں آیا۔ اِن دونوں سے ہٹ کر ایک واضح مثال سری لنکا کی ہے جس کے شمال مشرقی اضلاع میں بھارت نے تامل نسل کے باشندوں کے ذریعے شورش برپا کی۔ قریب تھا کہ بھارتی پالیسی کا اُسترا بُری طرح پِھر جاتا، سری لنکا نے چند دوستوں کی مدد سے بھارتی سازش کو ناکام بنایا اور ایک بار پھر خود مختاری و خود داری کے ساتھ جینا شروع کیا۔ 
بھارت میں دو عشروں سے بھی زائد مدت سے انتہا پسند ہندو اندرونی سلامتی اور استحکام کے گلے پر ''ہندُتوا‘‘ کا اُسترا پِِھراتے آئے ہیں۔ پہلے یہ اُسترا مسلمانوں کی گردن پر تھا۔ اب عیسائی بھی محفوظ نہیں ہیں۔ دَلِت یعنی نچلی ذات کے ہندو تو پہلے ہی ذات کے امتیازی نظام پر مبنی اُسترے کے لیے پسندیدہ گلے کا کردار ادا کرتے آئے ہیں! 
نریندر مودی سے توقع تھی کہ وہ اپنا سیاسی ماضی بُھلاکر ملک کو تعمیری سوچ سے مُزیّن کریں گے مگر ایسا لگتا ہے وہ بھی اب ذاتی انا کے جال میں پھنس چکے ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں نہتے شہریوں کے گلے پر بھرپور فوجی قوت کا اُسترا کچھ ایسی بے رحمی سے پِھرایا جارہا ہے کہ عالمی برادری بھلے ہی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہو مگر بے چینی ضرور محسوس ہو رہی ہے۔ 
شانتا بائی جیسی عورتوں کا وجود بھارتی قیادت اور پالیسی میکرز کو شرمندہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ ایک عورت کو جب کچھ اور نہ سُوجھا تو اُس نے حالات کے ہاتھوں مجبور ہوکر اُسترا تھاما مگر کسی کی گردن کاٹنے کے لیے نہیں بلکہ گھر چلانے کے لیے۔ بھارتی قیادت سمجھتی ہے کہ گھر یعنی ملک چلانے کے لیے دوسروں یعنی پڑوسیوں کی گردن پر اُسترا پھیرنا ناگزیر ہے۔ بھارت کی اِس اُسترا بازی نے پورے خطے کا امن داؤ پر لگا رکھا ہے۔ اب تو میڈیا سے بھی پڑوسی معاشروں کے تن پر جا بجا زخم لگانے کے لیے اُسترے کا کام لیا جارہا ہے۔ 
نئی دہلی کے بزرجمہر کچھ اور نہیں کرسکتے تو شانتا بائی جیسی عورتوں سے اِتنا ہی سیکھ لیں کہ تیز دھار کا اُسترا محض گردن اُڑانے کے نہیں، عزت کے ساتھ دو وقت کی روٹی کمانے کے کام بھی آتا ہے! یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جیسی کرنی ویسی بھرنی والی کہاوت ابدی حقیقت ہے۔ بھارت اُسترا چلاتا رہے گا تو اُس کے خلاف بھی اُسترا ہی چلایا جاتا رہے گا۔ ع 
''اُسترا‘‘ تو ہوتا ہے اِس طرح کے کاموں میں! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں